زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کو سابق سفارت کار اور سینئر تجزیہ کار کامیاب قرار دے رہے ہیں، کامیاب ہونا بھی چاہیے کہ دونوں ممالک نے پانچ معاہدوں پر دستخط کئے، پاکستان کو پچاس کروڑ ڈالر کا سپورٹ فنڈ مل گیا اور ایک اعلیٰ سطحی رابطہ کونسل تشکیل پائی جو دونوں ممالک میں اقتصادی و معاشی تعاون کی نگرانی کرے گی، گرین سعودی عرب پروگرام کی کامیابی کے لئے حجاز مقدس کو ایک کروڑ افرادی قوت کی ضرورت ہے جس میں سے پاکستان اگر زور لگائے تو کم و بیش دس پندرہ لاکھ پاکستانی ہنر مندوں کی کھپت ہو سکتی ہے یہ پاکستان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہو گی جہاں بے روزگاری کا بھوت دانت نکالے ناچ رہا ہے اور ابتر معاشی حالات کے باعث، فراہمی روزگار کے منصوبے ٹھپ ہیں، حکومت کے وزیر مشیر اس دورے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں کہ دونوں ملکوں میں سال ڈیڑھ سال تک سرد مہری کی جو کیفیت رہی وہ ختم نہیں تو کم ضرور ہوئی اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے برادرم معید پیرزادہ سے خصوصی انٹرویو میں دورے کو اہم قرار دیا، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 1947ء سے اب تک تعلقات کی نوعیت دوستانہ سے زیادہ برادرانہ رہی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو یک جان و دو قالب سمجھا مگر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر معلوم نہیں کیا جادو کیا کہ وہ حیلوں بہانوں سے پاکستان پر بگڑنے لگے، 2019ء میں وزیر اعظم نے امریکہ روانگی سے پہلے سعودی عرب جا کر محمد بن سلمان اور دیگر سعودی زعما سے تبادلہ خیال کیا اس موقع پر محمد بن سلمان اس قدر پرجوش نظر آئے کہ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے ذاتی طیارے پر عازم واشنگٹن ہونے کی دعوت دی جو قبول کر لی گئی۔ یہ گرمجوشی کی انتہا تھی مگر اچانک پتہ چلا کہ پاکستانی وزیر اعظم اس طیارے کو امریکہ چھوڑ کر عام فلائٹ سے واپس آ رہے ہیں اور گرمجوشی سردمہری میں بدل چکی ہے۔
وطن واپسی پر دونوں ممالک کے مابین سردمہری کی غیر مصدقہ اطلاعات گشت کرتی رہیں مگر جب ترکی کے صدر طیب اردوان اور ملائشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر غور اور او آئی سی کی غیر فعالیت کے باعث کسی نئی حکمت عملی کی تشکیل کے لئے پاکستان، انڈونیشیا، ایران اور قطر کو تبادلہ خیال کے لئے مدعو کیا تو سعودی عرب قیادت نے سفارتی نزاکتوں اور دیرینہ دوستانہ تعلقات کے سارے تقاضے پس پشت ڈال کرجارحانہ رویہ اختیار کیا۔ حتیٰ کہ بقول صدر اردوان پاکستانکو یہ دھمکی دی کہ اگر عمران خان اس کانفرنس میں شریک ہوئے تو دو ملین پاکستانی تارکین وطن کو فی الفور نکال دیا جائے گا اور پاکستان کو دیگر منفی نتائج بھگتنا پڑیں گے اپنی معاشی مجبوریوں اور دو ملین تارکین وطن کے مخدوش مستقبل کے باعث پاکستان نے کڑوا گھونٹ بھرا اور کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی مگر جب تک ٹرمپ اقتدار میں رہے سعودی قیادت کا طرز عمل بیگانگی پر مبنی رہا، اب مگر صورتحال قدرے مختلف ہے، جوبائیڈن کی امریکی انتظامیہ ایران سے مذاکرات پر آمادہ ہے، انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی حکومت کا بازو مروڑنے کی پالیسی پر عمل پیرا اور جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقات کے لئے پرجوش، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے شاہی خاندان اور سعودی حکومت میں اندرونی اختلاف رائے عیاں ہے اور محمد بن سلمان کی عجلت پسندانہ پالیسیوں سے سعودی عوام نالاں، سعودی حکمرانوں کو ایک بار پھر پاکستان جیسے آزمودہ دوست کی یادستانے لگی ہے جو امریکی کیمپ سے نکلا تو نہیں مگر چین، روس، ترکی اور ملائشیا جیسی ابھرتی ہوئی معاشی و دفاعی قوتوں کے کیمپ میں اپنی جگہ بنا رہا ہے، جس کی نیوکلیر صلاحیت اور دفاعی قوت کسی سے مخفی نہیں اور جو حجاز مقدس کی سلامتی کی ضمانت دینے کے قابل ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اور موجودہ حکومت کا مستقبل اس بحران سے وابستہ ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی کی روک تھام کے لئے حکومت کی کوئی تدبیر کارگر نہیں، آئی ایم ایف کا سخت گیر معاہدہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور حکومت کی ہر حکمت عملی کو ناکام بنانے میں ممدو مددگار۔ سعودی عرب ماضی کی طرح آمادہ التفات ہو تو اگلے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر تلافی مافات کی صورت نکل سکتی ہے ورنہ دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں حکومت کا حال کراچی اور ڈسکہ کے ضمنی انتخابات سے مختلف نہ ہو گا کہ نقصان مایہ وشماتت ہمسایہ، سعودی عرب کی طرف سے پچاس کروڑ کا سپورٹ فنڈ اور ایک کروڑ ملازمتوں میں ایک ڈیڑھ ملین افراد کی کھپت ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے، مسئلہ مگر سعودی عرب سے فوائد سمیٹے کی صلاحیت کا ہے جس سے ہمارے قومی ادارے الاّ ماشاء اللہ عاری ہیں۔
دو سال قبل محمد بن سلمان نے پاکستان میں کم و بیش چھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا، گوادر میں آئل ریفائنری کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑی تھی مگر ہوا کیا؟ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا، پاک فوج کی قیادت اور مادر وطن کی محبت سے سرشار سفارتی کور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو گھیر کر اسلام آباد لاتی اور بڑے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرتی مگر یہاں کے بابو انہیں کئی کئی ماہ تک کاغذی کارروائیوں میں الجھا کر مایوس واپس لوٹا دیتے ہیں مقصد زیادہ سے زیادہ کک بیک کا حصول ہوتا ہے، میاں نواز شریف کے دور میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اٹلی کے سفیر اور اسٹیفنو نامی سرمایہ کار کو وزیر اعظم ہائوس لے گئے اور بتایا کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار ان سے بھاری رشوت طلب کر رہے ہیں جس کی ادائیگی کے بعد منصوبہ قابل عمل ہی نہیں رہتا، اسحق ڈار نے تو خیر آئیں بائیں شائیں کرنی تھی، میاں نواز شریف بھی اپنے سمدھی کو ناراض کرنے کے لئے تیار نہ تھے، خوبصورتی سے ٹال گئے، متحدہ عرب امارات اور قطر کے سرمایہ کار اور حکمران فوجی فائونڈیشن میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ ہیں کسی حکومتی منصوبے میں نہیں اور کسی ایسے نجی منصوبے میں بھی نہیں جس کی منظوری کے لئے سول حکومت اور اداروں سے واسطہ پڑے۔ سعودی حکمرانوں کو پاکستان کا احساس ہوا ہے مگر کیا ہمارے اپنے حکمران، بیورو کریٹ اور فیصلہ ساز بھی مادر وطن کی مشکلات مسائل سے آگاہ ہیں؟ سعودی حکمرانوں سے بات چیت میں ہمارا فوکس صرف مالی امداد اور روزگار کے مواقع پر رہا یا ہم نے افغانستان، اسرائیل اور کشمیر کے حوالے سے اہم ترین، دور رس اور تاریخی مفادات کو بھی اہمیت دی؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ اسرائیل پر ہمارا اُصولی موقف دوستوں کی خوشنودی پر قربان ہوا تو یہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز اور کشمیری عوام کی قربانیوں سے بے وفائی کرنے کے مترادف ہو گا جبکہ افغانستان میں قیام امن کا اہتمام امریکیوں کے نقطہ نظر سے نہیں، ہمارے قومی مفادات کے تناظر میں ہونا چاہیے کہ فوجی انخلا کے بعد پیچیدہ صورتحال کو ہم بھگتیں گے امریکی یا ان کے گماشتہ عرب حکمران نہیں، 1990ء کی دہائی کا تلخ تجربہ بھول کر ہم ایسی غلطی کریں گے جس کے ازالے کی گنجائش نظر نہیں آتی، خدا کرے کہ عمران خان کی روضہ رسول ﷺ پر حاضری اور بیت اللہ میں شب قدر کی دعائیں قبول ہوں اور پاکستان کسی نئی دلدل میں پھنسنے نہ پائے۔ ویسے ایمان کی تویہ ہے کہ ہم جب تک اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی سنجیدہ تدبیر نہیں کرتے، اس دلدل سے ہمیں امریکہ نکال سکتا ہے نہ سعودی عرب نہ چین ؎
بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے