پیرس کی کرسمس
بشیر بلور صاحب کے انتقال کی خبر فرینکفرٹ میں ملی، عاطف نے نیپلز سے فون کر کے اطلاع دی، بشیر بلور خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئے ہیں، یہ پاکستان سے باہر پاکستان کے بارے میں پہلی بری خبر تھی، میں دکھ میں چلا گیا، بشیر بلور شاندار انسان تھے، یہ متحرک بھی تھے، جی دار بھی اور گفتگو میں سیدھے بھی۔ بلور برادران محبت کرنے والے وضع دار لوگ ہیں، سینیٹر الیاس بلور سے پچھلے سال پیرس کے ایک ریستوران میں ملاقات ہوئی، میں ریستوران سے باہر نکلا، الیاس بلور نے آواز دے کر واپس بلوایا، اپنا مفلر اتار کر میری گردن پر لپیٹا اور بڑے پیار سے کہا " باہر سردی ہے، اپنی گردن اور کان کور کر کے باہر نکلو" یہ بظاہر معمولی بات تھی لیکن اچھے لوگ ایسی معمولی باتوں ہی سے پہچانے جاتے ہیں اور یہ وضع داری اور یہ محبت بلور برادران کی خاندانی عادت ہے، آپ نے حاجی غلام احمد بلور کے بیانات بھی پڑھے اور سنے ہوں گے، یہ اپنی کھری اور سچی باتوں کی وجہ سے ہمیشہ میڈیا پرسنز کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
آپ ریلوے کے بارے میں ان کے بیانات یاد کیجیے یا پھر سیم باسیل کی توہین آمیز فلم کے بعد غلام احمد بلور کا رد عمل دیکھئے، آپ ان کی جرأت کو سلام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، پاکستان عاشقان رسولؐ سے بھرا ہوا ہے، آپ کو پاکستان میں ایسے کروڑوں لوگ مل جائیں گے جو رسولؐ کے نام پر دیوانہ وار نعرے بھی لگاتے ہیں اور غلامی رسولؐ میں جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن سیم باسیل کی فلم پر اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں غلام احمد بلور واحد مسلمان تھے جنہوں نے سیم باسیل کو قتل کرنے والے کو ایک لاکھ ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیا تھا اور اس کے ردعمل میں ان پر امریکا اور برطانیہ آنے پر پابندی لگ گئی، یہ بیان اور یہ پابندی بلور برادران کی دین سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، بشیر بلور بھی ایک ایسے ہی انسان تھے، یہ بھی وضع دار تھے، یہ بھی جرأت مند تھے اور یہ بھی دین کی محبت سے مالا مال تھے، یہ اس وقت طالبان کو للکارتے رہے جب پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں کوئی لیڈر طالبان کا نام تک نہیں لیتا تھا، ہمیں یہ ماننا پڑے گا خیبر پختونخواہ میں سیاست اس وقت کانٹوں کا بستر ہے، صوبے کی قیادت چاروں اطراف سے خطرات میں گھری ہوئی ہے اور ان خطرات میں خاندان سمیت سروائیو کرنا انتہائی مشکل ہے مگر یہ لوگ ان مشکل بلکہ خطرناک ترین حالات میں بھی لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔
آپ میاں افتخار حسین کی مثال لے لیجیے، میاں افتخار حسین کا صاحبزادہ میاں راشد حسین اسی قسم کے حملے میں شہید ہو گیا، یہ میاں صاحب کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن میاں افتخار حسین اکلوتے جوان بیٹے کی شہادت کے باوجود آج تک خیبر پختونخواہ میں کام بھی کر رہے ہیں اور ان کے اعصاب بھی بحال ہیں اور ہم اگر اتنی قربانیوں کے بعد ان لوگوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے تو یہ زیادتی ہو گی، بشیر بلور کی شہادت صرف بلور خاندان کا نقصان نہیں بلکہ یہ پورے ملک کا نقصان ہے اور ہم نے اگر نقصان کا یہ عمل نہ روکا تو یہ ملک برائلر مرغوں کا ایک ایسا پنجرہ بن جائے گا جس کا ہر باسی پروں میں سرچھپا کر اپنے ذبح ہونے کا انتظار کرتا رہتا ہے، پنجرے کا دروازہ کھلتا ہے، خون میں لتھڑا ہوا ایک ہاتھ اندر آتا ہے، مظلوم مرغوں میں سے کسی ایک کو دبوچتا ہے، اس کے گلے پر چھری پھیر کر اسے پھڑ پھڑانے کے لیے ڈبے میں پھینک دیتا ہے اور دوبارہ پنجرے کی طرف چل پڑتا ہے اور اس سارے عمل کے دوران زندہ مرغے سرجھکا کر مرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
