تنگ نظری یا جہالت؟
ایں گُلِ دیگر شگفت، عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کا عکس بنانے چلے ہیں جس میں تمیز بندہ و آقا ہو نہ اکثریت اور اقلیّت کے مابین کشمکش و آویزش، شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پئیں۔ یکساں نصاب تعلیم بھی زبان، نسل، علاقے اور مذہب کی بنیاد پر منقسم ہجوم کو ایک قوم میں بدلنے، ملّی یگانگت کو فروغ دینے اور نسل نو کو اردو میڈیم، انگلش میڈیم کی تفریق سے بچانے کی سنجیدہ کوشش ہے مگر ایک مخصوص مزاج کا طاقتور طبقہ اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے نام پر یکساں نصاب تعلیم کی تشکیل اور فروغ میں رکاوٹ ہے، پنجابی زبان کی کہاوت ہے کہ "چور نالوں پنڈھ کاہلی" ایسی ہی عجلت پسندی کا شاہکار حکومت پنجاب کے ہیومن رائٹس اینڈ مینارٹیز افیئرز ڈیپارٹمنٹ کا یکم اپریل 2021ء کو جاری کردہ مراسلہ ہے جس میں سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب کے ذریعے پنجاب کریکویم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ڈاکٹر شعیب سڈل کے ون مین کمشن کی سفارشات کے مطابق مذہبی مواد دیگر نصابی کتب سے خارج کر کے صرف اسلامیات کی کتاب تک محدود کرے۔
ون مین کمشن کا قیام اقلیتوں کے حقوق سے متعلق 2014ء میں سنائے جانے والے ایک فیصلے پر عملدرآمد کے لئے عمل میں آیا، سابق پولیس افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں قائم ایک رکنی کمشن کی رپورٹ میں آئین کی دفعہ 22کے تحت سفارش کی گئی ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے لازمی مضامین اردو، انگریزی، معلومات عامہ وغیرہ کی کتب سے حضور سرور کائنات ﷺ، خلفائے راشدین، اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات کے بارے میں تاریخی حوالہ جات کے علاوہ حمدو نعت خارج کئے جائیں انہیں صرف اسلامیات کی کتب میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ مضامین مسلم طلبہ کے لئے ہیں، رپورٹ کے مطابق سنگل نیشنل کریکولم (یکساں قومی نصاب تعلیم)کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی مواد کی اردو اور انگریزی کی کتب میں موجودگی "مذہبی ہدایات" دینے کے مترادف ہے اور کسی بھی غیر مسلم کو یہ مواد پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، دلچسپ بات یہ ہے کہ یک رکنی کمشن نے سپریم کورٹ کو رپورٹ 30مارچ 2021ء کو دی مگر پنجاب کے ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ نے اپنے مراسلے میں 11نومبر 2020ء کے ایک اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی ہدایت کی ہے اور سیکرٹری سکولز سے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد سے آگاہ کریں تاکہ یک رکنی کمیشن کے پاس تعمیلی رپورٹ جمع کرائی جا سکے۔ برادرم انصار عباسی نے اس حوالے سے اپنی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کو یہ ہدایت نامہ صوبائی کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری کیا۔ چند روز قبل رحمتہ للعالمینؐ سکالر شپ کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور حکومت پنجاب کو اس بات پر مبارکباد پیش کی کہ اس نے سب سے زیادہ رحمتہؐ للعالمین سکالر شپ کا اعلان کیا جس کے باعث ہمارے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم نوجوان نسل حضور سرور کائنات محمد مصطفی ﷺ کی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ سے روشناس ہوں گے، کردار سازی میں مدد ملے گی اور ہم عظیم قوم بننے کے قابل ہوں گے۔ عمران خان ریاست مدینہ کی ازسرنو تشکیل کے لئے بھی وقتاً فوقتاً نوجوان نسل کو آپ ﷺ کی حیات، سیرت اور اہلبیت اطہارو صحابہ کرام کی تعلیمات و جدوجہد کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں انہوں نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو بھی ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ ابتدائی کلاسوں سے قرآن مجید و احادیث رسولؐ کی تعلیم اور سیرت النبیﷺکے مطالعہ کا اہتمام کریں مگر پنجاب کا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ درسی کتابوں سے ان مضامین کو نکال کر صرف اسلامیات اور اخلاقیات کی کتاب تک محدود کرنا چاہتا ہے جو حکومتی کوششوں کو سبوتاژ اور عمران خان کو بدنام کرنے کی سعی نا مشکور ہے۔ یہ دانا دشمنوں کا کارنامہ ہے یا نادان دوستوں کی کارستانی عثمان بزدار ہی جانتے ہوں گے۔
ہمارے نصاب تعلیم میں دنیا جہان کے ہیروز، حکمرانوں، مفکرین اور ماہرین کا تذکرہ شامل ہے، اردو اور انگریزی ادب بالخصوص شاعری کی مختلف اصناف نظم، غزل، سانیٹ، کپلٹ پوئم، پروز پوئٹری پڑھائی جاتی ہے۔ شیکسپئر، وڈز ورتھ، شیلے، کیٹس اور ملٹن پڑھتے ہوئے کسی مسلم طالب علم نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ملٹن تو جنت گم گشتہ میں اپنے مذہبی معتقدات کو اجاگر کر رہا ہے لہٰذا وہ اسے پڑھنا نہیں چاہتا۔ سکندر اعظم، پورس اور کئی دوسرے غیر مسلم حکمرانوں کا تذکرہ بھی تاریخی حوالوں سے ہوتا ہے ان کے مذہب پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، مگر سوا ارب مسلمانوں کے آقا و مولا اور حجاز میں پہلی ریاست کے بانی سرور کائنات حضرت محمد ﷺ اور حضرت عمرؓ جیسے تاریخی ہیرو کو محض ایک مذہبی شخصیت کے طور پر اسلامیات کے مضمون تک محدود رکھنا اور غیر مسلم طلبہ کو مطالعہ سے روکنا، پرلے درجے کی جہالت، تنگ نظری اور تعصب ہے مائیکل ہارٹ تو تاریخ کی نامور شخصیات میں حضور اکرم ﷺ کو سرفہرست رکھتا ہے مگر ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یک رکنی کمشن اور پنجاب ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو آپ کی ذات کا اردو اور انگریزی کی کتب میں تذکرہ کھٹکتا ہے کہ مبادا غیر مسلم طلبہ پڑھ کر آپ کے اخلاق و کردار اور اسوہ حسنہ سے متاثر ہی نہ ہونے لگیں۔ نسل نو انہیں رول ماڈل ہی نہ سمجھنے لگے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان نیشنل کمشن فار مینارٹیز نے یک رکنی کمشن کی رپورٹ کو متنازعہ اور ناقابل قبول قرار دیا ہے اور حکومت کی طرف سے یکساں قومی نصاب کی تشکیل کا خیر مقدم کیا ہے، اقلیتی کمشن کے سربراہ چیلا رام کیولانی کا موقف ہے کہ ایک دوسرے کو جانے بغیر معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی پیدا نہیں کی جا سکتی کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی کے ایک غیر مسلم رکن نے ایوان میں امتناع شراب کا بل پیش کیا تو حکمران جماعت کے کئی ارکان اور وزیروں، مشیروں نے اس کی مخالفت کی اور اسے سستی شہرت حاصل کرنے کی کاوش قرار دیا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کی رپورٹ پر پنجاب ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کی پھرتیاں اور چیلا رام کیولانی کا ردعمل؟ ؎
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے مُنہ سے مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا