تین ماہ کی مہلت
عمران خان کی نگاہ بلند ہو گی، عزم فولادی اور جذبہ توانا مگر واسطہ اُن لوگوں سے پڑا ہے جو اپنی خوبیوں پر نہیں دوسروں کی کمزوریوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ عمران خان لاکھ کہے کہ میں پاکستان کو ایک خدا پرست، خود دار اور خود کفیل ریاست بنا کر دکھائوں گا مگر ہم اس میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا عکس تلاش کریں گے۔ اقربا پرور، دوست نواز، خوشامد پسند، فضول خرچ، طاقتوروں کے روبرو سراپا عجزو نیاز، برِیشم کی طرح نرم اور کمزوروں کے مقابل فرعون، ہٹلر اور نواب امیر محمد خان آف کالا باغ۔ وہ امریکہ، بھارت اور افغانستان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے نمٹنے کا خواہش مند ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پہلے وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ تک فضائی سفر کا حساب دے، پاکپتن کے واقعہ پر وضاحت کرے اور یہ بتائے کہ بارہ روزہ اقتدار کے دوران اس نے ملک و قوم کے کون کون سے سنگین مسائل حل کر لیے؟ ۔ مسئلہ کشمیر، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ، ریاست مدینہ کا قیام اور افغانستان میں امن وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان خوش قسمت ہے کہ اسے نکمّی اپوزیشن ملی، جسے یہ ادراک ہی نہیں کہ پاکستان کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ عوام کس موڈ میں ہیں اور موجودہ حکومت سے وہ دراصل کیا چاہتے ہیں؟ اپوزیشن کے خیال میں عوام کی یادداشت اتنی کمزور ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے کرپشن سکینڈلز، پیپلز پارٹی کے بدترین طرز حکمرانی، میاں نواز شریف کے پانامہ سکینڈلز اور مسلم لیگ(ن) کی خاندانی سیاست کو بھول گئے ہیں اور وہ تحریک انصاف سے بھی یہی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ سابقہ حکومتوں کی طرح وسائل کی بندربانٹ شروع کرے، ساون کے اندھے کی طرح اپنوں میں ریوڑیاں بانٹے اور ہر طرف ہرا ہی ہرا دیکھے۔ ووٹروں کے روبرو روز ایک نیا ڈرامہ رچائے۔ عمران خان سو ڈیڑھ سو خوشامدیوں اور نورتنوں کی بارات لے کر بیرونی دورے پر نکلے اور قومی اداروں میں ہر شاخ پر اپنا اُلّو بٹھا کر چین کی بنسری بجائے۔ انہیں چڑ ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے اعصابی مرکز جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے کیوں گزارے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم کو نہ صرف خود سلیوٹ کیا بلکہ وزیر اعظم کے استقبال کے لیے موجود تمام جرنیلوں نے بھی والہانہ جذبے سے انہیں سلامی دی، خوش آمدید کہا اور ان کی صدارت میں اجلاس کے دوران خوش و خرم نظر آئے۔ جی ایچ کیو میں خوش آمدید تو ہر وزیر اعظم کو کہا جاتا تھا مگر فوجی قیادت سے گھنٹوں تبادلہ خیال اور ہر موضوع پر بحث و مباحثے کی نوبت اب آئی۔ اس دورے میں فوجی قیادت نے قومی قیادت اور قوم کو باور کرایا کہ وہ سول بالادستی تسلیم کرتی اور منتخب حکومت کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہے مگر سول لیڈر شپ بھی اسے اپنا حریف سمجھے نہ اس کے مشوروں پر ناک بھوں چڑھائے۔ پاک فوج کا دفاع، داخلہ اور خارجہ اُمور پر ستر سالہ تجربہ اگر سول حکومت کے کام آ سکے تو چشم ماروشن، دل ماشاد۔ لیکن وہ مشاورت کو توہین سمجھے نہ فوج کو پنجاب پولیس کی طرح تابع مہمل بنانے کے خواب دیکھے۔ کسے معلوم نہیں جب عمران خان صرف پاکستان ہی میں نہیں عالمی سطح پر عزت، شہرت اور کامیابیوں کا کوہ ہمالیہ سر کر رہا تھا موجودہ جرنیلوں میں سے کوئی میجر ہو گا اور کوئی کیپٹن، بیشتر کا وہ تب سے ہیرو ہے اور اسی دور میں آصف علی زرداری کی شہرت مسٹر ٹین پرسنٹ کی تھی اور میاں نواز شریف چھانگا مانگا، مہران بنک اور کواپریٹو سکینڈل کا سامنا کر رہے تھے علیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیرعمران خان کی سماجی خدمات اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کا ایک زمانہ گواہ بلکہ معترف ہے اور مدمقابل سیاستدانوں نے پاکستان کے ساتھ جو معاندانہ سلوک کیا وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ؎گلشن کی شاخ شاخ کو ویراں کیا گیایوں بھی علاج تنگیٔ داماں کیا گیاگزشتہ روز سینئر اینکرز نے ملاقات کے بعد گواہی دی کہ عمران خان نے ان کے سخت سوالات صبر و تحمل اور حوصلے سے سنے اور سکون سے جواب دیے۔ یہی تجربہ، جی ایچ کیو میں تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور ذہین فوجی قیادت کو ہوا۔ سبھی تصویروں میں اطمینان اور مسرت کی جھلک نظر آئی۔ اسی شام قوم کو ایک خوشخبری یہ بھی ملی کہ ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کر دیا گیا۔ یہ اکیلے عمران خان یا پاکستان کا کریڈٹ نہیں۔ ترکی نے بھی جرأت مندانہ موقف اختیار کیا۔ اُمت مسلمہ کا اجتماعی ردعمل اثر انداز ہوا اور ہالینڈ کی حکومت سوچنے پر مجبور ہوئی مگر اس ضمن میں حکومت پاکستان نے جو دلچسپی ظاہر کی وہ قابل داد ہے۔ عمران خان نے سینٹ میں آکر بیان دیا، ایک ویڈیو جاری کی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بین الاقوامی رابطوں کے ذریعے ہالینڈ پر دبائو بڑھایا، یہ ایشو 2005ء سے چل رہا ہے مگر پاکستان کی کسی حکومت نے ایسی مستعدی دکھائی نہ وزیر اعظم نے جاندار موقف اختیار کرتے ہوئے معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے کا اعلان کیا۔ اللہ تعالیٰ بھی انہی کی مدد فرماتا ہے جو سعی و تدبیر کرتے ہیں۔ مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ خاکوں کے مقابلہ کی منسوخی کی صورت میں برآمد ہوا جو نصرت الٰہی ہے اور موجودہ حکومت کے لیے تائید غیبی، ورنہ تحریک لبیک کے دھرنے سے معلوم نہیں کیا کچھ ظہور پذیر ہوتا۔ عمران خان اب اگر میڈیا سے تین ماہ کی مہلت مانگ رہے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ عددی اعتبار سے خوفناک اپوزیشن دبائو ڈالنے کے بجائے انتشار کا شکار ہے اور یہ خلا بھی میڈیا پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ جلد بازی، ہیجانی کیفیت اور مخالفت برائے مخالفت کی روش حکومت کے بجائے معترضین کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے اور یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ بعض عناصر کو قوم کے اجتماعی مفاد اور ملک کے استحکام سے کوئی غرض نہیں اور وہ حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے معاشرے میں طوائف الملوکی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ قومی ادارے عمران خان کے کندھے سے کندھا ملا کر ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں۔ عمران خان پاکستان کو بھکاریوں کی صف سے نکال کر خوشحال، خود کفیل اور خود دار ریاستوں کے شانہ بشانہ تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کرنے کا عزم رکھتا ہے اور قوم نئے جذبے سے سرشار ماضی کی پستیوں سے نکلنے کے لیے بے تاب ہے تو نئی حکومت کو مناسب وقت ملنا چاہیے کہ عرسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہےگزشتہ تیرہ چودہ دنوں میں حکومت نے کوئی ایسی بڑی غلطی نہیں کی جس سے مایوسی کا جواز نکلتا ہو، عمران خان کے بچوں اور عزیز و اقارب نے وزیر اعظم ہائوس پر ہلہ بولا نہ شاہانہ اخراجات اور نمود و نمائش کی اطلاع ملی اور نہ معاشی مشکلات کی بنا پر اسد عمر اسحق ڈار کی طرح کشکول لے کر واشنگٹن یا کسی یورپی دارالحکومت پہنچے۔ حد تو یہ ہے کہ سابقہ روش کے برعکس عمران خان نے ابھی تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جانے کا ارادہ بھی نہیں کیا کہ ٹرمپ، تھریسامے، طیب اردوان اور کسی دوسرے سربراہ مملکت سے مبارکباد وصول کر سکے، جبکہ ہمارا کوئی حکمران کٹھمنڈو اور مالدیپ کا دورہ مس نہیں کرتا، چلو اسی بہانے کسی چھوٹے موٹے سربراہ حکومت کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا موقع مل جائے گا۔ عمران خان کو وقت ملنا چاہیے، بڑے مقاصد کا حصول دنوں یا ہفتوں میں نہیں برسوں اور عشروں میں ممکن ہے قوم صرف صبر نہ کرے، ساتھ بھی دے، جو لوگ اپنی لوٹ مار بچانے، احتساب کے عمل کو سست کرنے اور تبدیلی کے ایجنڈے کو روکنے کے لیے منفی پروپیگنڈے کی دھول اڑا رہے ہیں وہ کامیاب تو شائد نہ ہوں، کپتان کا سفر مشکل اور طویل ضرور کر سکتے ہیں، لیکن کیا یہ قومی مفاد میں ہو گا؟ آج کوئی جمائمہ خان، جسٹس وجیہہ الدین، ایڈمرل جاوید اقبال، فوزیہ قصوری سے پوچھے کہ کپتان کا عزم بلند تھا اور جدوجہد انتھک یا ان کی بے صبری جائز، کیوں عصر کے وقت روزہ افطار کر لیا؟ ۔ اب بھی خان کی منزل کھوٹی کرنے کے شوقین قابل احترام ناقدین کہیں اپنی ساکھ کو سوالیہ نشان نہ بنا رہے ہوں۔