یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سے برسوں پہلے ایک واقعہ سنا تھا، رہ رہ کر یاد آتا ہے، برصغیر کے ممتاز عالم دین مولانا محمود الحسن جن دنوں مالٹا میں اسیری کے ایاّم گزار رہے تھے، ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے لئے برطانیہ، روس اور فرانس کا گٹھ جوڑ عروج پر تھا جس کا مقصد بلقان اور عالم عرب میں نسلی و لسانی فسادات کی آگ بھڑکا کر عظیم مسلم سلطنت کا شیرازہ بکھیرنا تھا، نگرانی پر مامور انگریز کمانڈر مولانا کی درویشی اور علمی وجاہت سے متاثر ہو کر وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال کی محفل سجانے لگا، ایک بار مولانا نے انگریز کمانڈر سے پوچھا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے عیسائی اور یہودی، روسی، برطانوی اور فرانسیسی مل جل کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے درپے کیوں ہیں؟ جبکہ ترکی آپ کے بقول مرد بیمار ہے اور سلطان عبدالحمید کی معزولی کے بعد یہ سلطنت کسی یورپی ہمسائے کے لئے خطرہ نہیں۔ انگریز کمانڈر نے بلا تامل جواب دیا" مولانا!بجا کہ ترکی کو فری میسن کے ذریعے ہم نے کافی حد تک مغلوب کر لیا ہے سلطان عبدالحمید کی معزولی کے بعد اس کے حکمران اپنے بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور وہ برطانیہ و روس تو درکنار اب آسٹریا کے لئے بھی خطرہ نہیں مگر جب تک خلافت عثمانیہ برقرار ہے یورپ چین سے بیٹھ سکتا ہے نہ اسرائیل کے قیام کی خواہش مند فری میسن تحریک، وجہ یہ بتائی کہ عثمانی خلیفہ کی طرف سے اعلان جہاد کی صورت میں نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، دنیا بھر کے مسلمان سر پر کفن باندھ کر قبلہ اوّل بیت المقدس مکّہ معظمہ و مدینہ منورہ میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور روس، برطانیہ، آسٹریا، فرانس مل کر بھی یہودیوں کو سرزمین فلسطین کے ایک انچ ٹکڑے پر ناجائز قبضہ تو درکنار خریدنے کا موقع نہیں دلا پائیں گے، مولانا محمود الحسن کہا کرتے تھے کہ انگریز کی یہ بات سن کر مجھے لولی لنگڑی خلافت عثمانیہ کی اہمیت و افادیت سمجھ آئی۔
جن لوگوں نے خلافت عثمانیہ کی تاریخ پڑھی ہے انہیں بخوبی علم ہے کہ خلافت عثمانیہ اور ترک سلطنت سے زار روس، شاہ انگلستان، روم اور آسٹریا کے حکمرانوں کی پرخاش سیاسی اور مذہبی تھی، خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام علاقوں میں قدرتی وسائل کی موجودگی اور ریاست کی سٹریٹجک اہمیت تھی لیکن دنیا بھر کے یہودیوں کے لئے ترکی کی سرزمین جائے پناہ تھی جب بھی آسٹریا، روس اور دیگر ممالک کی عیسائی حکومتیں اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر یہودیوں کو بے دخل کرتیں یا ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتیں، ترک حکمران انہیں مظلوم سمجھ کر اپنے ہاں پناہ دیتے اور خوب آئو بھگت کرتے مگر سلطنت عثمانیہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی یہ تنگ نظر اور احسان فراموش یہودی اپنے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کی ہدایات کے مطابق مکروہ سازشوں میں مصروف ہو جاتے، ان کا مطمح نظر یروشلم میں ارض موعود کی بازیابی اور ایک آزاد ریاست کا قیام تھا، مگر عثمانی حکمران ایک معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں نہ صرف یروشلم اور اس کے اردگرد آباد ہونے سے روکتے بلکہ وہاں اراضی خریدنے سے بھی منع کرتے، تحریری اور زبانی معاہدوں کی پابندی کے خوگر مسلم حکمران اپنے آپ کو یروشلم کی فتح کے موقع پر وہاں کے عیسائی زعما اور حضرت عمرؓ کے مابین ہونے والے تحریری سمجھوتے کا پابند سمجھتے، جس میں مفتوح قوم نے یہ وعدہ لیا تھا کہ فاتحین حضرت عیسیٰ ؑ کے قاتل یہودیوں کو یہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے تاکہ یہ مکار اور سازشی قوم اپنی عادت کے مطابق دوبارہ قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ کر سکے۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمان حصوں بخروں میں تقسیم ہوئے، مسلم قوم عربی، ایرانی، ترکی، ہندی، افغانی، مصری کے علاقائی، نسلی اور لسانی سانچوں میں ڈھلی، فری میسن تحریک کے پروردہ ترک حکمرانوں نے بھی سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر