رین کوئین
سر ہنری رائڈر ہیگرڈ (Sir Henry Rider Haggard) برطانوی سول سرونٹ اور مصنف تھا، یہ1875ء میں سائوتھ افریقہ آیا اور یہاں خصوصی کمشنر کا معاون بن گیا، وہ جنوبی افریقہ میں برطانوی کالونی کی تشکیل کا زمانہ تھا، نوجوان ہیگرڈ اس زمانے میں افریقہ آیا اور اس نے ایک سرے سے دوسرے کونے تک افریقہ کو دیکھنا اور سمجھنا شروع کر دیا، وہ اس زمانے میں گھومتا ہوا زمبابوے کی سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے میں پہنچ گیا۔
مقامی لوگ اس ٹائون کو مجاجی (Majajes) کہتے تھے، اس ٹائون اور اس کے گرد آباد علاقے پر ایک پراسرار خاتون حکمرانی کرتی تھی، لوگ اسے اپنی زبان میں بارش کی ملکہ (رین کوئین) کہتے تھے، لوگوں کا عقیدہ تھا رین کوئین جب اپنے گھر سے باہر نکل کر رقص کرتی ہے تو پورے علاقے میں بارش شروع ہو جاتی ہے، رین کوئین سال میں صرف ایک بار اپنے گھر سے نکلتی تھی اور وہ اس کے علاوہ کسی شخص سے ملاقات نہیں کرتی تھی۔
وہ اگلی رین کوئین کے لیے زندگی میں ایک بار اپنی مرضی کے مرد سے ملتی تھی، اس ایک ملاقات سے اس کے بطن سے لڑکی پیدا ہوتی تھی، وہ اس لڑکی کی پرورش کرتی تھی، اسے بارش کا جادو سکھاتی تھی اور جب وہ لڑکی جوان ہو جاتی تھی تو پرانی کوئین فوت ہو جاتی تھی اور نئی ملکہ اس کی جگہ لے لیتی تھی، ہیگرڈ کسی نہ کسی طریقے سے رین کوئین تک پہنچ گیا، اس کی اس سے ملاقات ہوئی، اس نے اس کی کہانی سنی تو پتا چلا رین کوئین آواگان کا سلسلہ ہے، اس کا نام عائشہ ہے، وہ عرب ہے اور اس کا دعویٰ ہے وہ دو ہزار سال بعد دوبارہ پیدا ہوئی ہے۔
اس کا محبوب بھی عن قریب اس سے ملے گا اور وہ دونوں نئی رین کوئین پیدا کر کے ایک بار پھر دنیا سے رخصت ہو جائیں گے، ہیگرڈ نے یہ کہانی سنی اور اس نے اس کے دل اور دماغ پر گہرا نقش چھوڑا، وہ جاب مکمل کر کے لندن واپس آیا اور لکھاری کی حیثیت سے نیا کیریئر شروع کر دیا، اس نے 1887میں شی (She) کے نام سے ناول لکھا اور انگریزی دان طبقے میں تہلکہ مچا دیا، شی اپنے دور کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناول تھا، ہیگرڈ نے اس کے بعد اس کی دوسری قسط "عائشہ کی واپسی" کے نام سے لکھی۔
یہ ناول بھی سابق ناول کی طرح بے تحاشا مقبول ہوا، میں نے یہ دونوں ناولز جوانی میں پڑھے تھے، اردو میں ان کا ترجمہ آشا اور آشا کی واپسی کے نام سے ہوا تھا اور وہ اتنے پراثر اور شان دار تھے کہ میں آج چالیس سال بعدبھی ان کے اثر سے نہیں نکل سکا، ڈاکٹر کاشف مصطفی سال پہلے پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے باتوں ہی باتوں میں مجاجی اور رین کوئین کا ذکر کیا اور میں ہیگرڈ کے دونوں ناولوں میں واپس کود گیا اور میں نے فیصلہ کر لیا میں ان شاء اللہ مجاجی بھی جائوں گا اور رین کوئین کا ڈانس بھی دیکھوں گا۔
ہم ہفتہ 10 ستمبر کی صبح مجاجی کے لیے روانہ ہوئے، یہ سائوتھ افریقہ کے صوبے لم پو پو (Limpopo) کا حصہ ہے، زمبابوے کے بارڈرپر ہے، جوہانس برگ سے مجاجی پہنچنے میں چار گھنٹے لگتے ہیں، ہم ہائی وے سے ہوتے ہوئے دوپہر ڈیڑھ بجے مجاجی پہنچ گئے۔
سائوتھ افریقہ کی سڑکیں اور ریسٹ ایریاز یورپ کی طرح جدید اور باسہولت ہیں، ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی محسوس نہیں ہوتا ہم افریقہ میں گھوم رہے ہیں، یہ سب گوروں کا کمال ہے، ہالینڈ کے باشندے 1652ء میں سائوتھ افریقہ آئے تھے، ان کے پیچھے پیچھے جرمن پہنچے، بعدازاں برطانوی زمین داربھی جنوبی افریقہ پہنچ گئے اور یہ اپنے ساتھ ہندوستانی باشندے بھی لے آئے۔
