شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ خیرو برکت بانٹ کر رخصت ہوا دوسرے عشرے میں خوش قسمت نہ صرف صوم و صلوٰۃ کی پابندی سے اپنی دنیا اور عاقبت سنوار یں گے بلکہ صدقہ و خیرات سے مزیداجر و ثواب کمائیں، مستحقین کی دعائیں سمیٹیں گے، حضور سرور کائنات ﷺ رمضان المبارک کے دوران جہاں کثرت سے عبادت کرتے، قیام اللیل میں اضافہ ہوتا، وہاں سال کے باقی مہینوں کی نسبت صدقہ و خیرات، جود وسخاکئی گنا بڑھ جاتا، تیز ہوا سے بھی زیادہ، پاکستانی قوم کئی بشری کمزوریوں کے باوجود طبعاً سخی ہے، وہ سخاوت جو ہر مسلمان کو زیبا ہے، گزشتہ چالیس سال کے دوران حکومت اور ریاست تعلیم اور صحت کے شعبے کونجی ہاتھوں میں سونپ کر محض امن و امان کے قیام اور سڑکوں، پلوں کی تعمیر و مرمت تک محدود ہو گئی ہے اوّل الذکر سے حکمران، پولیس و دیگر اداروں سے مخالفین کی سرکوبی اور ذاتی رعب و دبدبے کا کام لیتے، ثانی الذکر سے بنک بیلنس اور اندرون و بیرون ملک جائیدادوں میں اضافہ کرتے ہیں، تعلیم اور صحت کے شعبے ووٹ بنک بڑھاتے ہیں نہ مالی اثاثے، یہ پاکستان کے غنی مزاج، فراخدل، کشادہ دست عوام ہیں جو رزق حلال سے نہ صرف اپنے بیوی بچوں کی پرورش کرتے بلکہ زکوٰۃ، صدقات اور عطیات سے چلنے والے ہزاروں تعلیمی اور طبی اداروں کے کفیل ہیں۔
عمران خان کے شوکت خانم، عبدالستار ایدھی کی ایدھی فائونڈیشن، مولانا بشیر فاروق کی سیلانی فائونڈیشن اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے اخوّت کا چرچا تو اب میڈیا میں کثرت سے ہونے لگا ہے اور نوجوان نسل ان اداروں کی خدمات سے بخوبی واقف ہے، ان اداروں نے اپنے اپنے شعبے میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کی جو خدمت انجام دی وہ بنیادی طور پر ریاست کا کام تھا کہ پاکستان اپنے قیام کے اعتبار سے ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور قائد اعظم نے ایک بار نہیں بار بار یہ بات کہی تھی کہ پاکستان غریبوں اور بے وسیلہ طبقے کی پناہ گاہ ہو گا، امرا، جاگیرداروں اور وڈیروں کی چراگاہ نہیں مگر بدقسمتی سے قومی وسائل آج بھی ایک مخصوص طاقتور طبقے کی گرفت میں ہیں اور انہوں نے پچھتر سال تک اقبالؒ و قائدؒ کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور تعلیم و صحت کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کرنے سے صرف سماجی تفاوت میں اضافہ نہیں ہوا، طبقاتی نفرت و عناد نے بھی جنم لیا اور معاشرہ جہالت و پسماندگی کی لپیٹ میں آ گیا، خدا کا شکر ہے کہ غیر سرکاری شعبے میں چلنے والے فلاحی اداروں نے کسی نہ کسی حد تک یہ خلا پُر کیا، غریب، نادار، بے روزگار ار بے وسیلہ افراد کو حتی المقدور تعلیمی اور طبی سہولتیں فراہم کیں لنگر خانے کھولے اور معاشرے کو طوائف الملوکی و بغاوت سے بچایا۔
کوئی مانے نہ مانے اگر یہ خیراتی اور فلاحی ادارے ضرورت مندوں کی دستگیری کے لئے موجود نہہوں تو بھوکے، علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم، ان پڑھ اور بے روزگارباغی ہر سفید پوش خصوصاً حکمران اشرافیہ کی بوٹیاں نوچنے سے گریز نہ کریں، برطانیہ میں مقیم ہمارے دوست عبدالرزاق ساجد نے انجمن طلبہ اسلام کے بانی حاجی محمد حنیف طیب کے ساتھ مل کر المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا ڈول ڈالا جو اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کی بینائی لوٹا چکی ہے لاہور میں گنگا رام ہسپتال کے قریب آنکھوں کے ہسپتال میں امراض چشم کے ماہرین بلا معاوضہ آنکھوں کے علاج معالجے میں مصروف ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ان سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا سلوگن "روشنی سب کے لئے" ہے اور پاکستان کے علاوہ کئی غریب ملکوں میں مفت آپریشن کے علاوہ ہر مریض کو لینز، عینکیں، ادویات اور کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ المصطفیٰ ٹرسٹ کراچی میں "میرا گھر" کے نام سے سینکڑوں یتیم بچوں کو رہائش، خوراک، لباس اور تعلیم فراہم کر رہا ہے جبکہ کورونا وبا کے دوران غریب خاندانوں میں فوڈ پیکٹس کی تقسیم، سردیوں میں مستحق افراد کو گرم کپڑوں، رضائیوں، جرسیوں اور تھرو چولستان میں صاف پانی کی فراہمی بھی جاری ہے۔
