یہ ’’اقتدار‘‘ نہیں آساں
انتخابی نتائج میری توقع کے مطابق ہیں جن لوگوں کا خیال تھا کہ اس ملک کے ستم رسیدہ عوام کی دعائیں قبول ہوں گی نہ تمنائیں بر آئیں گی اور نہ ان کے ووٹ کو عزت ملے گی، انہیں مسلم لیگ(ن) کی دوبارہ جیت کا شبہ اور ہنگ پارلیمنٹ کا اندیشہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی شکست کی پہلی اینٹ اس روز رکھی جب میاں نواز شریف نے اپنی نااہلی کے اسباب، کرپشن کے الزامات سے توجہ ہٹانے کے لیے فوج، عدلیہ اور خفیہ اداروں کے خلاف مہم جوئی کا راستہ اختیار کیا اور پارٹی کے اندر کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ قائد محترم کو خودکش بمبار بننے سے روک سکے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ملک بالخصوص پنجاب کے عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی قربانیاں دینے اور پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے طاقتور دشمنوں اور ان کے آلہ کار عناصر سے لڑنے والی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ مسلم لیگی لیڈر شپ نے فوج پر الزام تراشی کی مہم شروع کرنے سے قبل یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ پاکستان کی چھ لاکھ فوج کا ہر جوان و افسر اس منفی پروپیگنڈے سے کیا اثر قبول کرے گا اور اگر ایک فوجی خاندان پانچ افراد پر مشتمل سمجھ لیا جائے تو میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی روزانہ اپنی یاوہ گوئی سے کم و بیش پچیس لاکھ شہریوں کی دلآزاری کرتے رہے۔ ریٹائرڈ فوجی ان کے سوا ہیں جن کی تعداد تیس لاکھ ہے اور انہیں بھی زبان کے یہ زخم سہنے پڑے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا بیس کیمپ ہے اور یہاں مسلم لیگی قیادت نے لاکھوں افراد کو کچوکے لگا کر اپنا ووٹ بنک کم کیا جبکہ عمران خان نے ڈٹ کر اس بیانئے کی مخالفت کی اور اسٹیبلشمنٹ کی حمائت کا طعنہ جوانمردی سے برداشت کیا۔ عوام باری کے بخار سے تنگ تھے۔ ماضی بعید کو چھوڑیے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے گزشتہ دس سال میں جس برے طرز حکمرانی سے غربت، ناخواندگی، پسماندگی اور سماجی و معاشی ناہمواری میں اضافہ کیا، کرپشن، اقربا پروری اور دوست نوازی کو فروغ دیا، حکمران طبقے کے اندرون و بیرون ملک بنک اکائونٹس اور جائیدادوں میں اضافہ ہوا اور جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی ہوئی، عوام اس سے تنگ آ چکے تھے۔ پانامہ سکینڈل سامنے آیا تو ان کی یہ خوش گمانی خاک میں مل گئی کہ کرپشن کا الزام محض پروپیگنڈا ہے۔ اور وہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہمارا محبوب رہنما اپنے اہالیوں موالیوں کے ساتھ قومی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے میں لگا رہا۔ عدالتی فیصلوں نے ووٹروں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں تحریک انصاف کی طرف رجوع اور عمران خان پر اعتماد کی راہ دکھائی۔ عمران خان کو خیبر پختونخواہ میں تو پانچ سالہ کار گزاری کا ووٹ ملا مگر جنوبی پنجاب اور کراچی کے عوام نے مسلم لیگ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی مسلسل فریب کاری اور وعدہ خلافی سے تنگ آ کر تحریک انصاف کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی کامیابی نے ہمارے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے اس پروپیگنڈے کو باطل ثابت کیا کہ پاکستان کے ووٹر کرپشن سے الرجک ہیں نہ کسی سطح پر موجودہ عوام دشمن سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے سے نالاں۔ اگر انسان عزم صمیم کے ساتھ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر جدوجہد کرے، ڈٹا رہے تو قدرت اس کی مدد کرتی اور قوم لبیک کہتی ہے۔ حکومت سازی کے بعد عمران خان جس امتحان سے دوچار ہوگا وہ چھوٹا موٹا نہیں بڑا امتحان ہے۔ لیکن وہ جو فارسی میں کہتے ہیں۔ مشکلے نیست کہ آسان نہ شودمرد باید کہ ہراساں نہ شودعمران خان کی زندگی جدوجہد اور مشکل پسندی سے عبارت ہے اسے اقتدار اس عمر میں مل رہا ہے جب انسان آخرت کی فکر کرنے لگتا ہے۔ وہ 1970ء سے لے کر اب تک برسر اقتدار آنےوالے سیاستدانوں میں سے واحد شخص ہے جو صوبے، زبان، نسل، عقیدے اور مسلک کے تعصب سے بالاتر ہے۔ ریاست مدینہ جس کے لیے آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے اور جو نمود و نمائش کا خوگر ہے نہ جسے شہرت، عزت اور دولت کی ہوس کہ وہ ان ساری چیزوں کا لطف اوائل عمر میں اٹھا چکاہے۔ اب اسے مزید نیک نامی اور تاریخ میں نام لکھوانے کی خواہش ہو سکتی ہے اور نہ یادگار عظمت کی تڑپ۔ دیانتدار، باصلاحیت، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ٹیم کے ذریعے وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر واقعی کمزوروں، غریبوں، یتیموں، بیوائوں، بوڑھوں پھٹے کپڑوں، ٹوٹے جوتوں والے بے وسیلہ لوگوں کی پشت پناہ ثابت کر کے بیس کروڑ انسانوں کے دل جیت اور تاریخ میں نام لکھوا سکتا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے موقع پر وہ جان چکا ہے کہ اس ملک کے اصل رکھوالے اور ایثار و قربانی کے حقیقی پتلے، غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ قوم و ملک کو دیا، اب تک لیا کچھ نہیں، انہیں کسی نے دینے کی سعی بھی نہیں کی جبکہ طاقتور اور متمول لوگوں کی اکثریت نے قومی وسائل لوٹے اور باہر لے گئے لہٰذا یہ کمزور و غریب زیادہ نہیں مانگتے یہ صرف ریاست اور حکمران سے عزت، اپنی شبانہ روز محنت کا جائز معاوضہ، اور انصاف مانگتے ہیں جو دینا مشکل نہیں۔ سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روک کر، قومی وسائل عوامی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر کے اور تعلیم، صحت، روزگار اور معاشی و سماجی عدل و انصاف کی سہولتیں عام کر کے عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے اپنے ابتدائی خطاب میں قانون کی حکمرانی، احتسابی عمل میں تسلسل، وسائل کی منصفانہ تقسیم، سادگی کے فروغ اور کرپشن کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ سٹیٹس کو کی قوتیں مزاحم ہوں گی مگر عوام بالخصوص پرجوش، مخلص اور باہمت نوجوانوں کے تعاون سے وہ انہیں ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ زمین ہموار ہے اور موسم سازگار، بس اُسے درست بیج کا انتخاب اور فصل کی رکھوالی کرنا ہے، کھیت کو جنگلی جانوروں سے بچانے کے لیے اس نے اگر اپنے مخلص ساتھیوں کے بجائے روایتی سیاستدانوں اور سیاست و صحافت کے فصلی بٹیروں پر انحصار کیا تو سارا سفر رائیگاں جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیروں اور صوبائی وزراء اعلیٰ کے انتخاب میں وہ اگر دبنگ، دیانتدار اور مخلص افراد کو ترجیح دے تو کوئی وجہ نہیں کہ اگلے الیکشن تک مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پنجاب و سندھ میں اس انجام سے دوچار نہ ہوں جس سے خیبر پختونخواہ میں ہوئیں۔ اتفاق سے دھرنے اور احتجاج کی دھمکی وہ شخصیات دے رہی ہیں جنہیں عوام نے بُری طرح مسترد کیا ہے اور وہ سیاسی کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور استعفوں کے حق میں نہیں۔ نون لیگ نے مولانا کی مانی تو وقت سے پہلے ٹوٹ جائے گی جبکہ ایم ایم اے، اے این پی اور میپ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ مولانا فضل الرحمن کے ایم این ایز بھی شائد استعفوں کے معاملے پر ان کے ساتھ نہیں لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بامقصد اپوزیشن کی جائے۔ عدلیہ اور نیب کو مضبوط بنانے کا اعلان کر کے عمران خان نے عوام کی دیرینہ آرزو پوری کی ہے جو ملک میں انصاف و احتساب کو ترس گئے ہیں۔ اگر نیب نے احتساب کا عمل بلا تفریق جاری رکھا تو حکومت اپوزیشن اور ارکان اسمبلی کی بلیک میلنگ سے آزاد اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے گی۔ تاہم یہ احتساب ہونا چاہیے انتقام اور خانہ پُری نہیں۔ عمران خان کو قدرت نے تاریخ میں نام لکھوانے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ بھٹو کی طرح خبط عظمت اور نواز شریف کی طرح حُبِ مال کا شکار ہو کر نقش ماضی بنتا ہے یا ایک ایسا کردار جس پر عزت، شہرت، عظمت ٹوٹ کر برسی، حکمرانی نے قدم چومے مگر قومی خدمت کا جذبہ ان سب پر حاوی رہا۔ قائد اعظم کے سچے پیرو کار کی طرح جیا تو قوم کے لیے، مرا تو قوم کی خاطر۔ ؎یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجےاک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہےعشق کی جگہ اقتدار پڑھ لیجیے۔