یوں سائوتھ افریقہ چار قومیتوں میں تقسیم ہو گیا، سیاہ فام باشندے لوکل تھے، ملائیشیا کے مسلمانوں نے انہیں کافر کا نام دے دیا، ہالینڈ، جرمنی اور برطانیہ کے آقا بور (یہ ولندیزی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے زمین دار) کہلاتے ہیں، ہندوستانی مہاجرریلوے لائین بچھانے کے لیے لائے گئے تھے۔
یہ ریلوے سٹیشنوں پر کام کرتے تھے لہٰذا ان کا نام قلی پڑ گیا اور ان سب کے ملاپ سے ایک نئی نسل نے جنم لیا اور یہ نسل کلرڈ کہلانے لگی، گورے سائوتھ افریقہ پر ساڑھے تین سو سال حکمران رہے، یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، دنیا میں سونے اور پلاٹینم کی سب سے بڑی کانیں سائوتھ افریقہ میں تھیں۔
ایک وقت تھا جب دنیا کا ستر فیصد سونا یہاں سے نکالا جاتا تھا جب کہ پلاٹینم میں آج بھی ان کا شیئر 70 فیصد ہے، دوسرا زمین بہت ذرخیز ہے لہٰذا گوروں نے یہاں لاکھوں ایکڑز پر محیط فارم بنائے اور یہ تین اطراف سے دو سمندروں بحر ہند اور بحر اوقیانوس میں گھرا ہوا ہے
چناں چہ یہ طویل کوسٹل لائین کا مالک بھی ہے اور افریقہ کا گیٹ بھی، گوروں نے اسے جی بھر کر لوٹا بھی اور بنایا بھی لہٰذا یہ آج کسی بھی طرح یورپ سے کم تر دکھائی نہیں دیتا، اس کی فضا اور انفراسٹرکچر یورپی ہے لیکن یہ مغربی دنیا سے 16 گنا سستا ہے۔
یہ دنیا کے چند ایسے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جس کی گوری آبادی انقلاب کے بعد اپنے ملکوں میں واپس گئی اور پھر چند برسوں میں واپس سائوتھ افریقہ آ گئی، یہ لوگ بزنس مین اور فارمر ہیں اور یہ آج بھی اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ہم گوروں کی بنائی ہائی وے کے ذریعے دوپہر ڈیڑھ بجے مجاجی پہنچے، یہ دنیا کے آخری کونے میں ایک پراسرار جگہ تھی۔
رین کوئین کا محل پہاڑی پر واقع ہے اور یہ بانس کے پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے، وادی میں کوئین کے ماننے والے رہتے ہیں، آخری کوئین 2005ء میں فوت ہو گئی تھی، اس کی بیٹی اس وقت نابالغ اور زیرتربیت ہے لہٰذا پچھلے 17 برسوں سے ملکہ کا ڈانس نہیں ہوا، مقامی لوگوں کا دعویٰ تھا رین کوئین واقعی خشک موسم میں باہر نکلتی ہے، مقامی جڑی بوٹیوں کی دھونی مارتی ہے، جادو پڑھتی ہے، رقص شروع کرتی ہے۔
چند لمحوں میں پوری وادی پر بادل منڈلاتے ہیں اور پھر خوف ناک بارش شروع ہو جاتی ہے، ہم نے ان سے ثبوت مانگا تو انہوں نے ہمیں سائی کیڈ (Cycad) کے جنگل کی طرف بھجوا دیا، پہاڑی کے آخری کونے پر واقعی سائی کیڈ کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا، یہ دنیا کے قیمتی ترین پودوں میں شمار ہوتا ہے، ایک میٹر درخت کی قیمت لاکھ ڈالر اور ایک بیج سو ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔
سائی کیڈ کے بیج اور پودے مجاجی سے باہر نہیں لے جا سکتے، ہم جنگل سے باہر نکل رہے تھے تو پولیس نے ہماری گاڑی کی باقاعدہ تلاشی لی، یہ پودا بے شمار بیماریوں کا علاج ہے، اس کے لیے بے تحاشا بارش اور پانی درکار ہوتا ہے جب کہ مجاجی کا علاقہ خشک اور بے آب و گیا ہے لہٰذا وہاں سائی کیڈ کی موجودگی کا امکان نہیں ہو سکتا تھا مگر وہاں دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا۔