عظیم ریاست کی جگہ ایک کمزور اور مختصر ملک پر اکتفا کیا، خلافت عثمانیہ کے بطن سے ظہور پذیر درجنوں مسلم ریاستوں میں مگر اسرائیل کے قیام کو روکنے کی ہمت تھی نہ ارض فلسطین کے اصل باشندوں کے حقوق کے تحفظ کا حوصلہ اور نہ استعمار کے ناجائز بچے کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کی صلاحیت، آج کھجور کی گٹھلی کے برابر صیہیونی ریاست ستاون اسلامی ممالک کی موجودگی میں قبلہ اوّل پر قابض ہی نہیں ستائیس رمضان المبارک کو بیت المقدس میں نہتے اور معصوم عبادت گزاروں پر گولیاں چلاتی، چار درجن فلسطینیوں کو شہید اور تین سو کو زخمی کرتی ہے مگر پیٹرو ڈالر کی دولت سے مالا مال اور امریکہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے والے عرب بادشاہ اور حکمران یہ ظلم روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ جدید خطوط پر استوار فوجی صلاحیت کے عجمی ممالک کی قیادت زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرنے کے قابل، امریکہ و یورپ کی خاموشی قابل فہم ہے ع
فرنگ کی رگ جاں پنجٔہ یہود میں ہے
لیکن باعث شرم وہ عرب حکمران ہیں جو اپنی قبائلی عصبیت پر ہمیشہ نازاں اور بزرگوں کی شجاعت و مردانگی کے قصیدہ خواں رہے، اسرائیل ظلم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے اور ہمارے عرب دوست اسے تسلیم کرنے کے لئے قطار باندھے کھڑے ہیں ان عربوں کو پاکستان، ایران، ترکی اور ملائشیا کا مل بیٹھنا گوارا نہیں مگر اپنے اپنے دارالحکومتوں میں فلسطینیوں کے قاتل اسرائیلی وفود کی آئو بھگت مذہبی جوش وجذبے سے کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دی سٹینڈوو غزہ اور دی سٹینڈوو فلسطین کا ٹرینڈ مقبول ہے اس ٹرینڈ سے متاثر ہو کر یورپی ممالک میں تو احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں مگر مسلم دارالحکومتوں میں قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہے، فلسطینی شہادتوں کا نذرانہ پیش کر کے غاصب اسرائیل کو للکار اور اُمہ کی غیرت کو جوش دلا رہے ہیں، ستاون مسلم ممالک کو اپنی باری کا انتظار کرنے کے بجائے پورے قد سے کھڑے ہونے کی دعوت دے رہے ہیں مگر ان میں سے بیشتر اسرائیل کے روبرو سربسجود ہیں ؎
یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
مذمت کا کیا ہے وہ تو امریکہ میں بیٹھ کر چام نومسکی بھی کر رہا ہے اور برطانیہ و فرانس کے کئی انصاف پسند قلمکار بھی، فلسطینیوں کو اس مذمت سے کیا حاصل؟ یہ زبانی کلامی مذمت اسرائیلی گولیوں کا راستہ روک سکتی ہے نہ مظلوم فلسطینیوں کی جان و مال اور عزت و ناموس کا تحفظ ممکن، بھلے وقتوں میں او آئی سی نام کی ایک تنظیم اپنا سربراہی اجلاس بلایا کرتی تھی مگر اب وہ بھی خاموش ہے کہ اس کے اصل مالک امریکہ سے خائف اور اسرائیل کی خوشنودی کے طلب گار ہیں، انہیں اسرائیل کے مقابلے میں حوثی یمن، ایران، ترکی وغیرہ سے زیادہ پرخاش ہے، فلسطینی بار بار ایران، ترکی اور پاکستان کو پکارتے ہیں مگر یہ تینوں اپنی بقا و استحکام کی جنگ میں مصروف ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے بعد صلیبیوں اور صیہیونیوں کو ان تینوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ 9/11کے بعد مسلم عوام اور مزاحمتی تحریکوں کو نجی جہاد سے روک دیا گیا ہے کہ یہ صرف ریاست کا حق ہے اگر خلافت عثمانیہ برقرار رہتی تو تمام تر کمزوریوں کے باوجود جہاد کا اعلان کرتی اور مسلم عوام خود ظالم و غاصب اسرائیل سے نمٹ لیتے مگر اسرائیل کے قیام سے پہلے خلافت کا تدارک کیا گیا اب فلسطین، کشمیر اسرائیل و بھارت کے رحم و کرم پر ہے اور امریکہ و یورپ ان دونوں کا سرپرست۔ مسلمانوں کے لئے حکم خداوندی ہے۔"اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوچ کرو تو زمین پر گرے جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو، دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے"۔ (توبہ آیت نمبر 38)
ایک شہری نے سوشل میڈیا پر تجویز پیش کی ہے کہ اس عید پر خواتین چوڑیاں پہننے کے بجائے ستاون مسلم ممالک کے سربراہوں اور سپہ سالاروں کو اس درخواست کے ساتھ ارسال کریں کہ وہ سب انہیں پہن کر کشمیر اور فلسطین کے کوچہ و بازار کا چکر لگائیں۔ ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی