سیاست کے بدلتے تقاضے
دھاندلی کے الزامات تو اب قصہ ماضی ہیں، مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور ایم کیو ایم نے تحفظات کے باوجود جب اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا تو دھاندلی اب وہ لکیر ہے جو سانپ کے نکل جانے کے بعد دیوانے پیٹتے ہیں۔ ؎خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کرگیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کرمسلم لیگ ن ابتدائی لغزش کے بعد سنبھل گئی اور اس نے احتجاجی تحریک کے اعلان پر نظرثانی کے علاوہ سیانوں کی یہ بات بھی مان لی کہ پنجاب میں حکومت سازی کی خام خیالی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے نومنتخب ارکان کا پہلا اجلاس حکومت سازی کے حوالے سے خاصہ مایوس کن تھا جب پارٹی کے اپنے ارکان بھی شریک مشاورت نہ ہوں تو ان آزاد ارکان پر بھروسہ کرنا عقلمندی نہیں جن کے دل خواہ مسلم لیگ کے ساتھ ہوں مگر رخ بنی گالہ کی طرف ہے کہ ان دنوں پر ہموار راستہ کپتان کے گھر کی طرف جاتا ہے۔ ہموار راستہ میسر ہو تو دشوار گزار پگڈنڈی کا رخ کون کرے۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ پنجاب اور وفاق میں الگ الگ جماعتوں کی حکومتیں تشکیل دینا اب بھی ممکن ہے وہ عوام کے موڈ کا درست اندازہ لگا سکے نہ مقتدر قوتوں کے حوالے سے ان کی سوچ 1990ء کے عشرے سے آگے بڑھ سکی۔ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ 1988ء سے 2013ء تک پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو عوامی مینڈیٹ کے تحت حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا بلکہ یہ پیپلز پارٹی سے بدظن مقتدر حکومتوں کی شریف خاندان پر مہربانی تھی۔ 1993ء میں میاں منظور وٹو بھی اٹھارہ ارکان کے بل بوتے پر پنجاب کی حکومت اس لیے لے اڑے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا پنجاب پر سیاسی تسلط کسی کو گوارا نہ تھا۔ ماضی کی سوچ میں غرق بعض دوستوں نے اس بنا پر میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ اب بھی پنجاب میں ان کا دائو لگ سکتا ہے۔ مگر انہیں یاد نہ رہا کہ اس بار اسٹیبلشمنٹ مرغوں کی لڑائی میں دلچسپی رکھتی ہے نہ اسے مرکز میں کمزور حکومت درکار ہے۔ پاکستان کو جن اندرونی اور بیرونی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اس کا مقابلہ ایک ایسی مضبوط، یکسو اور پرعزم حکومت کر سکتی ہے جسے اسلام آباد میں ریاست کے کسی ادارے کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہو نہ تخت لاہور کی ریشہ دوانیوں کا اندیشہ۔ عمران خان نے ابھی وزارت عظمیٰ کا حلف نہیں لیا مگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے ایک غیر دوستانہ بیان دے کر مستقبل کے عزائم ظاہر کر دیے ہیں۔ ہمارے بعض دوست لاعلمی کی بنا پر مسلسل قوم کو یہ باور کراتے رہے کہ امریکہ کو سی پیک سے کوئی پریشانی ہے نہ وہ ہمارے چین روس اور ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے خائف ہے مگر آئی ایم ایف کے ممکنہ بیل آئوٹ پیکج کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کا انتباہ اس غیر حقیقی تاثر کی نفی کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کی نئی حکومت کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے بیل آئوٹ پیکج لینے کے لیے اسے چین سے تعلقات اور سی پیک کے گیم چینجر منصوبے پر نظرثانی کرنا پڑیگی۔ اس تناظر میں فوج اور دوسرے ادارے سوچ بھی نہیں سکتے کہ مرکز میں ایک کمزور حکومت تشکیل پائے اور دفاع، داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کا سارا بوجھ اکیلے آرمی چیف کو اٹھانا پڑے۔ امریکہ، بھارت، افغانستان سے معاملات نمٹانے کی ذمہ داری بھی فوج کے ذمے اور اندرون ملک دہشت گردی کے علاوہ سیاسی عدم استحکام، فوج دشمن عناصر کا مقابلہ بھی اس کا سردرد۔ جو عناصر کبھی پرویز مشرف کے احتساب، کبھی مودی کی پاکستان آمد اور گاہے حکومتوں کی تشکیل اور اہم عہدوں کی بندر بانٹ کے بہانے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے لڑانے کے درپے ہیں انہیں فی الحال صبر سے کام لینا چاہیے۔ لڑائی بھڑائی کا موڈ عمران خان کا ہے نہ مقتدر قوتوں کا نظر آتا ہے۔ ویسے بھی عمران خان کو ابھی پرویز رشید، طارق فاطمی اور ایک دو دیگر گوہر نایاب کی صحبت نصیب نہیں جو اسے بانس پر چڑھا کر فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں سے دھینگا مشتی پر آمادہ کر سکیں۔ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، نعیم الحق، چودھری پرویز الٰہی، علیم خان اور پرویز خٹک میں سے کوئی فوج سے کد رکھتا ہے نہ کسی کو عمران خان کا قد مزید اونچا کرنے کے لیے انٹی اسٹیبلشمنٹ ٹھپہ لگوانے کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف کا حشر سب کے سامنے ہے اور مستقبل قریب میں کوئی احمق ہی اس انجام کی آرزو کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے المناک سیاسی انجام کے بعد ہمارے سیاستدانوں اور ان پر جان چھڑکنے والے کارکنوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس ترقی پذیر ریاست میں جب تک سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں کے مطابق منظم نہیں ہوتیں، قیادت آمرانہ رجحانات سے نجات نہیں پاتی اور حکومت عوامی فلاح و بہبود کو شعار نہیں کرتی، جمہوریت مستحکم بنیادوں پر استوار ہو سکتی ہے نہ سول بالادستی کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانا اور ووٹ بٹورنا آسان ہے۔ سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا انکارکوئی عقل کا اندھا ہی کر سکتا ہے مگر جس ریاست کے اندرونی معاملات میں بھارت، امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب دخل اندازی کرتے ہوں، جہاں سیاستدان حکمرانی کے حصول کے لیے امریکہ، برطانیہ، ترکی اور سعودی عرب کی اشیر باد حاصل کرنا ضروری سمجھیں اور "را" موساد، سی آئی اور کے جی بی ہماری ہی سرزمین پر آئی ایس آئی کو مات دینے کے لیے سرگرم عمل ہوں وہاں اسٹیبلشمنٹ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ سکتی ہے نہ دشمنوں کے بیانیے سے بیانیہ ملانے والی قوتوں کو کھلی چھٹی دے کر اپنے حلف کے تقاضوں سے انحراف کر سکتی ہے تاہم یہ مداخلت اتنی ہی ہے جتنی پینٹاگان کی امریکہ، ایم آئی سکس کی برطانیہ اور "را" کی بھارت کے سیاسی، دفاعی اور خارجہ معاملات میں۔ اس مداخلت کو کم یا ختم کرنے کے لیے سیاستدانوں کو سازشوں، ریشہ دوانیوں، بیرونی سرپرستی کے بجائے طرز حکمرانی اور انداز سیاست بدلنا پڑے گا۔ لوٹ مار، اقربا پروری، دوست نوازی اور موروثی سیاست کو خیر باد کہہ کر عوام کی خدمت پر کمر بستہ سیاستدان ہی ترکی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اصل فرائض کی ادائیگی پر مجبور کر سکتے ہیں۔ نااہل، نکمے اور لٹیرے پہلے کامیاب ہوئے نہ اب ان کی دال گلنے والی ہے۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں حکومت سازی سے دستبردار اور حلف برداری پر تیار ہو کر اپنے نادان دوستوں، دانا دشمنوں کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی کہ وہ ابتدا ہی میں بکھر جائے۔ فارورڈ بلاک کو شاید اب بھی روکنا ممکن نہ ہو لیکن ٹوٹ پھوٹ کا عمل اب سست ہو گا۔ میاں شہباز شریف نے اگر اپنے برادر بزرگ کے برعکس عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا، تنظیم سازی پر توجہ دی اور مسلم لیگی جہاز کو اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا کر پاش پاش کرنے کے خواہش مند ساتھیوں سے ہوشیار رہے تو مرکز اور سب سے بڑے صوبے میں اچھی اپوزیشن کا کردار خوش اسلوبی سے ادا کر پائیں گے۔ تصادم اور محاذ آرائی سے مسلم لیگ نے کبھی فیض پایا نہ اب پا سکتی ہے۔ یہ اس کے خمیر میں ہے نہ کسی سچے مسلم لیگی کا ضمیر اجازت دیتا ہے۔ (پس تحریر:عمران خان حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بلانے کی تجویز سے اگر اتفاق نہ کریں تو یہ ستم رسیدہ کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی اور پاکستانی قوم پر احسان ہو گا مودی کے بغیر بھی تقریب خوب سجے گی)