سید لخت حسنین کی زیر قیادت مسلم ہینڈز کا صدر دفتر برطانیہ میں ہے مگر وہ پاکستان بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت اور کئی افریقی ممالک میں سرگرم عمل ہے پچھلے دنوں برطانیہ میں مقیم سینئر صحافی طاہر چودھری نے لاہور میں اپنی قیام گاہ پر سید لخت حسنین کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں جناب مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ، محسن نقوی، علی احمد ڈھلوں، ڈاکٹر صغریٰ صدف اور کئی معروف اخبار نویسوں نے شرکت کی اور مسلم ہینڈز کی خدمات کو سراہا۔ مسلم ہینڈز ان دنوں سرائیکی وسیب میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے کوشاں ہے اور اس نے مسلمان سے کوٹ مٹھن تک ان علاقوں کو فوکس کیا ہے جہاں پانی نایاب ہے، شہریوں کا انحصار بارش کے جمع شدہ گندے پانی پر ہے یا مخیّر حضرات کی طرف سے نصب کئے گئے ہینڈز پمپس۔ ان علاقوں میں تالابوں پر انسان اور جانور ایک ساتھ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
کینسر کے مریضوں کے علاج معالجے کے لئے شوکت خانم ہسپتال کی خدمات سے ہر عام و خاص واقف ہے لیکن اب لاہور کی رائیونڈ روڈ پر ایک نیکدل مسیحا پروفیسر ڈاکٹر شہر یار نے کینسر کیئر کے نام سے خیراتی ہسپتال قائم کیا ہے جس میں روزانہ جدید ترین ریڈی ایشن مشینوں پر سینکڑوں مریضوں کا فری علاج جاری ہے، 27ایکڑ پر مشتمل یہ ہسپتال اپنی تکمیل کے بعد چار سو بستر پر مشتمل ہو گا، فی الحال صرف ریڈی ایشن بلاک پر ڈیڑھ ارب روپے کے قریب لاگت آئی ہے اس سال ایڈوانسڈ کینسر اور بریسٹ کینسر کے مریضوں کے لئے الگ الگ وارڈز کی تکمیل کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ایڈوانسڈ کینسر کے مریض کے یومیہ اخراجات چار ہزار روپے ہیں جبکہ مریض کی کیمو تھراپی پر اوسطاً پینتیس سے چالیس ہزار روپے لاگت آتی ہے۔ اخوت اب تک بے روزگاری کے خاتمے کے لئے بلا سود قرضوں کی فراہمی میں مصروف رہا مگر اب اس نے تعلیم کے شعبے کو بھی اپنی تگ و تاز کا مرکز بنایا ہے۔ لاکھوں مرد و خواتین کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے اخوت نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کی پاکستان میں مثال ملنا مشکل ہے۔
تعلیمی شعبے میں الخدمت فائونڈیشن، غزالی ٹرسٹ دی ٹرسٹ سکول سسٹم اور کاروان علم فائونڈیشن نے حیرت انگیز کام کیا ہے، الخدمت فائونڈیشن غریب و نادار بچوں کے علاج، یتیموں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے رہی ہے الخدمت فائونڈیشن کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے یتیم بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے اہل خانہ کی کفالت کا بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے جبکہ غزالی ٹرسٹ کے سکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں کم آمدنی والے گھرانوں کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دی ٹرسٹ سکول سسٹم میں باصلاحیت مستحق بچوں کو مختلف مدارج میں تعلیمی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ٹرسٹ سکولوں کے بچے نہ صرف اعلیٰ ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں بلکہ مقابلے کے امتحانوں میں بھی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن جناب ڈاکٹر اعجاز احسن قریشی کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے فائونڈیشن نے باقاعدہ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بجائے پسماندہ علاقوں کے غریب مگر باصلاحیت اور ذہین طلبہ پر فوکس کیا جو افلاس کی بنا پر تعلیم کا سلسلہ جاری کرنے سے قاصر ہیں، میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبہ خصوصی توجہ کا مرکز قرار پائے اور انہیں تعلیمی وطائف دے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی سہولت فراہم کی گئی ہزاروں کی تعداد میں طلبہ کاروان علم فائونڈیشن کی مدد سے میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو صدقہ جاریہ ہے وقتاً فوقتاً خالد ارشاد صوفی ہمیں کاروان علم فائونڈیشن کی کار گزاری سے آگاہ کرتے رہتے ہیں لیکن ملک میں صرف یہی چند ادارے خدمت خلق میں مصروف نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں دیگر ادارے اپنی اپنی سطح پر وہ خلا پر کر رہے ہیں جو ہماری بے بصیرت اور ناعاقبت اندیش حکومتوں نے پیدا کیا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی حق حلال کی کمائی سے ان اداروں کی ہر ممکن امداد کرنی چاہیے کہ شمع سے شمع جلتی، علم کی روشنی پھیلتی رہے، طبی سہولتوں کی فراوانی ہو اور ایک صحت مند تعلیم یافتہ قوم قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کر سکے۔ ؎
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے