کائناتی قوانین اور کورونا وائرس
کائنات میں لاتعداد فلکی اجسام (سیارے و ستارے) اپنی اپنی جگہ یکساں، مسلسل اور مستقل گردش کر رہے ہیں، لیکن کرہ ارض پر تجرباتی مشاہدات سے یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔ زمین پر موجود ہر شے زمینی مکینکل قانون سے ذرہ بھر انحراف کرتی ہے تو وہ شے بوسیدگی Decay کا شکار ہو کر بتدریج معدوم ہوکر نفی ہو جاتی ہے۔
جاندار اشیا اور غیر جاندار اشیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ زمین خود زرخیز Productive ہو تو انسانوں، جانوروں کے لیے خوراک پیدا کرتی ہے۔ کائنات میں اب تک زمین جیسی زندگی والا سیارہ نہیں مل سکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اربوں، کھربوں سیاروں پر زندگی جیسا ماحول نہیں ہے۔
لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام کائنات ایک مربوط "مکینکل قانون" کے مطابق چل رہی ہے۔ ایک ایک ذرہ کائناتی اصولوں کے تابع عمل کر رہا ہے۔ زندہ اشیا جاندار، پودے (نباتات) گود در گود اپنی بقا کے عمل میں مصروف ہیں۔ غیر جاندار اشیا کیمیکل اور فزیکل تبدیلیوں کا عمل کر رہی ہیں، اگر درندوں، سانپ، بچھوؤں وغیرہ کو دیکھا جائے گا تو یہ جانداروں کی زندگی کو ختم کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس عمل کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات غیر متوازن ہے؟
سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہر زندہ شے اپنا اپنا "گودی دورانیہ" پورا کر رہی ہے۔ انسان اگر خوراک کی کمی یا ناقص غذا کا شکار ہو جاتا ہے تو کمزور ہو جاتا ہے۔ اور اس کے جسم کی "قوت مدافعت" Self Defence Force یا قوت مزاحمت Prevention Force کمزور یا ختم ہو جاتی ہے جس سے بیرونی حملہ آور جراثیم بڑھوتری (Surplus) پانے لگتے ہیں۔ کیونکہ جسم دشمن جراثیموں، بیکٹیریا کو اپنی "گودی بقا" کرنے کے لیے راستہ مل جاتا ہے۔ جراثیم تیزی سے تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے بڑھتے جاتے ہیں۔
ہر جراثیم کی بڑھوتری کا اپنا اپنا دورانیہ و وقت ہے۔ انسانی جسم ہر وقت ان حملہ آوروں سے ہمہ وقت لڑتا رہتا ہے۔ زمین پر پائی جانے والی تمام فزیکل مقداری، ساختیں اور ان کے گودی دورانیے زمینی زاویائی گردش کا نتیجہ ہیں۔ زمین کا ماحول اسی زاویائی گردش کا نتیجہ ہے۔ کسی فلکی جسم کی گردش جوں جوں بتدریج ہزاروں لاکھوں سالوں میں سست ہوتی جائے گی توں توں فزیکل مقداریں اور موجود فزیکل ساختیں زمینی گردشی (داب) دباؤ Tightness کی کمی کا شکار ہو کر معدومیت، بوسیدگی اور ناکارگی کا شکار ہوتی جائیں گی۔ اشیاؤں کی ساختوں کا باہم جڑنا Combination بتدریج ختم ہوتا جائے گا۔
ایک طرف جنگوں کے اسلحے کے انبار رات دن پیدا کیے جا رہے ہیں۔ پسماندہ ملکوں کے عوام کو بنیادی صحت تک کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کیا آج کے ترقی یافتہ دنیا کے لیڈر حکمران پورے کرہ ارض کے عوام کی تباہی کے ذمے دار نہیں ہیں؟ آج کورونا وائرس نے تقریباً پوری دنیا کے عوام کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کائنات کو تسخیر کرنے کے لیے سورج سے آگے خلائی جہاز بھیجے گئے۔ مریخ کی طرف کمندیں پھینکی جا رہی ہیں۔ چاند پر سے چکر لگا آئے۔ لیکن افسوس کرہ ارض پر زندگی کے بھید نہ کھول سکے۔ آج بھی انسان اپنے جسم کی قوت حرکت FM کی پیمائش کرنے سے قاصر ہے۔