فرینکفرٹ اور پیرس کی کرسمس اپنے جوبن پر تھی، فرینکفرٹ کا ڈائون ٹائون خصوصی طور پر سجایا گیا تھا، سڑکوں پر قمقموں کے جال لگا کر ستاروں کا سایہ کر دیا گیا تھا، آپ سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے تھے تو آپ کے سروں پر مصنوعی ستاروں کی میلوں لمبی کہکشاں چلتی تھی، سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں دائیں بائیں سیکڑوں کرسمس ٹری ایستادہ تھے، ان مصنوعی درختوں پر چھوٹے بچوں کے لیے تحفے لٹکے تھے، فٹ پاتھوں پر مصنوعی برف باری بھی کی گئی تھی، یہ سفید روئی تھی جو دور سے برف کا تاثر دیتی تھی، شہر میں جگہ جگہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے دن کا منظر بنایا گیا تھا، یہ مومی مجسموں کا کارنر ہوتا ہے جس میں بیت اللحم کے ان گڈریوں کے مجسمے لگائے جاتے ہیں جو حضرت مریم ؑ کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، حضرت مریم ؑ کا مجسمہ کھجوروں اور انجیر کے جھنڈوں تلے دکھایا جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ حضرت مریم ؑ کی گود میں ہوتے ہیں اور یہ گڈریوں سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، حضرت عیسیٰ ؑ کا یہ کارنر جگہ جگہ بنا تھا اور لوگ یہاں رک رک کر اپنے بچوں کو حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت مریم ؑ، حضرت جبرائیل ؑ اور یہودیوں کے کردار کے بارے میں معلومات دے رہے تھے۔
یورپ کی یہ کرسمس گرم تھی کیونکہ اس سال یورپ کے بڑے شہروں میں کرسمس پر برف نہیں پڑی، یہ لوگ گرم کرسمس کو خدا کی ناراضی گردانتے ہیں اور کرسمس کے دن اللہ سے خصوصی معافی مانگتے ہیں، فرینکفرٹ میں کرسمس کے خصوصی بازار لگے تھے، یہ ہماری عیدوں جیسے خیمہ اور ہٹ بازار تھے لیکن ان میں ایک خاص قسم کا سلیقہ، ترتیب اور خوبصورتی تھی، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ ان بازاروں میں پھر رہے تھے اور کرسمس کو انجوائے کر رہے تھے، ہم 23 دسمبر کی رات پیرس آ گئے، پیرس کرسمس کے لیے خصوصی طور پر سجایا گیا تھا، پوری شانزے لیزے پر سفید براق قمقموں کی چھت سی بنائی گئی تھی، آپ سڑک کے سرے پر کھڑے ہو کر سڑک کی طرف دیکھتے تھے تو آپ کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان سے مسلسل برف برس رہی ہے اور یہ برف سڑک سے دس فٹ کی اونچائی پر پہنچ کر رک گئی ہے۔
شانزے لیزے کے آخری کنارے پر لوو میوزیم کی طرف کرسمس میلا لگا تھا، سڑک کے دونوں اطراف لکڑی کے سیکڑوں ہٹس تھے اور ان ہٹس میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بک رہی تھیں، یہ کرسمس سے متعلق اشیاء کے اسٹال تھے، ان میں کھانے پینے کی اشیاء کے اسٹالز بھی تھے، لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر کھا پی رہے تھے، میلے میں بچوں کے جھولے بھی تھے، اسکیٹنگ کا مصنوعی برفانی میدان بھی تھا اور فلک بوس گول جھولے بھی، پیرس کے ہزاروں خاندان بچوں سمیت اس جگہ موجود تھے لیکن کسی طرف کسی قسم کی ہڑبونگ یا افراتفری دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پیرس کی کارپوریشن نے فٹ پاتھ پر پلاسٹک کا فرش بھی ڈال دیا تھا، اس فرش کی وجہ سے لوگوں کو چلنے پھرنے میں سہولت ہو رہی تھی، میلے کے دائیں بائیں انتہائی خوبصورت، دیدہ زیب اور جمالیاتی ذوق سے بھرپور لائٹنگ کی گئی تھی، میلے میں جا کر معلوم ہوا پیرس میں لکڑی کے ہٹس کی مختلف کمپنیاں کام کرتی ہیں۔
