توقیر صادق نے سپریم کورٹ کو ہرا دیا
توقیر صادق پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر کے انتہائی قریبی عزیز ہیں، یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں، یہ2004ء میں اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کے ڈائریکٹر لیگل تھے، پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو یہ جہانگیر بدر کی مہربانی سے جولائی 2009ء میں اوگرا کے چیئرمین بن گئے، حکومت نے اس وقت تک سی این جی کے نئے لائسنسوں، سی این جی اسٹیشنوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور انڈسٹری کے غیر ضروری گیس کنکشن پر پابندی لگا دی تھی مگر توقیرصادق یہ پابندی توڑتے رہے اور انھوں نے نہ صرف تین سوسے زائد نئے سی این جی اسٹیشنز کی اجازت دے دی۔
بلکہ اسٹیشنز کی دوسرے شہروں اور مقامات پر تبدیلی، اربوں روپے کے ڈیفالٹرز کو معافی اور گیس کے منصوبوں میں اقرباء پروری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، ان کے بارے میں مشہور تھا کوئی بھی شخص انھیں بیس سے تیس لاکھ روپے دے اور جو چاہے کرا لے، ایک اندازے کے مطابق توقیر صادق نے 82 ارب روپے کی کرپشن کی، توقیر صادق کی تقرری کا ایشو اکتوبر2010ء میں سپریم کورٹ میں گیا اور کورٹ نے 25 نومبر 2011ء کو توقیر صادق کی تقرری کو کالعدم قرار دے دیا اوران کو تنخواہیں اور مراعات واپس کر نے کا حکم جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے بعد ازاں اوگرا میں ہونے والی 82 ارب روپے کی کرپشن کا نوٹس لیااور توقیر صادق کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی، عدالت نے 5 اکتوبر 2012ء کو توقیر صادق کی گرفتاری کا حکم دے دیا، توقیر صادق کا نام ای سی ایل پرڈال دیا گیا، ان کا پاسپورٹ بھی منسوخ ہو گیا لیکن یہ طاقتور لوگوں کے رشتے دار اور ساتھی تھے چنانچہ طاقتوروں نے ان کا ساتھ دیا، ان کو نیا پاسپورٹ جاری کیا گیااور انھیں ای سی ایل پر ہونے کے باوجود باہر جانے کا موقع دے دیا گیا اور یوں توقیر صادق 10 دسمبر 2012ء کو کراچی سے کھٹمنڈو اور پھر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
سپریم کورٹ کو ان کی بیرون ملک موجودگی کی اطلاع 19 دسمبر2012ء کو ہوئی، عدالت نے حکومت کو توقیر صادق کو گرفتار کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا اور یہاں سے وہ کہانی شروع ہوئی جو اس کالم کا محرک ہے اور آپ یہ کہانی پڑھ کر بڑی آسانی سے اندازہ لگا لیں گے، ہماری بیورو کریسی اگر نہ چاہے تو سپریم کورٹ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ریاست کے کسی ادارے سے اپنا حکم نہیں منوا سکتی اور یوں انصاف فائلوں میں بند ہو کر رہ جاتا ہے۔
توقیر صادق ابوظہبی چلا گیا، سپریم کورٹ نے حکومت کو سختی سے اس کی گرفتاری کا حکم دیا، حکومت اس پر عمل کی پابند تھی چنانچہ اس نے تین رکنی ٹیم بنائی اور اسے یو اے ای بھجوا دیا، اس ٹیم نے قانونی طریقہ اختیار کرنے یعنی پاکستان میں یو اے ای کے سفارتخانے، ابوظہبی انتظامیہ اور انٹرپول کو اعتماد میں لینے کے بجائے سیر کے ویزے لگوائے اور ابوظہبی چلی گئی، یہ ٹیم سیر کے ویزے پر یو اے ای میں کوئی سرکاری کام نہیں کر سکتی تھی، یہ اس ٹیم کی پہلی بدنیتی یا نالائقی تھی، یہ لوگ ابوظہبی پہنچنے کے بعد ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ملے۔
