Monday, 18 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Fraud

Fraud

فراڈ

میرے ایک کزن کے ساتھ اسلام آباد کی مسجد میں ایک دلچسپ فراڈ ہوا، یہ ایف الیون کی مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا۔

خطبہ جاری تھا اچانک پچھلی صف میں بیٹھے باریش نمازی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے بتایا اس کی قمیض پر گندگی لگی ہے، میرے کزن نے قمیض کا پچھلا دامن اٹھا کر دیکھا، دامن پر پرندے کی بیٹ لگی تھی، وہ اٹھا، استنجا خانہ گیا اور قمیض صاف کرنے لگا، بیٹ کی نشاندہی کرنے والا نمازی بھی استنجا خانے آ گیا اور قمیض صاف کرنے میں اس کی مدد کرنے لگا، اس دوران اس نمازی نے اسے بتایا "آپ کی پوری قمیض پیچھے سے بیٹوں سے بھری ہوئی ہے" میرے کزن نے قمیض اتار دی، اس کی قمیض پر واقعی بے شمار بیٹیں لگی تھیں۔

اس دوران جماعت کھڑی ہو گئی، میرا کزن اور وہ نمازی ٹینشن میں آ گئے اور وہ دونوں تیزی سے قمیض دھونے لگے، اس دوران ایک تیسرا نمازی بھی ان کی مدد کے لیے آ گیا، وہ بھی بیٹیں دھونے لگا، تیسرے نمازی نے میرے کزن کو بتایا آپ کی گھڑی گیلی ہو رہی ہے، آپ اسے اتار کر جیب میں ڈال لیں، میرے کزن نے فوراً گھڑی اتاری اور جیب میں ڈال لی، نماز کی پہلی رکعت ہو گئی، وہ تینوں قمیض دھوتے رہے، میرے کزن کے ہیلپرز نے اسی دوران بتایا آپ کی شلوار پر بھی بیٹیں لگی ہوئی ہیں، میرے کزن نے شلوار دیکھی، شلوار کی پشت پر واقعی بیٹیں تھیں، وہ مزید پریشان ہو گیا، دونوں نمازیوں نے انھیں مشورہ دیا آپ گھر چلے جائیں، کپڑے تبدیل کریں اور کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھ لیں، آپ اس حال میں یہاں نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔ میرے کزن نے گیلی قمیض پہنی اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔

گھر پہنچ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو گھڑی غائب تھی، وہ گھڑی بہت قیمتی تھی غالباً دس بارہ لاکھ روپے کی تھی، وہ بھاگ کر مسجد واپس گیا مگر وہ دونوں نمازی غائب ہو چکے تھے، ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا ملک میں یہ فراڈ عام ہے، یہ لوگ مختلف کیمیکل سے مصنوعی بیٹ بناتے ہیں، مسجد کی مختلف صفوں پر لگا دیتے ہیں اور پچھلی صف میں بیٹھ جاتے ہیں، نمازی جونہی اس جگہ بیٹھتا ہے اس کے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں اور ا سکے ساتھ ہی "صفائی" کا کھیل شروع ہو جاتا ہے اور یوں وہ بیچارا پرس، انگوٹھی یا گھڑی سے محروم ہو جاتا ہے۔

آپ اب دوسرا فراڈ بھی ملاحظہ کیجیے، اسلام آباد میں پچھلے دنوں ایک ایم این اے اپنی قیمتی گاڑی سے محروم ہو گیا، ایم این اے کا جوان بیٹا والد کی "پراڈو" لے کر شہر میں گھوم رہا تھا، یہ رات کے وقت مارگلہ روڈ سے گزر رہا تھا، راستے میں پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، پولیس نے ہاتھ دے کر گاڑی رکوائی، نوجوان سے گاڑی کے کاغذات مانگے، نوجوان نے ڈیش بورڈ سے کاغذات نکال کر دے دیے، پولیس نے کاغذ دیکھ کر نوجوان سے کہا "یہ گاڑی نان کسٹم پیڈ ہے، آپ کو گاڑی سمیت تھانے جانا پڑے گا" نوجوان گھبرا گیا، اس نے پولیس کو دھمکی اور رشوت دونوں سے رام کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نہ مانی، آخر میں فیصلہ ہوا۔