یہ کمپنیاں میلوں کی جگہ پر لکڑی کے ہٹس رکھ جاتی ہیں اور مختلف لوگ اپنی مصنوعات کی فروخت اور مشہوری کے لیے یہ ہٹس کرائے پر لے لیتے ہیں، میلے کے آخر میں یہ لوگ اپنی پراڈکٹس گاڑیوں میں بھر کر اپنی دکان، گودام یا گھر لے جاتے ہیں اور ہٹس کمپنیاں اپنے ہٹس اٹھا کر لے جاتی ہیں، پاکستان میں بھی ہر سال دونوں عیدوں پر ایسے میلے لگتے ہیں، حکومت کو چاہیے یہ بڑے شہروں کی کارپوریشنز کے لوگوں کو ایسے میلوں میں بھجوائے، یہ لوگ ان انتظامات کا جائزہ لیں اور اس کے بعد دونوں عیدوں کے موقع پر پاکستان میں بھی ایسے ہٹس بازار لگا دیے جائیں، اس سے عوام کو تفریح کا موقع بھی ملے گا، یہ خرید وفروخت بھی کر سکیں گے اور کاروباری مواقع بھی بڑھیں گے۔
عیسائی دنیا کرسمس کی رات (چوبیس اور پچیس دسمبر کی درمیانی رات) اپنے گھروں میں گزارتی ہے، پورا خاندان اس رات اکٹھا ہوتا ہے اور یہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، یہ لوگ اس رات ٹرکی کا سالن پکاتے ہیں، پورا خاندان ٹرکی کا سالن کھاتا ہے، خصوصی طور پر وائن پیتا ہے، یہ لوگ اس رات کو " فیملی ری یونین" کے طور پر مناتے ہیں، عیسائی دنیا میں کرسمس کے دنوں میں فلائیٹس اور ٹرینوں کے ٹکٹ ملنا مشکل ہو جاتے ہیں، تمام ٹرینیں اور فلائیٹس "پیک" ہوتی ہیں، اس کی وجہ کرسمس نائیٹ کا کھانا ہوتا ہے، بڑی بوڑھیاں اپنے گھروں میں اپنے بچوں، پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کا انتظار کرتی ہیں، ہم لوگ 23 دسمبر کی رات پیرس ریلوے اسٹیشن پر اترے تو بے شمار بوڑھے اور بوڑھیاں اپنے اپنے بچوں کا انتظار کر رہی تھیں، یہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیکھ کر ان کے ساتھ لپٹ جاتی تھیں اور پھر بڑی دیر تک نواسے، نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو چومتی رہتی تھیں، یہ منظر دیکھ کر محسوس ہوتا تھا مشرق ہو یا مغرب انسان کے جذبات ایک جیسے رہتے ہیں، یہ تبدیل نہیں ہوتے، یہ لوگ کرسمس کی رات کرسمس ٹری پر بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تحفے لٹکا دیتے ہیں۔
عیسائی بچوں کا عقیدہ ہے رات کے پچھلے پہر سانتا کلاز آسمان سے اترتا ہے اور ان کے ٹری پر ان کے لیے تحفے لٹکا جاتا ہے چنانچہ بچے سونے سے قبل اپنے گھر کی کوئی نہ کوئی کھڑکی کھلی چھوڑ دیتے ہیں تا کہ سانتا کلاز آسانی سے ان کے گھر داخل ہو سکے۔ پیرس اور فرینکفرٹ کے تمام گھروں کے صحنوں میں کرسمس ٹری موجود تھے، ان درختوں پر روئی سے مصنوعی برف باری بھی کی گئی تھی اور 25 دسمبر کی صبح ہم نے ان پر چھوٹے چھوٹے تحفے بھی لٹکے ہوئے دیکھے، یورپ کے بچے کرسمس کے دن سفید پھندے والی مسیحی ٹوپی بھی پہنتے ہیں، یہ سانتا کلاز کی ٹوپی ہوتی ہے اور بچے یہ ٹوپی پہن کر بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں، کرسمس کی رات پیرس میں پھرتے ہوئے اور کرسمس کے ویک میں فرینکفرٹ کے ڈائون ٹائون میں چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا مشورہ اچھا لگا، یورپ کی کرسمس واقعی لائف ٹائم تجربہ ہے اور اگر آپ کے پاس وسائل ہیں تو آپ کو یہ تجربہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہم کچھ اور سیکھیں یا نہ سیکھیں ہم خوش رہنا ضرور سیکھ سکتے ہیں، خوشی، سکون اور آرام ہماری زندگی کی تین بڑی منزلیں ہوتی ہیں اور ہمیں یہ تینوں منزلیں یورپ میں عام ملتی ہیں، گورے کو آرام سے رہنا، سکون کے ساتھ زندگی گزارنا اور خوش رہنا آتا ہے اور ہم اس سے یہ سیکھ سکتے ہیں۔