ہم شاید ون ٹو سے نہ بچ سکیں
آپ میرے ساتھ تھوڑا سا ماضی میں چلیں اور نائن الیون کو یاد کریں، امریکا میں گیارہ ستمبر 2001ء کی صبح چار جہاز اغواء ہوئے، پہلا جہاز 8 بج کر 46 منٹ پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی 110 منزلہ عمارت سے ٹکرایا اور دنیا کی واحد سپر پاور کا سارا غرور خاک بن کر اڑ گیا، 9 بج کر تین منٹ پر دوسرا جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دوسرے ٹاور میں لگا اور یہ ٹاور بھی زمین بوس ہو گیا، تیسرے جہاز نے 9 بج کر37 منٹ پر واشنگٹن میں پینٹا گان کی عمارت کو نشانہ بنایا جب کہ چوتھے جہاز میں مسافروں اور اغواء کاروں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی جس کی وجہ سے یہ جہاز 10 بج کر تین منٹ پر پنسلوانیا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا، امریکی حکام کا کہنا تھا۔
اس جہاز کا ٹارگٹ وہائٹ ہاؤس تھا، آپ اگر ان چاروں جہازوں کی کارروائیوں کا وقت نکالیں تو یہ ایک گھنٹہ اور سترہ منٹ بنتے ہیں لیکن آپ اس سوا گھنٹے کے اثرات ملاحظہ کیجیے، دنیا پچھلے پندرہ برسوں سے اس سوا گھنٹے کا ملبہ سمیٹ رہی ہے مگر ملبہ ختم نہیں ہو رہا، آپ اب نائین الیون کے بعد دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ بھی لیجیے، آپ کو پوری دنیا "ری شیپ، ہوتی نظر آئے گی، افغانستان ہیرو شیما بن گیا، عراق اور لیبیا کھنڈر بنا دیے گئے، یمن اور سوڈان بھی آپ کے سامنے ہیں۔
شام میں کیا ہو رہا ہے، پوری دنیا اس سے بھی واقف ہے، تیونس میں کیا ہوا، مصر پر کیا گزری، فلسطین کے ساتھ کیا ہوا، ایران کو کس طرح گھیرا گیا، سینٹرل ایشیا میں اسلام پسندوں کے ساتھ کیا ہوا اور اگلے دو برسوں میں سعودی عرب، قطر اور مراکش میں بھی کیا ہو گا؟ یہ تمام اسلامی ملک نائین الیون کا ملبہ سمیٹتے سمیٹتے قبرستان بنتے جا رہے ہیں، یہ کھیل اگر یہاں تک رہتا تو شاید اتنا مسئلہ نہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصیبتوں کا یہ دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
وہ لڑائی جو 2000ء تک صرف چند گروپوں تک محدود تھی، وہ اب پھیلتے پھیلتے آدھی دنیا تک پھیل چکی ہے اور اس پھیلاؤ کے نتیجے میں وہ دنیا جو 2001ء میں صرف القاعدہ سے خائف تھی، وہ اب اس سے ہزار گنا خطرناک اور طاقتور دشمن داعش کے دھانے پر کھڑی ہے، وہ لڑائی جو 2001ء میں صرف اسامہ بن لادن اور جارج بش تک محدود تھی، وہ اب پھیلتے پھیلتے مسلمان، عیسائی اور شیعہ سنی جنگ بن چکی ہے اور وہ تنازعے جو 2001ء تک صرف افغانستان تک محدود تھے وہ اب پوری مسلم امہ اور یورپ اور جنوبی امریکا تک پھیل چکے ہیں چنانچہ ہم اگر آج 2016ء کے پہلے ہفتے میں بیٹھ کر 2000ء کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہو گا دنیا جتنی محفوظ 2000ء میں تھی وہ آج نہیں اور شاید اب کبھی ہو بھی نہیں سکے گی۔
دنیا کے بے شمار ملکوں نے نائین الیون کا نقصان اٹھایا، ان ملکوں میں افغانستان، عراق، لیبیا، سوڈان اور مصر بھی شامل ہیں لیکن نائین الیون کا جتنا ملبہ پاکستان پر گرا، جتنا نقصان ہم نے اٹھایا، دنیا کا کوئی دوسرا ملک اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا، پاکستان بیس کروڑ لوگوں کا غریب مگر جوہری ملک ہے، ہمارے پاس دنیا کی ساتویں بڑی فوج بھی ہے، ہم دنیا کی واحد مسلمان نیو کلیئر پاور بھی ہیں اور یہ دنیا کا واحد اسلامی ملک بھی ہے جس میں مختلف عقائد کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