یہ ڈاکٹر صاحب شاہی خاندان کے طبیب ہیں اور یہ اس حیثیت کی وجہ سے مقامی بیورو کریسی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ڈ اکٹر صاحب نے یو اے ای کی سی آئی ڈی کے چند درمیانے درجے کے افسروں سے ان کی سفارش کی، سی آئی ڈی نے توقیر صادق کو تلاش کیا اور ہماری ٹیم کے ساتھ مل کر اسے 29 جنوری کو گرفتار کر لیا، گرفتاری کے بعد ہماری ٹیم اگر یو اے ای کی حکومت کو سپریم کورٹ کا آرڈر دے دیتی یا حکومت کو یہ لکھ کر دے دیتی توقیر صادق کا پاسپورٹ منسوخ ہو چکا ہے، یہ جعلی پاسپورٹ پر ابوظہبی میں موجود ہے اور یہ پاکستان سے اشتہاری ہے تو مقامی حکومت توقیر صادق کو اسی وقت "ڈی پورٹ" کر دیتی اور یوں ہماری ٹیم اسے ساتھ لے آتی لیکن ہماری ٹیم اسے یو اے ای میں چھوڑ کر واپس آ گئی اور اس نے پاکستان میں آ کر اعلان کر دیا " توقیر صادق 24 گھنٹے میں پاکستان آ جائے گا" ہماری ٹیم نے پاکستان آنے کے بعد یو اے ای سے کسی قسم کاکوئی سرکاری رابطہ نہیں کیا۔
چنانچہ ابوظہبی انتظامیہ نے توقیر صادق کو جیل بھجوا دیا، ہمارے پاس اس کے بعد صرف ایک آپشن تھا، پاکستان اور یو اے ای کے درمیان 2004ء میں تحویل مجرمان کا معاہدہ ہوا تھا، ہم اس معاہدے کے تحت توقیر صادق کو پاکستان لا سکتے تھے، یو اے ای کی حکومت نے توقیر صادق کے کاغذات یو اے ای انٹرپول کے حوالے کر دیے، یو اے ای انٹرپول نے یہ کاغذات پاکستانی انٹرپول کے حوالے کر دیے، پاکستانی انٹرپول نے روٹین کے مطابق یہ کاغذات ہماری وزارت خارجہ کو بھجوا دیے، ہماری وزارت خارجہ نے یہ کاغذات وزارت داخلہ کو روانہ کر دیے اور وزارت داخلہ نے یہ کاغذات نیب کے حوالے کر دیے، نیب نے ایف آی اے کو دے دیے۔
پاکستان اور یو اے ای کے درمیان تحویل مجرمان کے معاہدے میں 16 نکات ہیں اور ہماری حکومت جب تک یہ 16 نقطے پورے نہیں کرتی یو اے ای ہمارا مجرم ہمارے حوالے نہیں کر سکتی، ان نکات میں مجرم کے خلاف مقدمے کی سمری، عدالت کا فیصلہ، گواہوں کے بیان اور چارج شامل ہیں، معاہدے کے مطابق ہماری حکومت یہ تمام مواد عربی میں ترجمہ کر کے اس کی وزارت خارجہ سے تصدیق کرائے گی، وزارت خارجہ یہ دستاویزات یو اے ای میں پاکستانی سفارتخانے بھجوائے گی، ہمارا سفارتخانہ یہ ڈاکومنٹ یو اے ای کی وزارت خارجہ کے حوالے کرے گی۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ یہ کاغذات جسٹس منسٹری بھجوائے گی اور جسٹس منسٹری یہ ڈاکومنٹس عدالت میں پیش کرے گی، پاکستان نے تحویل مجرمان کے معاہدے کے مطابق یہ سارا عمل پندرہ دن میں مکمل کرنا تھا، ایف آئی اے کے حکام اس عمل سے واقف تھے لیکن یہ خاموش بیٹھے رہے، حکومت نے توقیر صادق کو 15 فروری کو عدالت میں پیش کرنا تھا، ہماری تفتیشی ٹیم بارہ تیرہ فروری تک چپ بیٹھی رہی جوں ہی توقیر صادق کی تاریخ قریب آئی یہ لوگ سپریم کورٹ چلے گئے اور سپریم کورٹ نے انھیں یو اے ای کی عدالت سے نئی تاریخ لینے کا حکم دے دیا، ہماری ٹیم عدالتی آرڈر لے کر ابوظہبی پہنچ گئی اور سپریم کورٹ کا حکم سفیر کو پکڑا دیا، سفیر جمیل احمد خان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، ہماری تفتیشی ٹیم ان پر جانبداری کا الزام لگا چکی تھی لہٰذا سفیر کو اس حکم میں اپنی جیل صاف دکھائی دے رہی تھی۔
