کینسر
ازبکستان میں پچھلے دس برسوں سے کوئی گاڑی چوری نہیں ہوئی۔
لوگ گاڑیاں گلیوں میں کھڑی کر جاتے ہیں اور کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا، اس کی وجہ سزا ہے، ازبکستان میں گاڑی چوری کی سزا موت ہے اور اس سزا میں کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جاتی جب کہ ازبکستان کے مقابلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے روزانہ تین گاڑیاں چوری ہو تی ہیں اور پولیس بے بسی سے دائیں بائیں دیکھتی رہتی ہے، ہم اگر وجوہات میں جھانک کر دیکھیں تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں، کار چوری کے لیے تین گروہ کام کر رہے ہیں، کار چور، کار ہینڈلر اور کار سیلر، کار چور وفاقی دارالحکومت کے نوجوان لڑکے ہیں، یہ اسلام آباد کی ایک ایک گلی، ایک ایک سڑک سے واقف ہیں، یہ دو دو، تین تین کی ٹولیوں میں ہفتہ بھر گاڑیوں کی ریکی کرتے ہیں، یہ نئے ماڈل کی کرولا گاڑیاں تلاش کرتے ہیں۔
ان کا پچھلا شیشہ توڑتے ہیں، گاڑی کھولتے ہیں اور گاڑی لے جاتے ہیں، ان کے پاس "چور سوئچ " کو ڈس فنکشن کرنے کے آلات ہوتے ہیں، یہ لائیٹر کی جگہ جیمر لگاتے ہیں اور گاڑی اسلام آباد کی مختلف گلیوں اور سڑکوں سے گزار کر موٹروے تک لے جاتے ہیں، موٹر وے پر ہینڈلر کھڑے ہوتے ہیں، ہینڈلر اس سے گاڑی وصول کرتے ہیں اور اسے خیبر پختونخواہ میں کار سیلر تک پہنچا دیتے ہیں، کار چور اور ہینڈلر کو اس کارروائی میں پچاس پچاس ہزار روپے ملتے ہیں جب کہ کار سیلر یہ گاڑی اڑھائی سے تین لاکھ روپے میں خریدتا ہے، یہ اس کا انجن نمبر اور چیسز نمبر تبدیل کرتا ہے، اس کے کاغذات تیار کرتا ہے اور یہ گاڑی لاہور اور کراچی میں بیچ دی جاتی ہے، یہ کاروبار کئی برسوں سے جاری ہے لیکن آج تک اس ریکٹ کا کوئی ملزم نہیں پکڑا گیا، کیوں نہیں پکڑا گیا، اس کی وجہ وہ با اثر لوگ ہیں جن کا ہاتھ اس ریکٹ کے سر پر ہے۔
پولیس نے ایک بار مرکزی ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن یہ ملزم کے قریب پہنچی تو ملزم کی گاڑی پر وزارت کا جھنڈا لگا تھا اور اس کے آگے اور پیچھے ایف سی کی چار چار گاڑیاں تھیں چنانچہ پولیس سیلوٹ کر کے واپس آ گئی، کراچی اور لاہور کی صورتحال بھی مختلف نہیں، کراچی اور لاہور سے گاڑیاں چوری ہوتی ہیں، ہائی وے اور موٹروے کے ذریعے قبائلی علاقوں میں پہنچتی ہیں اور شناخت کی تبدیلی کے بعد نئے گاہکوں کو بیچ دی جاتی ہیں، چوری شدہ گاڑیوں کے کاغذات اور نمبر حکومت کے مختلف اداروں تک پہنچتے ہیں اور یہ ادارے یہ نمبر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر لگا کر ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان سے ایک لفظ تک نہیں پوچھتا۔
