بابا جی چلے گئے
"چوہدری صاحب آپ مجھے بھول گئے ہیں" میں نے گھبرا کر دائیں بائیں دیکھا، میں غسل خانے میں اکیلا تھا، آواز صاف اور واضح تھی، میں نے تیزی سے کپڑے بدلے، باہر آیا اور بیوی کو بتایا"اللہ کرم کرے، مجھے شیخ حفیظ صاحب کی آواز آئی ہے" وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی، میں نے موبائل اٹھایا، میں ابھی شیخ صاحب کا نمبر تلاش کر رہا تھا کہ ان کے انتقال کا پیغام آ گیا، شیخ حفیظ صاحب عارضی دنیا سے مستقل دنیا میں منتقل ہو چکے تھے۔
شیخ حفیظ میرے عملی استاد تھے، وہ زندگی کے ہر معاملے میں میرے گائیڈ تھے، میں آج جو بھی ہوں، اس میں اللہ تعالیٰ کے کرم کے بعد ان کابہت بڑا ہاتھ تھا، شیخ صاحب نے زندگی کی 80 بہاریں دیکھیں، ماشاء اللہ بھرپور زندگی گزاری، جوانی میں یورپ گئے اور ٹرینوں، بسوں اور پاؤں سے پورا یورپ دیکھ ڈالا، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی، ناکام رہے، پاکستان واپس آئے، مختلف جابز کیں، تھک گئے تو بینک میں ملازمت کر لی، یہ ان کی آخری ملازمت تھی، وہ 1997ء میں ایک بڑے بینک سے سینئر نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور2016ء تک ریٹائر زندگی گزاری، وہ جوانی میں رمل کے شوق میں مبتلا ہو گئے۔
رمل کا علم سیکھا اور مہارت حاصل کر لی، وہ کتابیں پڑھنے کے بھی شیدائی تھے، وہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی تھے اور وہ برسوں شوگر کی دوا بنانے میں بھی مصروف رہے، غرض آپ جس زاویے سے بھی دیکھیں، آپ شیخ صاحب کو ایک دلچسپ اور شاندار انسان پائینگے، میری ان سے پہلی ملاقات 1999ء میں ہوئی، میں اس وقت تازہ تازہ "مشہور" ہوا تھا اور یہ " مشہوری" مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی تھی، شیخ صاحب ملے اور انھوں نے میری نکیل پکڑ لی، وہ زندگی کے ہر معاملے میں میری رہنمائی کرنے لگے۔
ان کا پہلا سبق بہت دلچسپ تھا، ان کا کہنا تھا" آپ جتنے بھی طاقتور ہو جائیں، آپ جتنے بھی کامیاب ہو جائیں، آپ وقت کوری ورس نہیں کر سکتے مثلاً آپ ساٹھ سال کی عمر میں دنیا کے امیر ترین شخص ہو جائیں اور آپ اپنی ساری دولت خرچ کر دیں تو بھی آپ بیس پچیس سال کے جوان نہیں ہو سکیں گے چنانچہ انسان کو جوانی کے کام جوانی ہی میں کرنے چاہئیں، انھیں بڑھاپے کے لیے بچا کر نہیں رکھنا چاہیے" ان کا کہنا تھا" میں دنیا دیکھنا چاہتا تھا، میں افریقہ، امریکا، جنوبی ایشیا اور آسٹریلیا دیکھنا چاہتا تھا مگر میں پھر جاب میں پھنس گیا اور ہمیشہ یہ سوچتا رہا، میں جب معاشی لحاظ سے آزاد ہو جاؤں گا تو میں اپنی یہ خواہش پوری کروں گا۔
میں پچاس پچپن سال کی عمر میں خوش حال ہو گیا مگر اس وقت تک میرا جسم بوڑھا اور میں شوگر کا مریض ہو چکا تھا، مجھے بلڈ پریشر کی بیماری بھی لگ چکی تھی لہٰذا میں"افورڈ" کرنے کے باوجود ملک سے باہر نہیں جا سکتا تھا، میں نے اس سے سیکھا، زندگی کے ہر شوق کی ایک عمر ہوتی ہے، اگر یہ عمر گزر جائے توپھر آپ "افورڈ" کرنے کے باوجود شوق پورا نہیں کر سکتے لہٰذا میرا مشورہ ہے، آج کے دن میں زندہ رہنا سیکھو، کل آ جائے گا لیکن آج دوبارہ نہیں آئے گا، اور میں نے یہ سیکھ لیا، میں نے اپنے شوق کی فہرست بنائی۔