یہ دوڑا، اس نے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کیا اور یو اے ای عدالت سے مزید 15 دن لے لیے، توقیر صادق کی تحویل کی اگلی تاریخ 27 فروری تھی، ہماری ٹیم واپس آئی اور دوبارہ سو گئی، 24 فروری کو ان لوگوں نے چند کاغذات جمع کیے اور یہ ان کا ترجمہ کرائے بغیر، وزارت خارجہ سے تصدیق کرائے بغیر اور سفارتی چینل استعمال کیے بغیر ابوظہبی پہنچ گئے، معاہدے کے مطابق نکات بھی پورے نہیں تھے، یہ لوگ 27 فروری کو سفیر کو لے کر عدالت میں پیش ہو ئے، جج نے کاغذات دیکھے تو وہ ناراض ہو گیا، اس نے سفیر اور ہماری ٹیم کی بے عزتی کی، کاغذات پورے کرنے اور پراپر چینل استعمال کرنے کا حکم دیا اور 15 اپریل کی تاریخ دے دی، یہ آخری تاریخ ہے، ہماری تفتیشی ٹیم نے اگر اس تاریخ پر بھی کاغذات مکمل نہ کیے اور انھوں نے پراپر چینل استعمال نہ کیا تو یو اے ای کی عدالت توقیر صادق کورہا کر دے گی اور پھر ہم شاید اسے کبھی پاکستان نہ لا سکیں اور یہ ہماری بیورو کریسی کا کمال ہو گا۔
میں ہرگز ہرگز یہ نہیں کہتا یہ لوگ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہ نااہلی، سستی اور نالائقی ہو مگر اس نالائقی، سستی اور نااہلی سے پاکستان کا امیج بھی خراب ہو رہا ہے اور توقیر صادق بھی شکنجے سے نکل رہا ہے، یو اے ای کی حکومت اور عدالت کاغذات کا انتظار کر رہی ہے جب کہ ہمارے ہاں توقیر صادق کے سمن اس کے لاہور کے گھر میں پھینکے جا رہے ہیں، میری سپریم کورٹ بالخصوص چیف جسٹس سے درخواست ہے یہ فوری طور پر پاکستان اور یو اے ای کے تحویل مجرمان کا معاہدہ منگوائیں اور نیب اور ایف آئی اے کو حکم جاری کریں یہ دو دن میں پروسیجر مکمل کر کے یو اے ای میں پاکستانی سفارتخانے بھجوا دیں اور اس کے بعد سفیر کو حکم دیا جائے۔
یہ کاغذات یو اے ای کی وزارت خارجہ پہنچائے، کاغذات کا پیچھا کرے، یو اے ای کی جسٹس منسٹری کا عمل پورا کرے اور 15 اپریل سے پہلے یہ تمام کاغذات ابوظہبی عدالت میں جمع کرا دے، سپریم کورٹ ایف آئی اے اور نیب کی تفتیشی ٹیم سے بھی پوچھے ان لوگوں نے سرکاری چینل استعمال کیوں نہیں کیا؟ یہ وزٹ ویزوں پر یو اے ای کیوں جاتے رہے، یہ توقیر صادق کو 29 جنوری 2013ء کو ڈی پورٹ کرا کر پاکستان کیوں نہیں لائے، انھوں نے کاغذات پورے کیوں نہیں کیے اور یہ صرف آخری دنوں میں سپریم کورٹ اور یو اے ای کی عدالت میں کیوں جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ پوچھے گی تو تفتیشی ٹیم کی نااہلی یا جانبداری کا پول کھل جائے گا اور یوں عدالت کے لیے اگلے فیصلے آسان ہو جائیں گے لیکن سپریم کورٹ نے یہ دس دن بھی ضایع کر دیے، توقیر صادق کی تحویل کے لیے پراپر چینل استعمال نہ ہوا تو یہ یو اے ای کی جیل سے رہا ہو جائے گا اور شاید اس کے بعد ہم کبھی توقیر صادق کو گرفتار نہ کرا سکیں اور یوں قوم کے 82 ارب روپے بیورو کریسی کی چال بازیوں یا نالائقیوں کی دلدل میں دفن ہو جائیں گے اور انصاف چند چیختے بلبلاتے فیصلوں کا مرثیہ بن کر رہ جائے گا اور جمہوریت کی طرح ہماری آزاد عدلیہ بھی ناکام ہو جائے گی، توقیر صادق کاریگر آدمی ہے، یہ اب تک سپریم کورٹ کو شکست دے چکا ہے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