اس میں صرف سنی اور شیعہ نہیں ہیں، اس میں سنیوں اور شیعہ کے بارہ تیرہ بڑے گروپ ہیں چنانچہ ملک میں جب سنی حضرات شیعہ سے لڑ لڑ کر تھک جاتے ہیں تو یہ اہل حدیث اور بریلوی بن کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں اور جب شیعہ حضرات سنیوں سے توجہ ہٹا لیتے ہیں تو یہ اسماعیلیوں سے بحث میں الجھ جاتے ہیں، یہ ملک دنیا کے ان چند ملکوں میں بھی شمار ہوتا ہے جن میں جاگیرداری آج بھی اپنے تمام مضمرات کے ساتھ موجود ہے اور جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب اور امیر کی خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان ان تمام مسائل کے ساتھ ایک غریب ملک بھی ہے۔
ہماری کل معیشت کا دارومدار قرضوں پر ہے، ہمیں اگر آئی ایم ایف سے قسط نہ ملے تو ہم ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ جاتے ہیں، ہمیں آزاد ہوئے 68 سال ہو چکے ہیں لیکن ہم آج تک اپنا انفراسٹرکچر مکمل نہیں کر سکے، ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ آج بھی سڑکوں، اسکولوں، اسپتالوں، پانی اور مارکیٹوں سے محروم ہے، ہمارے ملک میں آبادی، بے روزگاری اور بے ہنری یہ تینوں بھی سرخ لائین پر کھڑی ہیں اور ہم آج بھی آمریت کو جمہوریت پر فوقیت دیتے ہیں، ملک میں آپ کو آج بھی ایسے لوگ کروڑوں کی تعداد میں مل جائیں گے جو حلق کا پورا زور لگا کر آپ کو یقین دلائیں گے ہمارے ملک میں آمر جمہوری حکومتوں سے سو درجے بہتر ہیں۔
آپ اگر اس داخلی صورتحال کو بین الاقوامی حالات میں رکھ کر دیکھیں، آپ اگر پاکستان کو نائین الیون کے پس منظر میں رکھ کر اس کا جائزہ لیں تو آپ کو اپنا ملک شدید خسارے میں دکھائی دے گا، ہم نے نائین الیون کے بعد جتنا نقصان اٹھایا، اتنا خسارہ، اتنا نقصان دنیا کے کسی دوسرے ملک کو نہیں ہوا، ہم پہلے افغان طالبان کا نشانہ بنے، پھر ہم پاکستانی طالبان کا ہدف ہوئے اور اس کے بعد ہم دنیا جہاں کے گروپوں کی گزر گاہ بن گئے، مجھے اکثر اوقات محسوس ہوتا ہے، نیویارک کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر گراؤنڈ زیرو پر نہیں گرا تھا، یہ پاکستان پر گر کر تباہ ہوا اور امریکا تو اس حادثے، اس سانحے سے بچ گیا لیکن ہم آج بھی نائین الیون کے ملبے تلے دفن ہیں اور نہ جانے کب تک مٹی کے اس ڈھیر میں دبے رہیں گے۔
آپ اگر کبھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے، نائین الیون سے لے کر پیرس حملوں تک دنیا کی کسی بڑی دہشت گردی میں پاکستانی ملوث نہیں تھے لیکن کرہ ارض کے کسی بھی خطے میں جب بھی دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو پوری دنیا بے اختیار ہماری طرف دیکھنے لگتی ہے، اس کا نقصان بہرحال پاکستانیوں ہی کو اٹھانا پڑتا ہے، دنیا بالخصوص ترقی یافتہ دنیا کے پاکستانیوں کے بارے میں شکوک و شبہات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ پہلی صورت حال سے زیادہ خطرناک ہے۔
کیوں؟ کیونکہ جب ملک میں سرمایہ کار نہیں آئیں گے یا جب پاکستانی تاجر دنیا کی منڈیوں میں آزادانہ نہیں پھر سکیں گے تو پھر ملکی معیشت کیسے چلے گی اور معیشت آج کے زمانے میں بدن میں خون جتنی اہمیت رکھتی ہے، آپ ان حالات کو دیکھیں اور اس کے بعد ایران اور گلف کی تبدیلیوں کو دیکھیں، آپ پریشان ہو جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ گلف بڑی تیزی سے سنی اور شیعہ ریاستوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے، دشمن ممالک ایران سے لے کر شام تک ایک نئی شیعہ پٹی تخلیق کر رہے ہیں، یہ پٹی ایران، عراق اور شام کے شیعہ علاقوں پر مشتمل ہو گی، عرب بالخصوص سعودی عرب اس خطرے سے بچنے کے لیے سفارت کاری کے ایک نئے فیز میں داخل ہو چکا ہے، یہ نئے اتحاد کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔
رہی سہی کسر قطر کی گیس پائپ لائین نے پوری کر دی، قطر شام سے اپنی گیس پائپ لائین گزارنا چاہتا ہے، یہ پائپ لائین شام سے ترکی اور ترکی سے یورپ جائے گی، یورپ اس وقت اپنی ضرورت کی 70 فیصد گیس روس سے خرید رہا ہے، قطر کی پائپ لائین سے روس کو نقصان ہو گا چنانچہ یہ قطر کی پائپ لائین سے بچنے کے لیے بشار الاسد کا ساتھ دے رہا ہے، ایران شام کے حکمران خاندان کو سپورٹ کر رہا ہے، سعودی عرب قطر کا اتحادی ہے، یہ اپنے اتحادی کے ساتھ کھڑا ہے، سعودی عرب اور ایران کے اختلافات کو تیرہ سو سال ہو چکے ہیں۔
