عجلت یا حماقت
جلد باز تو انسان واقع ہوا ہے پر اتنا نہیں جتنی جلدی پاکستان میں بسنے والے اشرف المخلوقات کو ہے۔ عشروں تک ہم لیڈروں کو دیوتابنا کر ان کی اور ان کی آل اولاد کے علاوہ حاشیہ نشینوں کی پوجا کرتے رہے۔ نااہلی، لوٹ مار اور اقربا پروری کے ریکارڈ قائم ہوئے، ہم نے آنکھیں بند رکھیں، حکمرانوں کے محلات میں اضافہ ہوا، غربیوں کے محلے اجڑے۔ کمزور دوو قت کی روٹی کو ترسا، طاقتور کے اندرون و بیرون ملک اثاثوں اور بنک اکائونٹس میں اضافہ ہوا۔ کسی نے جھرجھری تک نہ لی مگر اب ہر ایک کی شدید خواہش ہے کہ ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہیں اور ماضی کے حکمران جوکچھ تین تین چار چار بار یاں لے کر نہ کر سکے عمران خان وہ آٹھ ماہ میں کر دکھائیں ورنہ گھر جائیں۔ بلا شبہ عمران خان اور اس کے ناتجربہ کار ساتھیوں نے عوام کی توقعات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ سادہ لوح عوام بالخصوص نوجوانوں کی آنکھوں میں ایسے ایسے خواب سجائے کہ وہ بے چارے چشم زدن میں خوش کن تعبیر پر مصر ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ ہوا اور مہنگائی کے خاتمے کی نوید سنائی گئی، میرٹ پر ملازمتوں اور پولیس کلچر میں تبدیلی کے دعوے اور ریاستی اداروں میں عدم مداخلت کے نعرے لوگوں کو یاد ہیں، لیکن یہ سب کچھ تحریک انصاف اقتدار سنبھالتے ہی چند ہفتوں یا مہینوں میں کر دکھائے گی، یہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ تحریک انصاف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی طرح احتساب کی بساط لپیٹ دیتی، میڈیا پر بوریوں اور سیاسی کارکنوں پر نوازشات کا منہ کھول دیتی اور نوٹ چھاپ کر، آئی ایم ایف سے قرض لے کر اور دوستوں سے ادھار مانگ کر زر تلافی کے ذریعے بجلی گیس پٹرول قیمت خرید سے کم بلکہ آدھے نرخوں پر فروخت کرنے کا اہتمام کرتی تو شائد کسی کو یاد نہ رہتا کہ عمران خان نے کیا وعدے کئے تھے اور آٹھ ماہ میں حکومت کی کارگزاری کیسی رہی؟ غلطی کچھ نہ کچھ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی بھی ہے، عوامی توقعات بڑھانے کے بعد انہیں جس مستعدی، چابکدتی اور تیز رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت تھی وہ کر نہ پائے، بہتر ٹیم کی سلیکشن میں ٹھوکر کھائی اور میڈیا کو خواہ مخواہ دشمن بنا لیا۔ مگرکیا انہی فیکٹرز کی بنا پر موجودہ حکومت کی ناکامی کا تاثر اجاگر ہو رہا ہے یا عسبب کچھ اور ہے، جسے تو خود سمجھتا ہےعمران خان نے 23مارچ کی سہ پہر اخبارات و جرائد کے مدیران سے گفتگو کے دوران قومی بالخصوص صحافتی معیشت کی زبوں حالی پر مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے صبر و تحمل کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اگلے تین ہفتوں میں تیل و گیس کی دریافت کے حوالے سے میں قوم کو خوش خبری سنائوں گا وہ دن اور آج کا دن سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شور برپا ہے کہ کہاں گئی وہ خوشخبری؟ اگر اتنا زیادہ تیل نکلنے والا ہے تو حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیوں بڑھائیں اور مہنگائی کا جواز کیا ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آج کے دور میں جبکہ تیل اور گیس کی تلاش مہنگا سودا ہے امریکہ و یورپ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے اربوں ڈالر کما رہے ہیں، بھارت کو آئی ٹی کے شعبے سے اربوں ڈالر مل رہے ہیں مگر ہم تیل و گیس کی پیداوار کے لئے مرے جا رہے ہیں۔ بجا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تیل نکلتے ہی بازار میں فروخت کے لئے دستیاب ہو گا؟ دنیا میں جہاں تیل نکلا اسی روز پٹرول پمپوں پر بکنے لگا یا قوم کو اس کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑا۔؟ کیا حکومت تیل و گیس نکالنے پر توجہ نہ دے اور قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی سوچ ترک کر دے تو آئی ٹی کے ماہرین اور سوشل میڈیا کے مجاہدین چند ہفتوں یا مہینوں میں اربوں ڈالر کما کر ملک کو خوشحال کر دیں گے یا اس کے لئے بھی ریاضت، سرمایہ کاری اور انتظار درکار ہے جس کی قوم کو عادت ہے نہ ہمارے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو۔ چین، کوریا، ملائشیا اور سنگا پور کی مثالیں دینے والوں میں سے اکثر نے تو ان کی جدوجہد کا مطالعہ کرنے کی کبھی ضرورت محسوس کی نہ حکمرانوں کے ساتھ قوم کے جذبہ ایثار و قربانی سے واقف ہیں، جو چند ہیں انہیں بھی قوم کو یہ باور کراتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ اکیلا عمران خان یا اس کے چند ساتھی پچھلے تیس چالیس سال کا گند صاف نہیں کر سکتے۔ کرپٹ مافیا اور اس کے فیض یافتہ عناصر کے مقابلے میں پوری قوم اور ریاستی ادارے متحد ہوں، ماضی کی ذاتی گروہی اور اجتماعی غلطیوں کا ازالہ کریں اور حکمران و عوام دونوں ایثار و قربانی پر آمادہ ہوں تو تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ گیارہ بارہ روپے بجلی خرید کر صارفین کو چھ روپے یونٹ فروخت کرنے والی کمپنی ہی نہیں ریاست بھی بالآخر دیوالیہ ہوئی۔ بیرونی قرضوں سے قسطیں ادا کرنے والا ملک کتنی دیر تک اپنی آزادی، خود مختاری برقرار رکھ سکتا ہے ؎قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائیگی ہماری فاقہ مستی ایک دنقومی مزاج بگڑ چکا، موجودہ حکمران بھی سدھارنے پر آمادہ نہیں۔ قوم سے پیٹ پر پتھر باندھنے اور دو روٹیاں چھوڑ کر ایک روٹی کھانے کی توقع کی جا رہی ہے مگر حکمران طبقہ اپنی مراعات میں کمی پر تیار ہے نہ اس عوام دشمن نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا اہل جس نے مافیاز کو جنم دیا۔ قوم کو کنگال، پاکستان کو بدحال کیا اور عوام کو ذہنی پسماندگی کی اس سطح تک پہنچا دیا کہ وہ اپنے بچوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں کے حق میں نعرے لگاتے اور مگرمچھ کے آنسوئوں پر مرمٹتے ہیں، عام شہری تو ستم رسیدہ ہے، صبح سے شام تک رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں اور غربت و افلاس کی حقیقی وجوہات سے لاعلم مگر دانش ور و تجزیہ کار بھی نظام کی اصلاح پر آمادہ ہیں نہ حکومت کو اصلاحی اقدامات کے لئے مناسب وقت دینے پر راضی۔ جانتے ہیں بلکہ خود بتاتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ملک کو گورننس کے قابل نہیں چھوڑا، میاں نواز شریف اور اسحق ڈار نجی محفلوں میں بتاتے تھے کہ ہمارے بعد کوئی پاکستان کو چلا نہیں پائے گا مگر پھر بھی اصرار ہے کہ موجودہ مہنگائی، بے روزگاری، کساد بازار ی اور خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ ٹیکس وصول نہ ہونے کا سبب موجودہ حکومت کا سرمایہ کاروں سے غیر دوستانہ رویہ ہے اور ڈالر کی اڑان اسد عمر کی ناقص حکمت عملی کا شاخسانہ گو یا بیورو کریسی کا قصور ہے نہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی خواہش مند قوتوں کا عمل دخل، غریب، کمزور اور بے آسرا لوگوں کی عشروں تک اپیل نہ سننے والی انصاف کی دیوی دولت مند، طاقتور اور بااثر افراد کے لئے رحمدلی کا پیکر کیسے بنتی اور عام شہری سے وحشیانہ سلوک کی عادی پولیس و بیورو کریسی زور آوروں کے سامنے کورنش کیوں بجا لاتی ہے۔ اس پر کسی کو اعتراض نہ سوچنے کی فرصت۔ ریاست مدینہ البتہ موجودہ حکمران آٹھ ماہ میں بنا کر دکھائیں ورنہ گردن زدنی۔ صدارتی نظام کی بحث ابھی شروع نہیں ہوئی مگر دور کی کوڑیاں لانے والوں نے اس کے ڈانڈے درپردہ قوتوں سے ملانا شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ، روس، چین، ترکی، فرانس، برازیل جنوبی کوریا اور دیگر کئی ممالک میں صدارتی نظام ترقی و خوشحالی اور سیاسی استحکام کی ضمانت ہے۔ ڈیگال نے پارلیمانی نظام کو مسترد کرنے کے بعد سیاست میں واپسی اور انتخابات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی، طیب اردوان نے بالآخر پارلیمانی نظام کو کوڑے دان میں پھینکا کہ ملک استحکام حاصل کرے ہم مگر چار مارشل لائوں کو صدارتی نظام ثابت کر کے پارلیمانی نظام کے فضائل بیان کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف دور میں اقتصادی ترقی ہوئی اور ملک میں قدرے خوشحالی رہی۔ بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دور میں پارلیمانی نظام نے قوم کو کرپشن، لوٹ مار، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام ہی سے نوازا۔ ہٹ دھرمی کا مگر کوئی علاج نہیں۔ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔ جلد بازی ہمارا شیوہ ہے اور اس جلد بازی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ برسوں بلکہ عشروں ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ آٹھ ماہ میں ہم دودھ شہد کی نہریں بہتے دیکھنا چاہتے ہیں، ہے نہ کمال کی بات۔ ارشاد احمد عارف