یہ قانون کی خلاف ورزی کی صرف ایک مثال تھی، آپ دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے، کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور خوشحال شہر ہے، یہ پاکستان کا دل کہلاتا ہے لیکن یہ آج اپنی ہی نعش کا نوحہ بن گیا ہے، کراچی میں پچھلے دس برسوں میں گیارہ ہزار لوگ قتل ہوئے، چار برسوں میں چھ ہزار نو سو لوگ مارے گئے جب کہ ایک سال میں ایک ہزار 8 سو 23 لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، اس مہینے 88 لوگ مارے گئے، شہر کی حالت یہ ہے گلیوں سے اچانک لوگ نکلتے ہیں اور ان کے سامنے جو بھی کھڑا ہو اسے گولی مار کر اطمینان سے گھر چلے جاتے ہیں اور نعش دیر تک سڑک پر پڑی رہتی ہے، تاجروں، صنعت کاروں، دکانداروں، سرمایہ کاروں حتیٰ کہ سیاستدانوں تک کو بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں اور وہ شخص پرچی پر لکھے نمبر پر رابطے کے لیے بھی مجبور ہوتا ہے اور مطالبہ ماننے پر بھی، بھتے کی کارروائی اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب غیر ملکی سرمایہ کاروں سے بھی بھتہ مانگا جاتا ہے اور یہ بھی جان، مال اور آبرو بچانے کے لیے مطالبہ ماننے پر مجبور ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں اور ہر گروہ اپنے علاقے میں رہنے والوں سے " پروٹیکشن منی" کے نام پر بھتہ وصول کر رہا ہے مگر حکومت خاموش بیٹھی ہے، یہ خاموشی سیاسی مصلحت کا نتیجہ ہے، کراچی میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی، یہ تینوں کولیشن پارٹنر ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ اور وفاق دونوں حکومتوں میں اتحادی ہیں جب کہ اے این پی وفاق میں جمہوریت کا ستون ہے، ان تینوں جماعتوں کے ریکٹ کراچی میں سرگرم ہیں، ان تینوں نے شہر کو آپس میں تقسیم کر رکھا ہے اور حکومت صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے خاموش رہنے پر مجبور ہے، یہ اگر پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کی گرفتاری کا فیصلہ کرتی ہے تو اپنی بڑی اتحادی جماعت ناراض ہو جاتی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کا سندھ اور وفاق دونوں میں اقتدار لرزنے لگتا ہے۔
اسی طرح اگر حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے مافیا کے سروں پر لگی قیمت نہیں ہٹاتی تو پارٹی کے اندر بغاوت شروع ہو جاتی ہے، اے این پی بھی بوقت ضرورت وفاقی حکومت کو دبا لیتی ہے جس کے نتیجے میں صدر آصف علی زرداری کو ان کے لیے بھی وسیع تر مفاد کے دروازے کھولنا پڑتے ہیں، سنی تحریک اور مہاجر قومی موومنٹ (آفاق گروپ) بھی تیزی سے سے سر اٹھا رہی ہے اور اگلی حکومت کو ان دونوں کو بھی اقتدار میں حصہ دینا ہو گا، جماعت اسلامی بھی کراچی کی دعویدار ہے اور اگر انھوں نے بھی الیکشن لڑا اور کراچی میں سیٹیں حاصل کر لیں تویہ بھی اقتدار میں حصہ مانگے گی، کراچی بڑی تیزی سے شیعہ سنی میں بھی تقسیم ہو رہا ہے، لوگ اب ایک دوسرے کی سیاسی وابستگی کے ساتھ ساتھ مسلک کی ٹوہ لگانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