ایران سعودی اختلافات کی تاریخ نبی اکرمؐ کے وصال اور جنگ قادسیہ تک پھیلی ہے جب کہ سعودی عرب پاکستان کا اتحادی بھی ہے اور محسن بھی۔ سعودی عرب نے ہر بحران میں پاکستان کو بھرپور اقتصادی امداد بھی دی اور یہ ہمارے حکمرانوں کا ضامن بھی رہا، پاک سعودی تعلقات کی ایک وجہ پاک فوج بھی تھی، سعودی عرب کا خیال تھا، اسے جب بھی فوج کی ضرورت پڑے گی، یہ پاکستانی فوج کو بلوا لے گا، ماضی میں اس قسم کے تعاون کی بے شمار مثالیں بھی موجود ہیں، سعودی عرب کے اس نوعیت کے تعاون کی وجہ سے ایران ہم سے ناراض ہے، یہ ہمیں سعودی عرب کا سپاہی سمجھتا ہے۔
اس غلط فہمی نے ایران کو بھارت کی طرف جھکا دیا اور بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے، بھارت "ہمسائے کا ہمسایہ آپ کا دوست" کی پالیسی پر گامزن ہے چنانچہ اس نے ہمیں مغربی سرحدوں پر گھیرنے کے لیے ایران اور افغانستان میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری شروع کر دی، بھارت یہ سرمایہ کاری بڑھاتا چلا جا رہا ہے، یہ بھی حقیقت ہے، ہم آج تک ترقی نہیں کر سکے، اس کی بڑی وجہ بھارت کے ساتھ ہماری دشمنی ہے، پاک بھارت تنازعوں کا زیادہ نقصان ہم نے اٹھایا، ہم دنیا میں اکیلے رہ گئے۔ ہمیں 68 برسوں میں اب پہلی بار اقتصادی راہداری کی شکل میں عالمی دھارے میں شامل ہونے کا ایک نیا موقع مل رہا ہے، یہ راہداری اگر مکمل ہو جاتی ہے تو چین جیسی طاقت پاکستان کی محافظ بن جائے گی اور اس راہداری کی موجودگی میں پاکستان پر حملہ چین پر حملہ سمجھا جائے گا۔
یہ راہداری مستقبل میں ہمارا دفاع بھی ہو گی اور معاشی استحکام بھی۔ ہمارے دشمن اس حقیقت سے واقف ہیں چنانچہ ان کی کوشش ہے ہم یہ راہداری مکمل نہ کر سکیں، آپ اب اس حقیقت کو تصویر میں رکھئے اور اس کے بعد سعودی عرب اور ایران کی تازہ ترین لڑائی اور بھارتی شہر پٹھان کوٹ کے ائیربیس پر حملے کا تجزیہ کیجیے، آپ کو محسوس ہو گا، پاکستان پر ایران سعودی عرب تنازعے کا دبائو بھی آ رہا ہے اور ہمیں پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کا ذمے دار بھی سمجھا جا رہا ہے۔
بھارت چند دنوں میں ایسے ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھے گا جو منہ سے بولیں گے "یہ حملہ پاکستان سے ہوا تھا" مستقبل قریب میں پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی کی ایسی وارداتیں ہوں گی جن کے ڈانڈے بھارت سے ملیں گے اور سعودی عرب بھی اب ہم سے ماضی کی تمام نوازشات کا بدلہ مانگے گا اور یوں پاکستان مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں سے شدید دبائو میں آ جائے گا، ہم بھارت اور ایران دونوں طرف سے پھنس جائیں گے اور یہ دونوں دبائو ہمیں ایک نئے نائین الیون کی طرف دھکیل دیں گے۔
ہماری مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا، اب سوال یہ ہے، کیا ہم مشرق اور مغرب میں وقوع پذیر ہونے والے ان معاملات سے بچ جائیں گے؟ ہم اگر بچنا چاہتے ہیں تو پھر ہمارے پاس صرف ایک آپشن ہے اور وہ آپشن ہے غیر جانبداری۔ پاکستان "ایران سعودی عرب تنازعے" میں اپنی غیر جانبداری کا اعلان کر دے جب کہ میاں نواز شریف اور نریندر مودی بھارت اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر خاموش رہیں، یہ کسی قیمت پر مذاکرات کا عمل نہ رکنے دیں، یہ حکمت ہمارے فائدے میں ہے۔
ہم نے اگر یہ حکمت اختیار نہ کی تو ہم ایک بار پھر عالمی ملبے میں دب جائیں گے اور اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو ہم نائین الیون سے تو بچ گئے تھے لیکن شاید ہم "ون ٹو" سے نہ بچ سکیں، یہ غلطی شاید ہماری آخری غلطی ثابت ہو چنانچہ مذاکرات اور غیر جانبداری یہ ہمارا واحد سفارتی آپشن ہے۔