اچانک میٹھا ہو جانا
یہ 31 دسمبر 2015ء کی شام تھی، بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت کمار دوول نے پاکستان فون کیا، نئے سال کی مبارک باد پیش کی اور اس کے بعد اطلاع دی "ہمارے اداروں کا خیال ہے، پاکستان کے چند لوگ پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں، آپ ان کو روکیں" اجیت دوول نے اس کے بعدچند معلومات بھی شیئر کیں، فون سننے والے پاکستانی اہلکاروں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اطلاع کر دی۔
وزیراعظم نے فوری تحقیقات اور بھارتی حکومت کی مدد کا حکم جاری کر دیا، ہمارے اداروں نے ابھی بھارتی ٹپس پر کام شروع ہی کیا تھا کہ پٹھان کوٹ ائیر بیس پرحملہ ہو گیا، بھارتی میڈیا کے مطابق دو جنوری کی صبح ساڑھے تین بجے چھ دہشت گرد ائیر بیس میں گھس گئے، بھارتی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ ہوا، انڈین فوج کے سات لوگ مارے گئے، ان میں لیفٹیننٹ کرنل نرنجن کمار بھی شامل تھا، دہشت گرد بھی ہلاک ہو گئے۔
ان دہشت گردوں میں ناصر نام کا ایک نوجوان بھی شامل تھا، ناصر نے مرنے سے قبل پاکستان میں چند ٹیلی فون کالز کی تھیں، ایک کال بہاولپور میں بھی ہوئی تھی، بھارتی زعماء نے دعویٰ کیا "یہ کال مولانا مسعود اظہر کے بھائی عبدالرحمن رؤف اصغر کو ہوئی تھی" اجیت کمار دوول نے ایک بار پھر پاکستان سے رابطہ کیا، حکومت کو دو ٹیلی فون نمبر دیے، کالز کا مواد بھجوایا، لوکیشنز کا ڈیٹا دیا اور چند مزید معلومات فراہم کیں، یہ معلومات بھی وزیراعظم کو پیش کر دی گئیں، وزیراعظم نے یہ اطلاعات تصدیق کے لیے متعلقہ اداروں کو بھجوا دیں، وزیراعظم چار جنوری کو سری لنکا کے دورے پر چلے گئے۔
پانچ جنوری کو پاکستانی اداروں نے بھارتی معلومات کے چند حصوں کی تصدیق کر دی، یہ صورتحال افسوس ناک تھی، وزیراعظم نے نزاکت کی شدت کم کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون کر دیا، بھارتی وزیراعظم نے پاکستانی وزیراعظم کو تین لوگوں کے نام دیے، ان لوگوں میں بھی عبدالرحمن رؤف شامل تھے، میاں نواز شریف نے نریندر مودی کو یقین دلایا "اگر پاکستان کا کوئی شہری یا تنظیم اس واردات میں ملوث ہوئی تو ہم اسے نہیں چھوڑیں گے" وزیراعظم نے چھ جنوری کو کولمبو سے اسلام آباد آتے ہوئے جہاز میں صحافیوں سے ملاقات کی، ہمیں اس وقت ان کی باڈی لینگویج میں بہت کلیئرٹی نظر آئی، یہ واقعی دہشت گردوں کے معاملے میں بہت کلیئر ہیں اور یہ آنے والے وقت میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔
ہمیں یہ بھی محسوس ہوا، فوج اور آئی ایس آئی بھی اس معاملے میں سیاسی حکومت کے ساتھ ہے، جنرل ناصر جنجوعہ وزیراعظم کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائرز ہیں، یہ چار اکتوبر 2015ء کو فوج سے ریٹائر ہو کر اس عہدے پر فائز ہوئے، یہ سویلین کم اور فوجی زیادہ ہیں، ہمیں ان میں بھی کلیئرٹی نظر آئی اور یہ کلیئرٹی فوجی سوچ کی غماض ہے اور یہ ثابت کرتی ہے، فوج اور سول گورنمنٹ دونوں دہشتگردوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ درست ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا واقعی مولانا مسعود اظہر اور ان کے بھائی رؤف اصغر پٹھان کوٹ حملے میں ملوث ہیں؟ اگر ہاں تو پھر یہ ثابت کون کرے گا؟ کیا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت پیش کرنا بھارت کی ذمے داری نہیں؟ اگر ہاں تو پھر وہ بھارت یہ ثبوت کیسے پیش کرے گا جو تمام پیشگی اطلاعات اور معلومات کے باوجود دہشت گردوں کو ائیربیس میں داخل ہونے سے نہیں روک سکا، بھارت کے پاس دہشت گردوں کا ڈیٹا بھی تھا، ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ بھی اور پلان آف ایکشن بھی، پولیس نے ممکناً خطرے کے پیش نظر پٹھان کوٹ کے بازار تک بند کروا دیے تھے مگر بھارت اس کے باوجود ائیر بیس کودہشت گردوں سے نہیں بچا سکا، کیوں؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔
بھارت اگر مولانا مسعود اظہر اور رؤف اصغر کے بارے میں ٹھوس ثبوت دے دیتا ہے تو پھر "ملزموں" کے خلاف مقدمہ کہاں چلے گا؟ جرم بھارت میں ہوا، ایف آئی آر پٹھان کوٹ میں درج ہوئی اور ملزم اور عدالت اُس پاکستان میں ہیں جہاں جرم ہوا اور نہ ہی ایف آئی آر کٹی چنانچہ فیصلہ کیسے ہو گا؟ انصاف کیسے کیا جائے گا اور پاکستان بھارت کے ان انتہا پسندوں کو کیسے مطمئن کرے گا جو گائے کے گوشت کا الزام لگنے پر مسلمانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں، بھارت شاید چند دنوں میں پاکستان سے مولانا مسعود اظہر اور رؤف اصغر کی حوالگی کا مطالبہ بھی کرے، یہ مطالبہ ان مقدمات اور ان سزاؤں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
جن کے تحت مولانا کو 1994ء میں مقبوضہ کشمیر سے گرفتار کیا گیا اور انھیں تہاڑ جیل میں محبوس رکھا گیا تھا، یہ مطالبہ اگر ہوا تو امریکا بھارت کی تائید کرے گا، اس وقت میاں نواز شریف پر بھارت اور امریکا دونوں کا دباؤ ہو گا، میاں صاحب کو اس وقت مودی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا اور یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا، کیوں؟ کیونکہ معاملات صرف مولانا مسعود اظہر کی حوالگی تک محدود نہیں رہیں گے۔
بھارت اس کے بعد حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور داؤد ابراہیم بھی مانگے گا اور ہم یہ مطالبات ماننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، آپ فرض کر لیجیے، ہم جامع مذاکرات کے جھانسے میں آ کر مولانا مسعود اظہر اوررؤف اصغر کو بھارت کے حوالے کر دیتے ہیں اور مولانا اس "زیادتی" کے بدلے میں پاکستانی ریاست کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں تو ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے؟
کیا بھارت اس کے بعد پاکستان کو دہشت گرد ریاست ڈکلیئر کرانے کے لیے مولاناکو عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ میں پیش نہیں کر دے گا؟ ہم نے بھارتی خواہش پر مولانا اور ان کے ساتھیوں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا لیکن ہم یہ مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے، ہم انھیں پاکستان میں سزا دے سکیں گے اور نہ ہی انھیں بھارت کے حوالے کر سکیں گے چنانچہ یہ تنازعہ نئے تنازعوں کو جنم دے گا اور یہ تنازعے جامع مذاکرات کے نئے تخلیق شدہ جزیرے کو بہا لے جائیں گے اور یوں نریندر مودی کا "لاہور پرنام" بھی ضایع ہو جائے گا اور یہ بھی اسٹیبلش ہو جائے گا، بھارتی وزیر اعظم جب بھی پاکستان جائے گا، بھارت میں کہیں نہ کہیں حملہ ضرور ہو گا اور جو بھی پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچے گا وہ خواہ نواز شریف ہو یا پرویز مشرف، وہ فارغ ہو جائے گا۔
میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا مولانا مسعود اظہر اور ان کے بھائی رؤف اصغر سو فیصد بے گناہ ہیں، یہ فیصلہ بہرحال ریاست نے کرنا ہے لیکن جہاں تک مولانا کے معاملے میں بھارتی جانبداری کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے، بھارت آج تک 1999ء کا وہ دن نہیں بھولا جب مولانا کے ساتھیوں نے کھٹمنڈو سے ائیرانڈیا کا جہاز اغواء کیا تھا اور بھارت 176 مسافروں کے عوض مولانا مسعود اظہر اور ان کے دو ساتھیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا، مولانا مسعود اظہر بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں، والد ہیڈ ماسٹر تھے۔
مولانا نے مذہبی تعلیم بنوری ٹاؤن کراچی سے حاصل کی، حرکت الانصار میں شامل ہوئے، افغان جہاد میں بھی حصہ لیا اور کشمیر کی آزادی کی تحریک میں بھی۔ بھارت نے فروری 1994ء میں مولانا کو مقبوضہ کشمیر سے گرفتار کر لیا، مولانا کی گرفتاری کے بعد ان کے چاہنے والوں نے رہائی کی کوششیں شروع کر دیں، جولائی 1995ء میں"الفاران" نام کے ایک گم نام گروپ نے مقبوضہ کشمیر سے چھ غیر ملکی سیاح اغواء کر لیے، یہ کارروائی برطانوی شہری عمر شیخ سے منسوب ہوئی، الفاران نے سیاحوں کے بدلے مولانا کی رہائی کا مطالبہ کیا، بھارتی حکومت نہ مانی، اغواء شدہ سیاحوں میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
دوسرا ہلاک ہو گیا جب کہ باقی چار آج تک لاپتہ ہیں، بھارتی فورسز نے کارروائی کی اور عمر شیخ گرفتار ہو گیا، مولانا کو چھڑانے کی دوسری بڑی کوشش 24 دسمبر 1999ء کو ہوئی، ائیر انڈیا کی فلائیٹ 814 کھٹمنڈو سے دہلی روانہ ہوئی، جہاز میں 176 مسافر اور عملے کے 15 لوگ سوار تھے، یہ فلائیٹ جب بھارتی حدود میں داخل ہوئی تو پانچ اغواء کار اٹھے، عملے کو یرغمال بنایا اور جہاز لاہور کی طرف موڑنے کا حکم دے دیا۔
جہازلاہور کی طرف مڑا لیکن پٹرول کی کمی کے باعث امرتسر میں اتارنا پڑا، حکومت نے آپریشن کی کوشش کی تو اغواء کاروں نے پٹرول کے بغیر ہی ٹیک آف کروا دیا، لاہور میں فیول بھرا گیا اور جہاز دبئی پہنچ گیا، یہ وہاں سے قندہار لے جایا گیا، اغواء کاروں سے 31 دسمبر تک مذاکرات ہوتے رہے یہاں تک کہ بھارت نے مولانا مسعود اظہر، عمر شیخ اور مشتاق احمد زرگر کو رہا کر دیا، اغواء کاروں نے یہ تینوں شخصیات وصول کیں اور جہاز اور جہاز کے مسافر چھوڑ دیے۔
یہ اغواء ہائی جیکنگ کی تاریخ میں اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس کی بنیاد پر آگے چل کر دنیا بھر کے ائیر پورٹس کی سیکیورٹی تبدیل کر دی گئی، ہائی جیکرز نے یہ آپریشن صرف پانچ کروڑ روپے میں کیا تھا، یہ رقم کراچی کے ایک بزنس مین نے فراہم کی تھی، وہ شخص مولانا کا مرید تھا، اغواء کاروں نے کھٹمنڈومیں ائیرپورٹ سیکیورٹی کے تمام آلات خرید لیے، یہ مختلف دھاتوں کے کاغذوں میں اسلحہ لپیٹتے تھے اور اسے سیکیورٹی آلات سے گزارتے تھے۔
یہ بالآخر اس دھات تک پہنچ گئے جس میں لپٹے بارود کو مشینیں نہیں دیکھ پاتی تھیں، انھوں نے جعلی پاسپورٹس بنوائے، بزنس کلاس کے ٹکٹ خریدے، ایک ساتھی کو عرب شہزادے کا گیٹ اپ دیا، قیمتی کاریں، گارڈز اور پروٹوکول کی گاڑیاں لیں، نقلی شہزادے کو اطالوی سوٹ، بوٹ اور رولیکس کی گھڑی پہنائی، شان و شوکت کے ساتھ ائیرپورٹ پہنچے اور ٹھک ٹھک کرتے سیدھے لاؤنج میں پہنچ گئے، کسی نے ان کی تلاشی لینے کی جرأت ہی نہ کی، جہاز اغواء کرنے کے بعد ان لوگوں نے مسافروں کو پانچ دن تک سیٹوں پر بٹھائے رکھا، مسافر بول و براز بھی سیٹوں پر ہی کرتے تھے جس کی وجہ سے جہاز میں تعفن بھی پھیل گیا اور مسافروں کے اعضاء بھی گلنے سڑنے لگے۔
اغواء کاروں نے اس کے بعد چند مسافروں کو رہا کر دیا، ان مسافروں نے جب بھارتی حکام کو جہاز کی صورتحال بتائی تو حکومت کے اعصاب جواب دے گئے اور یہ مولانا کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئی، اغواء کار مسلسل سات روز تک جاگتے بھی رہے تھے، یہ اتنے ہی دن مزید جاگ سکتے تھے، بھارت نے اس دور میں دعویٰ کیا "یہ کارروائی مولانا کے بھائی عبدالرحمن رؤف اصغر کی تھی اور وہ بھی اغواء کاروں میں شامل تھے" بھارت آج تک ان دونوں بھائیوں کی تلاش میں ہے چنانچہ پھر ائیر بیس کے ایشو پر بھارت کے موقف کو کیسے سچ مان لیا جائے؟
ہمارے ملک کے بے شمار لوگوں کا خیال ہے، بھارت نے پہلے ممبئی حملوں کو جواز بنا کر حافظ سعید پر پابندی لگوائی اور یہ اب پٹھان کوٹ کے واقعے کے ذریعے مولانا مسعود اظہر اور جیش محمد کے دفتر بند کرا رہا ہے اور اس کا مقصد وہ نہیں جو بظاہر نظر آتا ہے بلکہ یہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے لیے ایک خوفناک کارگل تیار کر رہا ہے، یہ کارگل اقتصادی راہداری کی تکمیل سے پہلے کیا جائے گا۔
میری حکومت سے درخواست ہے، یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اس نقطے پر بھی غور کر لے کیونکہ 70 سال پرانے دشمن کا اچانک میٹھا ہو جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا چنانچہ مودی کا پرنام ایک سازش بھی ہو سکتا ہے۔