پولیس گاڑی تھانے لے جائے گی، نوجوان گھر سے والد اور اصلی کاغذات لے آئے اور گاڑی لے جائے، نوجوان گاڑی سے اترا، پولیس کانسٹیبل گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی روانہ ہو گئی، گاڑی جانے کے چند منٹ بعد پولیس کی گاڑی اور دوسرے اہلکار بھی چلے گئے، نوجوان والد کے پاس گیا، والد نے پولیس کو فون کیا تو معلوم ہوا ان کی گاڑی اسلام آباد کے کسی تھانے میں موجود ہے اور نہ ہی کسی پولیس اہلکار نے وہ گاڑی روکی ہے، تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا وہ پولیس جعلی تھی اور وہ لوگ گاڑی چوری کر کے لے گئے ہیں۔ گاڑی چوری کی ایک اور واردات اس سے بھی کہیں زیادہ ڈرامائی تھی۔ ایک لڑکی اور لڑکے نے چکوال سے نئی گاڑی کرائے پر لی اور راولپنڈی کے لیے روانہ ہو گئے، ڈرائیور گاڑی چلانے لگا اور لڑکا اور لڑکی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے، لڑکے اور لڑکی نے راستے میں غیر اخلاقی حرکات شروع کر دیں۔

ڈرائیور نوجوان تھا وہ کن انکھیوں سے بیک مرر سے یہ حرکات دیکھنے لگا، نوجوان نے اس دوران سر اٹھایا اور ڈرائیور کو بتایا "یہ خاتون آوارہ ہے، میر ا اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں، میں اس کے ساتھ گاڑی میں راولپنڈی تک جائوں گا اور وہاں سے اسی گاڑی میں واپس آ جائوں گا اور اس دوران وہ تمام "خدمات" حاصل کر لوں گا جس کے لیے میں نے اسے "ہائر" کیا ہے۔" نوجوان کا کہنا تھا "آج کل ہوٹل بھی مہنگے ہیں اور وہاں چھاپوں کا ڈر بھی ہوتا ہے جب کہ یہ تکنیک سستی بھی ہے اور محفوظ بھی۔" نوجوان نے ڈرائیور کو پیش کش کی ’تم بھی "موقع" کا فائدہ اٹھا سکتے ہو، تم پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ آ جائو اور میں گاڑی چلاتا ہوں۔

ڈرائیور یہ کھلی پیش کش سن کر بہک گیا اور وہ پچھلی سیٹ پر خاتون کے پاس آ گیا جب کہ نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا، خاتون اس وقت نیم برہنہ تھی، ڈرائیور اس کے قریب ہوا، اس نے اس کے جسم پر منہ لگایا اور چند سیکنڈ میں بے ہوش ہو گیا، لڑکے اور لڑکی نے گاڑی روکی، ڈرائیور کو کھائی میں پھینکا اور گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔ گاڑی چوری اور اغواء کی ایک اور واردات پچھلے دنوں میرے ایک جاننے والے کے ساتھ ہوئی، وہ دوست کی بارات میں شریک تھا، بارات تیار تھی، گاڑیاں روانگی کے لیے لائن میں کھڑی تھیں، باراتیوں میں سے اچانک ایک باراتی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا، اشارہ کیا، گاڑی کا دروازہ کھولا اور ساتھ بیٹھ گیا، اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ریوالور اس کے پیٹ کے ساتھ لگا دیا اور اسے قطار سے نکلنے کا حکم دے دیا، اس بے چارے نے گاڑی بارات سے نکال لی، تھوڑی دور جانے کے بعد اغواء کار کے مزید دو ساتھی گاڑی میں بیٹھ گئے، یہ شہر سے باہر آ گئے، اس کی تمام جیبیں خالی کیں، اس کا موبائل اور لیپ ٹاپ لیا، اسے ویران جگہ پر اتارا اور گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔

ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں چار پانچ سال کے بچوں اور بچیوں کے اغواء کا سلسلہ بھی جاری ہے، اغواء کار اس کے لیے ایک تکنیک کثرت سے استعمال کرتے ہیں، اغواء کاروں کے گینگ کسی محلے میں کرائے پر مکان لے لیتے ہیں، یہ ایک دو ہدف طے کرتے ہیں، گھر والوں کی روٹین دیکھتے ہیں، بچہ یا بچی کی ریکی کرتے ہیں اور بچے یا بچی کو گھر کے سامنے سے (اٹھا) کر غائب ہو جاتے ہیں، یہ لوگ بچوں کو عموماً موٹر سائیکل پر اغواء کرتے ہیں، ایک اغواء کار موٹر سائیکل چلاتا ہے جب کہ دوسرا موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر بچے کو اٹھاتا ہے۔