میرے مکینکل سسٹم آف یونیورس کی بنیاد پر ایک فارمولا دیا جا رہا ہے کہ کسی انسانی جسم کی قوت حرکت کی مقدار فاصلے کا نصف 1/2 یعنی بلندی تک ہاتھوں سے اوپر کی سمت وزن کی مقدار اٹھانا، وقت سیکنڈ جتنی دیر وزن اٹھایا جائے اور وزن کی مقدار کا حاصل ضرب ہوتی ہے۔ کینسر کا مرض جسم کے کسی حصے میں غیر فطری اجزا کی جگہ بنانا۔ جس سے جسمی خلیوں کی بڑھوتری یا فطری عمل میں رکاوٹ آجاتی ہے۔ جسمی خلیے اسی جگہ آکر مرتے جاتے ہیں۔ جوں جوں خلیوں کی موت واقع ہوتی جاتی ہے توں توں ٹیومر بڑھتا جاتا ہے۔ کورونا وائرس خون و جسم میں غیر فطری اجزا کی آمیزش سے مخصوص ماحول میں فروغ پا رہا ہے۔ اس کی گروتھ پھیپھڑوں میں بڑھ جاتی ہے۔ جو نمونیے کی شکل میں سامنے آ چکا ہے۔ خون میں پھیپھڑوں کی کثافت سے کم ہوتی ہے۔
اس کی شناخت کے لیے اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ میری ناقص رائے میں (1) مریض کو ایسے پانی میں مخصوص وقت تک رکھا جائے کہ جسم کی کثافت، وزن کم ہونے پر کیا یہ تیزی سے بڑھتا ہے یا اس کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ پانی میں کوئی شے شامل کرکے کثافت زیادہ کرکے وزن میں زیادہ سے زیادہ کمی ہو جاتی ہے۔ (2)۔ دوسرا مریض کو تیز رفتاری میں رکھ کر اس وائرس کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی ساخت کی Combination ڈھیلی ہو جانے پر یہ بوسیدگی، ناکارگی کی طرف مائل ہوگا۔ (3)۔ مخصوص زمینی خطوں میں رہنے والے لوگوں کے ماحول میں غذاؤں میں Organically زمینی زاویائی گردش کی معمولی سے معمولی تبدیلی سے ناکارگی، بوسیدگی کا عمل کہیں وقوع پذیر نہ ہو رہا ہو۔
ویکسینیشن (ٹیکہ جاتی) Vaccinationعمل کے لیے اس جراثیم کو کسی جاندار کے جسم کی کھال کی اوپر کی تہ میں داخل کر کے دیکھا جائے کیونکہ اس جگہ کثافت زیادہ ہونے پر ردعمل مزاحمت شدید ہو گی اور اس جنگ میں لازمی جراثیم زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہوئے مارا جائے گا۔
اگر اس جراثیم کے ڈھانچے ساخت کے سسٹم میں زیادہ مالیکیولز ہیں تو پھر اس کی گودیت بڑھنے کے ماحولی ذرائع کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ کئی تدابیر سامنے آئی ہیں کہ ایک دوسرے سے دور رہ کر کم سے کم ایک دوسرے کو ٹچ کریں۔ اس وبا کو قیاسی قوت نامعلوم قوت تصور نہ کیا جائے۔ بلکہ مکینکل فزیکل سوچ سے دیکھا جائے۔ یہ بھوت پریت نہیں ہے۔ (4)۔ ماہرین اس طرف توجہ دیں کہ زمینی زاویائی گردش کا زاویہ گردش تو نہیں بدل رہا ہے۔ کیونکہ اس کی تبدیلی سے بتدریج پہلے چھوٹی چھوٹی ساختیں ٹوٹ پھوٹ کر نئی اشکال بوسیدگی اختیار کریں گی اور زمین پر موجود زمینی نامیاتی سسٹم اور غیر نامیاتی سسٹم متاثر ہوتا جائے گا۔ اس وائرس کے نامیاتی اور غیر نامیاتی اجزا تک رسائی کے بعد اس کا خاتمہ ممکن ہو گا۔