ان کے سامنے عمر کے وہ حصے لکھے جن میں یہ کام ممکن ہیں اور پھر ان کی تکمیل میں جت گیا، اس فہرست میں سفر، جاگنگ، ایکسرسائز، ریستوران، جینز، فلمیں، دنیا بھر کے کامیاب لوگوں سے ملاقاتیں اور کتابیں شامل تھیں، ان کا دوسرا سبق "واک" تھا، میں لیٹ سوتا ہوں، صبح جلد نہیں اٹھ سکتا تھالہٰذا میں واک کی روٹین نہیں بنا پاتا تھا، شیخ صاحب نے یہ "متھ" توڑ دی، انھوں نے بتایا، واک کا کوئی وقت اور کوئی جگہ نہیں ہوتی، آپ گاڑی میں جاگر رکھو اور جہاں موقع ملے، جوگرز پہنو اور واک شروع کر دو، میں نے یہ شروع کر دیا اور یوں ایک مہینے میں واک اور پھر ایکسرسائز میری زندگی کا معمول بن گئی۔
شیخ حفیظ نے بتایا، فیملی سپریم ہوتی ہے، ان کا کہنا تھا "میرے تمام عزیز ایک ایک کر کے میری زندگی سے نکل گئے، دوست ساتھ چھوڑ گئے یا دور چلے گئے، میں اس جاب سے بھی ریٹائر ہوگیا جس کے لیے میں نے اپنا خون، پسینہ اور زندگی کے قیمتی ترین سال ضایع کیے تھے، یوں میری زندگی سے ہر وہ چیز رخصت ہو گئی جس کو میں اہم سمجھتا تھا، آخر میں صرف فیملی رہ گئی، میرے ساتھ اب صرف میرے بچے ہیں چنانچہ انسان کو اس چیز پر کسی قسم کا "کمپرومائز" نہیں کرنا چاہیے۔
اسے سپریم رکھنا چاہیے جس نے آخری سانس تک ساتھ چلنا ہو" میں نے یہ بات بھی پلے باندھ لی، میں اب فیملی پر کمپرومائز نہیں کرتا، شیخ صاحب نے سکھایا " وعدہ نہیں توڑنا، اگر ایک بار کمٹمنٹ کرلی تو پھر اسے ٹوٹنا نہیں چاہیے اور آپ کی اس عادت کا پوری دنیا کو علم ہونا چاہیے، دوست بہت کم ہونے چاہئیں لیکن شاندار ہونے چاہئیں، اللہ تعالیٰ کو ہر وقت راضی رکھیں کیونکہ اگر وہ آپ کے ساتھ ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ کے خلاف ہے، بچت کو آپ کے اخراجات سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، آپ 75فیصد خرچ کریں صرف 25فیصد بچائیں کیونکہ آپ اپنی خواہشوں اور حسرتوں کو دبا کر بچت کرتے ہیں اور یہ بچت کسی بھی وقت ضایع ہو سکتی ہے۔
لوگوں سے توقعات وابستہ نہ کریں، ان پر اعتبار کرنے سے پہلے کم از کم تین بار انھیں ٹیسٹ کر لیں، یہ نہ دیکھیں آپ کو کون کیا کہہ رہا ہے، کون آپ کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے، کسی الزام کا جواب نہ دیں، بس اپنے راستے پر چلتے رہیں، کیوں؟ کیونکہ جو لوگ آپ کو جانتے ہیں، وہ ان الزامات کو اہمیت نہیں دینگے اور جو آپ سے واقف نہیں ہیں وہ آپ کی وضاحت کو اعتراف جرم سمجھیں گے" شیخ صاحب نے سمجھایا "بے غرض ہو جاؤ، لوگوں کی محتاجی سے نکل جاؤ گے، انسان کا کام انسان کی سب سے بڑی پبلک ریلیشننگ ہوتا ہے" شیخ صاحب نام نہاد روحانیت کے بھی سخت خلاف تھے، میں ایک وقت میں بزرگوں کی تلاش میں رہتا تھا، مجھے جس شخص کے سر میں راکھ نظر آتی تھی، میں اس میں پیر کامل تلاش کرنے لگتا تھا، شیخ صاحب نے یہ " متھ، بھی توڑ دی، وہ میرے ساتھ بزرگوں کی محفلوں میں جاتے اور انھوں نے ایک ایک کر کے تمام بزرگ بھگا دیے۔
انھوں نے ثابت کر دیا، آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر تمام انسان، انسان ہیں اور ہم میں سے ہر شخص خطا، طمع اور خوف کا پتلا ہے، انھوں نے سمجھایا، محنت سے بڑا محسن، نیک نیتی سے بڑا استاد اور مہارت سے بڑی کوئی جاب نہیں ہوتی، شیخ صاحب نے مجھے مزید دو دلچسپ چیزیں بھی سکھائیں، انھوں نے بتایا، دوستیاں ہمیشہ اس وقت خراب ہوتی ہیں جب کوئی دوست آپ سے اپنا راز شیئر کرتا ہے اور آپ اس راز کے استعمال کی غلطی کربیٹھتے ہیں، وہ مثال دیتے تھے، فرض کرو، آپ کا کوئی دوست آپ کو یہ بتا دیتا ہے، اس کے پاس اتنی رقم ہے اور آپ بعد ازاں اس سے ادھار مانگ لیتے ہیں۔
ادھار کا یہ مطالبہ آپ کا تعلق ہمیشہ کے لیے خراب کردیگا، انھوں نے دوسری بات یہ سمجھائی آپ اپنے کسی عزیز، دوست یا کولیگ سے کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں لیکن وہ جب کسی ایمرجنسی میں آپ کو فون کرے تو آپ اپنی ناراضی کا اظہار نہ کریں، آپ فوری طور پر اس کی مدد کریں، وہ اگر کام ہونے کے بعد شکریہ ادا کرنے آئے تو آپ ہلکے پھلکے انداز میں اسے سمجھا دیں تم نے فلاں وقت میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی، میں تم سے ناراض تھا مگر مجھ سے تمہاری تکلیف دیکھی نہیں گئی اور میں اختلاف کے باوجود تمہارے ساتھ چل پڑا، شیخ صاحب نے سمجھایا، آپ کبھی دل کے کمزور یا بے حوصلہ شخص کے لیے اسٹینڈ نہ لیں کیونکہ وہ شخص اپنے دعوے سے منحرف ہو جائے گا، وہ مخالف پارٹی سے صلح کر لے گا اور آپ پھنس جائیں گے۔
آپ ہمیشہ ایسے بہادر اور بااصول لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جو پیچھے نہ ہٹیں، جو آپ کو میدان میں اکیلا نہ چھوڑجائیں، انھوں نے سمجھایا، عزت اوردولت میں جب بھی کسی ایک کے انتخاب کا وقت آئے تو دولت کی قربانی دو کیونکہ دولت زندگی میں باربارآتی ہے مگر عزت ایک بارچلی جائے توپھرکبھی واپس نہیں آتی اور ان کا کہنا تھا، اپنے بچوں بالخصوص بیٹیوں کی تمام جائز ضروریات پوری کیاکرو، ان کا کوئی مطالبہ یاتقاضا مسترد نہ کرو کیونکہ بچے والدین کی محبت کو پوری زندگی یاد رکھتے ہیں۔
شیخ صاحب میرے عملی استاد تھے، وہ تجربہ کار بھی تھے، عالم بھی اور اس سے کہیں زیادہ نیک نیت بھی لہٰذا میں جب بھی کسی مسئلے کا شکارہوتاتھایا کسی کنفیوژن میں پھنس جاتا تھااور کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا تھا تو میں شیخ صاحب سے رابطہ کرتاتھا اور اونچی آوازمیں کہتا تھا "بابا جی گیدڑ آگئے ہیں" اورشیخ صاحب کا قہقہہ نکل جاتاتھا، گیدڑشیخ صاحب کی ایک دلچسپ اصطلاح تھی، وہ کہا کرتے تھے، وسوسے اور اندیشے گیدڑ ہوتے ہیں، یہ انسان کو اکثر گھیر لیتے ہیں اورآپ اگر ان پر قابو پانا سیکھ لیں تو آپ مسائل کے گرداب سے نکل آتے ہیں اور آپ اگر یہ فن نہیں سیکھتے توگیدڑ آپ کی صلاحیتیں کھا جاتے ہیں، میں ان کے قہقہے کے بعد اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھتا تھا اوروہ اس کے دو حل تجویز کرتے تھے۔
ایک حل علمی ہوتاتھا، یہ ان کی پڑھی لکھی رائے ہوتی تھی یا پھر رمل یا زائچے کا حساب ہوتا تھا اوردوسرا حل تجربہ ہوتا تھا، شیخ صاحب مجھے بتاتے تھے، وہ بھی اس قسم کے مسئلے کا شکارہوئے تھے، انھوں نے غلط فیصلہ کیا تھا اور اس کا انھیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا، وہ اپنے کسی نہ کسی جاننے والے یا دوست کا حوالہ بھی دیتے تھے اور یوں ہم حل پر پہنچ جاتے تھے، میں اکثر اپنے دوستوں یا جاننے والوں کوبتاتاہوں، میری عمرہزار سال ہے، میں 45 سال کا ہوں، میرا استاد80سال کا اور ہماری کتابیں 875 سال کی ہیں اور یہ ہزار سال کا تجربہ مجھے راستے سے بھٹکنے نہیں دیتا۔
میرے باباجی دو جنوری 2016ء کی دوپہر دنیا سے چلے گئے لیکن جاتے جاتے اپنے جانے کی اطلاع کر گئے، شیخ صاحب کی آواز میرا وہم نہیں تھا، وہ آواز صاف اور واضح تھی چنانچہ میں نے چھت کی طرف دیکھا اور جواب دیا "باباجی یہ کیسے ہو سکتا ہے، 45 سال کا بے وقوف وجود 80 سال کے تجربے کو کیسے بھول سکتاہے؟" مجھے یقین ہے اس کے جواب میں باباجی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ہو گا" او جان دے او، چوہدری صاحب! آپ آٹھ عدد ہیں اور آٹھ عدد اپنی مرضی سے یاد رکھتا ہے اور اپنی مرضی سے بھول جاتا ہے، اس کے سامنے کسی دوسرے کی مرضی نہیں چلتی"۔