کراچی میں بے شمار ایسی سڑکیں، چوک اور گلیاں ہیں جن میں روزانہ مقررہ وقت پر گاڑیاں روک کر پرس اور موبائل چھینے جاتے ہیں، کراچی میں عوام ان جرائم کو نفسیاتی طور پر قبول کر چکے ہیں، آج کراچی کا ہر شہری دو موبائل اور دو پرس لے کر گھر سے نکلتا ہے، اصلی پرس اور مہنگا موبائل گاڑی کے خفیہ خانوں میں چھپا دیا جاتا ہے جب کہ سستا موبائل اور عام پرس جس میں تین چار ہزار روپے ہوتے ہیں یہ جیب میں ڈال لیا جاتا ہے اور جوں ہی کوئی شخص ریوالور دکھاتا ہے ہدف چپ چاپ موبائل اور پرس اس کے حوالے کر دیتا ہے، لوگ اب لٹنے کے بعد خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ہماری جان اور عزت بچ گئی، کراچی کے تاجر مہنگی اور بڑی گاڑیاں گیراج میں کھڑی کر کے چھوٹی گاڑیوں میں گھروں سے نکلتے ہیں، یہ اچھے کپڑے، قیمتی گھڑی اور زیورات بھی نہیں پہنتے کہ کہیں یہ مافیا کی نظر میں نہ آ جائیں۔
یہ گھر کا سودا سلف بھی دس پندرہ کلو میٹر دور جا کر خریدتے ہیں کہ کہیں دکاندار ان کی خوشحالی کی مخبری نہ کر دے، آپ کراچی کے کسی شہری سے پوچھ لیں "آپ کتنی بار لوٹے گئے یا کتنی بار گولی آپ کے کان یا سر کے قریب سے ہو کر گزر گئی" وہ بڑے اطمینان سے جواب دے گا، دس بارہ مرتبہ، کراچی شہر میں لوگوں نے اب اپنا پورا نام بتانا چھوڑ دیا ہے، لوگ اب امین میمن سے صرف امین، طاہر نقوی سے صرف طاہر، احمد فاروق سے صرف احمد اور علی خان سے صرف علی ہیں، کراچی کے لوگ جان بچانے کے لیے بلوچی بھی سیکھتے ہیں، سندھی بھی، اردو بھی اور پشتو بھی اور یہ جس جس علاقے سے گزرتے ہیں وہاں کی اکثریت کی زبان بولنے لگتے ہیں یہاں تک کہ اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں چنانچہ کراچی اب کراچی نہیں رہا ہے خوف، موت اور آسیب کا گھر بن چکا ہے اور یہ گھر اس وقت تک آسیب، موت اور خوف کی قیام گاہ رہے گا جب تک ہم کراچی پر قانون کی چادر نہیں ڈالتے۔
ہم نے ملک کو مختلف مافیاز میں بانٹ دیا ہے اور ہر مافیا قانون، انصاف اور اخلاقیات سے زیادہ مضبوط ہے، ہم نے خیبر پختونخواہ کے علاقے کار اور منشیات مافیا کے حوالے کر دیے ہیں، کراچی بھتہ مافیا کے کنٹرول میں ہے، سندھ وڈیروں کے قبضے میں ہے، بلوچستان کرپٹ سیاستدانوں اور حریص سرداروں کی جیب میں چلا گیا، پنجاب پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے اور اسلام آباد روز وسیع تر قومی مفاد کی قربان گاہ میں ذبح ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم ملزم کو ملزم کے بجائے پٹھان، مہاجر، پنجابی، بلوچی، پیپلز پارٹی، ن لیگ، میرا بھائی اور میرا اتحادی کی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔
ہم جب تک قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ نہیں دیں گے، ہم جب تک انھیں یہ اجازت نہیں دیں گے آپ صرف جرم دیکھیں، جرم کرنے والے کا چہرہ، سماجی اسٹیٹس اور قومیت نہ دیکھیں، ہم جب تک یہ اصول پورے پاکستان میں نافذ نہیں کریں گے، ہمارے ملک کا کینسر پھیلتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن یہ ملک، ملک نہیں رہے گا قبرستان بن جائے گا، ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے ہم نے قبرستان میں رہناہے یا پھر پاکستان میں، اس پاکستان میں جس کا ایک ہی ستون ہو گا، قانون۔