اس کی ناک پر کلوروفام میں بھیگا رومال رکھتا ہے، بچہ بے ہوش ہو جاتا ہے، وہ بچے کو کندھے سے لگاتا ہے اور یہ اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، بچے کے والد کو ملک کے دور دراز مقام سے تاوان کا فون آتا ہے، گھر میں کہرام برپا ہو جاتا ہے، اغواء کار اس دوران والدین پر نظر رکھتے ہیں، یہ پولیس کی آمد و رفت بھی نوٹ کرتے ہیں اور اغواء کار گینگ کی خواتین ہمدرد بن کر اس گھر میں بھی آتی جاتی رہتی ہیں اور یوں انھیں اندر کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں، یہ تاوان وصول کرتے ہیں، بچے کو گھر کے سامنے اتارتے ہیں، واردات کے چند دن تک اسی گلی میں مقیم رہتے ہیں اور پھر اگلے ہدف کی طرف نقل مکانی کر جاتے ہیں، یہ اغواء کے دوران بچے کو بے ہوش رکھتے ہیں، اگر بچے کا سامنا ضروری ہو تو یہ چہرے کو ماسک سے چھپا لیتے ہیں یا پھر بچے کے سامنے ایسے شخص کو بھجواتے ہیں جسے بچے نے کبھی گلی میں نہ دیکھا ہو۔

بسوں میں دوران سفر نشہ آور بسکٹ، مٹھائی، سافٹ ڈرنک یا چائے پلا کر لوٹنے کی وارداتیں بھی عام ہیں، یہ لوگ بھی گینگ کی شکل میں واردات کرتے ہیں، یہ بس میں عموماً اکیلے نہیں ہوتے، یہ ہدف کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں بیٹھ جاتے ہیں، ان کے ساتھی بس اور ٹرین میں خوانچہ فروش بن کر بھی گھومتے ہیں، آپ کے ساتھ بیٹھا مسافر آپ کے سامنے بسکٹ یا ٹافی خریدتا ہے، ایک خود کھاتا ہے اور دوسری آپ کو پیش کر دیتا ہے، آپ اسے منہ میں رکھتے ہیں اور آپ کا جسم دو سیکنڈ میں مفلوج ہو جاتا ہے اور یہ لوگ آپ کو قیمتی اشیاء سے محروم کر دیتے ہیں، اس نوعیت کی وارداتوں میں اکثر مسافر جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ملک میں سونے کا جھانسہ دے کر لوٹنے والے بھی عام پھر رہے ہیں، یہ مزدوروں کے بھیس میں لوگوں سے ملتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں ہمیں فلاں جگہ کھدائی کے دوران سونے سے بھری دیگ ملی ہے، ہم مزدور ہیں ہم سے کوئی شخص سونا نہیں خریدے گا، آپ ہم سے آدھی قیمت میں سونا لے لیں، یہ نمونے کے طور پر سونے کا اصلی سکہ بھی پیش کر دیتے ہیں اور یوں ہدف لالچ میں آ جاتا ہے اور لاکھوں روپے سے محروم ہو جاتا ہے۔

یہ وارداتیں عام ہیں چنانچہ آپ احتیاط سے کام لیں، آپ کی قمیض یا شلوار پر گندگی لگ جائے تو آپ نشاندہی کرنے والے پر اعتبار نہ کریں، اپنی گاڑی پولیس والوں کے حوالے بھی نہ کریں، پولیس گاڑی رکوائے تو کبھی گاڑی کا پورا شیشہ نہ کھولیں، ہو سکتا ہے وہ پولیس جعلی ہو، آپ کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں اپنے قریبی ترین عزیز کو فون کر دیں تا کہ وہ آپ کی مدد کے لیے پہنچ جائے، باراتوں اور جلسوں، جلوسوں کے دوران کسی اجنبی کو گاڑی میں نہ بٹھائیں، آپ چھوٹے بچوں کو کبھی گیٹ تک اکیلا نہ جانے دیں، آپ اپنے ہمسایوں کے ساتھ مل کر دن اور رات کے لیے مسلح گارڈ کا بندوبست کر لیں آپ بے شمار مصیبتوں سے بچ جائیں گے اور آپ سفر کے دوران ہمیشہ میزبان بنیں، کبھی مہمان بننے کی غلطی نہ کریں کیونکہ ایک بسکٹ کی مہمانی آپ کی جان بھی لے سکتی ہے اور آپ کے بھائی تک کے پاس بھی سونے کی دیگ ہو تو آپ اس سے بھی ڈر جائیں کیونکہ یہ سونا آپ کو سونے تک کے قابل نہیں چھوڑے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Maro Ya Mar Jao

By Prof. Riffat Mazhar