مقامی لوگوں کا کہنا تھا ہماری ملکہ اس سے چند سو میٹر کے فاصلے پر رقص کرتی ہے چناں چہ یہاں ہر سال معجزاتی بارش ہوتی ہے اور یہ پودا اس معجزاتی بارش کا نتیجہ ہے، مقامی لوگ اپنی ملکہ کا بے انتہا احترام کرتے ہیں یوں محسوس ہوتا تھا یہ لوگ کسی گہرے جادو کے زیر اثر ہیں اور ملکہ کے بارے میں کوئی منفی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا سائوتھ افریقہ کا ہر صدر حلف لینے کے بعد رین کوئین کے دروازے پر سلام کے لیے ضرور پیش ہوتا ہے، نیلسن مینڈیلا بھی ان میں شامل تھے، وہ اپنے صدارتی دور میں کئی مرتبہ مجاجی آئے اور ملکہ کے ساتھ طویل ڈائیلاگ کیے، ملکہ کے زائرین پورے افریقہ میں بکھرئے ہوئے ہیں، یہ دور دور سے اس کی زیارت کے لیے مجاجی آتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے بارش دیکھتے ہیں۔
کیا رین کوئین واقعی بارش لا سکتی ہے یا پھر یہ بھی بے شمار دوسرے الوژنز کی طرح ایک متھ، ایک دھوکا ہے، میں وہاں کھڑا ہو کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن لوگ بہرحال اس پر یقین کرتے ہیں اور یہ مشاہدے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور میرا زندگی بھر کا تجربہ ہے دنیا میں ہر چیز ممکن ہے۔
اس کائنات میں سب کچھ ہو سکتا ہے اور لوگ اگر کسی چیز، عادت یا روایت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں مان لینا چاہیے، ہمیں ان کے یقین پر شک نہیں کرنا چاہیے، دنیا اگر ہماری عبادت اور عقائد کا احترام کرتی ہے تو پھر ہمیں بھی دوسروں کے عقائد، روایات اور عبادات کا احترام کرنا چاہیے، ہم نے رین کوئین کے احاطے میں جانے کی کوشش کی مگر انتظامیہ نے ہمیں اجازت نہیں دی۔
ہم نے وہ رات زنین (Tzaneen) میں گزاری، یہ چھوٹا سا پہاڑی قصبہ ہے، صاف ستھرا ہے اور سیاح یہاں آبشار، جنگلی حیات اور ٹریکنگ کے لیے آتے ہیں، شہر کے گردونواح میں گوروں کے فارم ہائوسز ہیں، دور دور تک سبزہ، کھیت اور باغات بکھرے ہوئے ہیں، سائوتھ افریقہ کے گوروں کا صرف ایک مطالبہ ہوتا ہے، اپنی شراب، اپنا فارم ہائوس اور پرائیویٹ زندگی، یہ حکومت کو اپنی حدود میں داخل نہیں ہوتے دیتے۔
یہ حکومت کو صاف کہہ دیتے ہیں آپ کو مجھ سے جتنی پیداوار چاہیے میں دوں گا، جتنا ٹیکس چاہیے آپ وہ بھی لے لو بس مجھے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے دو، کام کرنے دو چناں چہ حکومت ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی، یہ فارمنگ کرتے ہیں اور اپنے فارم ہائوس میں اپنے جانوروں اور خاندان کے ساتھ مزے سے زندگی گزارتے ہیں، زنین میں سیکڑوں ایکڑز کے ہزاروں فارم ہائوس تھے۔
شہر میں ہزار کے قریب پاکستانی بھی تھے، ہم حلال کھانے کی تلاش میں بھارتی گجراتی مسلمان کے ریستوران پر پہنچے تو ڈی جی خان کے دو بھائیوں سے ملاقات ہو گئی، یہ دنیا کے آخری کونے میں مزے سے زندگی گزار رہے ہیں، سارا دن کام کرتے ہیں اور شام کو عمران خان کی تقریریں سنتے ہیں۔
انہوں نے بڑے پیار سے شکوہ کیا آپ ہمارے خان کی مخالفت نہ کیا کریں اور میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کے مشورے سے اتفاق کر لیا، وہ شام اچھی تھی، سائوتھ افریقہ کا کنارہ تھا، گرمی تھی اور فضا میں جانوروں کی آوازیں تھیں اور کانوں میں عمران خان کے فقروں کی گونج تھی "اوئے میں نہیں چھوڑوں گا" اور ہم سو گئے۔