صدارتی نظام کی بحث
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شریف کی گرفتاری میں نیب اور لاہور پولیس کی ناکامی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ہماری ماں جیسی ریاست اور اس کے ہونہار اداروں کا بس صرف کمزور، بے آسرا اور غریب افراد و طبقات پر چلتا ہے۔ قانون عام شہری کے مدمقابل آدم خور درندہ ہے اور طاقتور، بااثر، دولت مند کے روبرو بھیگی بلّی، لاریب ہم مسلمان ہیں، اس نبی آخرالزمان ﷺ کے نام لیوا جن کا فرمان ہے"تم سے پہلے قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ جرم کرتے تو ان کو سزا دی جاتی اور جب بڑے لوگ کرتے تو ان کا جرم نظر انداز کر دیا جاتا، خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی جرم کرے گی تو سزا پائے گی"(مفہوم) لیکن ہمارا سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی اور عدالتی ڈھانچہ تمیز بندہ و آقااور چھوٹے بڑے میں واضح تفریق پر قائم ہے، حقوق کا معاملہ ہو یا انصاف کا، ہر با اختیار شخص، قبیلہ اور جیب دیکھ کر رائے دیتا ہے کہ ہم وضع دار معاشرے میں رہتے اورمنہ کھائے آنکھ شرمائے کے اردو محاورے کی لاج رکھتے ہیں۔ جب تک نظریہ ضرورت زندہ تھا، لوگ اپنا غصہ جسٹس منیر پر اتارتے اور جسٹس انوار الحق، جسٹس ارشاد حسن خان کو برا بھلا کہہ کر من کا غبار نکالتے مگر جسٹس افتخار محمد چودھری نے نظریہ ضرورت دفن کر دیا اور قوم کو عدالتی فعالیت کا تحفہ دیا، جو برگ و بار لا رہا ہے، عدالتی فعالیت کا پھل بھی نظریہ ضرورت کی طرح طاقتور، بااثر اور دولت مند افراد اٹھا رہے ہیں۔ حمزہ شہباز کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا، کسی کو حدیبیہ کیس یاد آ گیا اور کوئی ججوں کی نامزدگی اور ترقی کے بارے میں بنائے نظام پر برہم نظر آیا۔ نامور وکیل عارف چودھری نے گزشتہ روز 92نیوز کے پروگرام میں ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور کلدیپ نیئر سے ملاقات کا ذکر کیا، جسٹس سید سجاد علی شاہ نے مشہور زمانہ فیصلے میں سنیارٹی کی بنیاد پر ججوں کے بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ و سپریم کورٹ تقرر کو لازم قرار دیا تو کلدیپ نیئر نے عارف چودھری سے کہا ہم عدالتی فعالیت کے نتیجے میں اس فیصلے کے نتائج بھگت رہے ہیں "ہُن تُسّی چوپو" عارف چودھری نے جسٹس مولوی انوار الحق کا یہ قول بھی دہرایا کہ افتخار محمد چودھری نے اگلے بیس سال کا بندوبست کر دیا ہے بعدمیں دیکھا جائے گا کہ کس طرح کے لوگ جوڈیشری کا حصہ بنتے اور اشرافیہ کو کیا فیض پہنچاتے ہیں۔ قصور مگر عدلیہ کا ہے نہ کسی جج کا۔ جس قسم کا سماج ہم نے تشکیل دیا، اس میں ایسے ہی افراد جنم لیتے اور ادارے بنتے ہیں۔ زہریلے دودھ سے پاکیزہ مکھن نکالنے کی خواہش کوئی فاتر العقل شخصکر سکتا ہے دانا نہیں، یہ بات مگر کوئی ماننے کو تیار نہ سمجھنے کو راضی، عمران خان کو آٹھ ماہ میں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کاٹھ کباڑ جمع کر کے حکومت بنانے سے عوام دوست ایجنڈے کا کیا حشر ہوتاہے اور قدم قدم پر سمجھوتے سے ووٹر و سپورٹر کے روبرو کس قدر ندامت کا سامنا۔ وہ تبدیلی اور بلا تفریق احتساب کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے، سنجیدہ طبقات بالخصوص نوجوانوں نے ان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کیں مگر ان کے الیکٹ ایبل، سٹیٹس کو کے حامی ساتھیوں نے تبدیلی اور پولیس بیورو کریسی، نیب، میڈیا، عدل و انصاف کے ایوانوں میں موجود مافیاز کے سہولت کاروں نے احتساب کا راستہ کافی حد تک روک دیا ہے۔ اُمیدیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں اور اسٹیٹس کو کے حامی مزے میں ہیں اور وہ افواہوں، قیاس آرائیوں اور پروپیگنڈے کے زور پر موجودہ حکومت کی ناکامی کا تاثر اجاگر کر رہے ہیں۔ عمران خان کی مہلت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ عمران خان فانی انسان ہے مگر تاحال اس کا متبادل میدان سیاست میں موجود ہی نہیں۔ شریف خاندان اور زرداری گروپ اپنی طبعی سیاسی عمر پوری کر چکا، بلاول بھٹو سے اُمید تھی مگر والد گرامی نے اسے اپنے کرتوتوں کے دفاع پر لگا دیا اور جعلی اکائونٹس کیس میں الجھ کر وہ بے چارہ بھی مریم نواز کے انجام سے دوچار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر عمران خان کا موقف دو ٹوک اور عوامی اُمنگوں سے ہم آہنگ ہے۔ عشروں بعد پاکستان کو وہ قیادت ملی ہے جو تحریک پاکستان کے مقاصد، قوم کے مذہبی، سیاسی اور سماجی احساسات سے باخبر اور خارجی و دفاعی ضرورتوں کا ادراک رکھتی، داخلی معاملات میں مگر بے بس نظر آتی ہے، معیشت کی بہتری کے لئے سخت اقدامات کو مافیاز باہمی ملی بھگت سے عوام دشمن ثابت کر رہے ہیں اور مصنوعی مہنگائی سے غریب و متوسط طبقات کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ پولیس و بیورو کریسی کے تقرر و تبادلوں، ترقیاتی فنڈز کے اجراء اور بعض بدنام زمانہ سیاسی افراد و گروہوں سے مفاہمت پارلیمانی نظام کی وہ برکت ہے جس سے مستفید ہو کر عمران خان کا تبدیلی ایجنڈا آدھا تیتر، آدھا بٹیر بن گیا ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ پارلیمانی نظام کی انہی قباحتوں کی بنا پر فرانس میں ڈیگال اور ترکی میں طیب اردوان نے نیا تجربہ کیا، دونوں کامیاب رہے۔ یہ پارلیمانی نظام ہے جس نے بریگزٹ پرریفرنڈم کے بعد ڈیوڈ کیمرون کو گھر بٹھا دیا اور اب ٹریزامے کی باری ہے عوام کا فیصلہ کچھ اور ہے اور پارلیمنٹ کا موڈ یکسرمختلف۔ ہماری قومی ضرورتوں، اسلامی اصولوں اور حالات سے ہم آہنگ صدارتی نظام عمران خان اور تبدیلی کے ایجنڈے کی تکمیل اور احتساب کے عمل میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنی جماعتوں میں صدارتی نظام سے بھی آگے بڑھ کر شاہی سسٹم کے تابع ہیں۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے روبرو کوئی سینئر سیاستدان لب کشائی کر سکتا ہے نہ نازک مزاج بادشاہ سلامت کے کسی غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی حکم کی تعمیل میں سرتابی کا مرتکب، نواز شریف اور آصف علی زرداری تو خیر دیوتا ہیں کوئی سفید بالوں والا سینئر لیڈر مریم نواز، بلاول بھٹو کے بے سروپا حکم سے سرتابی کر کے دیکھے، آمنا و صدقنا کہنے اور کورنش بجا لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ورنہ نثار علی خاں کی طرح پارٹی بدر۔ ملک میں مگر دونوں خاندانی جماعتوں کے آقا و غلام پارلیمانی نظام کی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہی ان کے سیاسی، خاندانی اورکاروباری مفادمیں ہے۔ صدارتی نظام کی بات ہو تو پارلیمانی نظام کے کلمہ گو، ایوب خان یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی مثال لاتے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب اس نظام کو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تینوں ملک کے صدر نہیں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، زیادہ سے زیادہ ایوب خان کے آخری پانچ چھ سال کو صدارتی نظام سے تعبیر کر سکتے ہیں جب انہوں نے وردی اتار دی تھی لیکن صرف اسی دور میں ملک نے اقتصادی و معاشی شعبے میں ترقی کی، قومی ادارے بنے، ملک کوسیاسی استحکام ملا اور اگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم گول میز کانفرنس کو کامیاب ہونے دیتے، سیاستدان غدار وطن شیخ مجیب الرحمن کی رہائی سے پنڈورا بکس نہ کھولتے اور 1971ء میں یحییٰ خان بھٹو سے مل کر ون یونٹ توڑنے، عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کرتے تو مشرقی پاکستان الگ ہوتا نہ پاکستان گداگروں کی صف میں کھڑا نظر آتا۔ کوئی سیاستدان اور پارلیمانی نظام کا مدح خواں اس بدیہی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرتا ہے نہ 1971ء سے جاری پارلیمانی نظام کے فوائد و ثمرات کا ذکر ہوتا ہے۔ سیاسی بلیک میلنگ، کرپشن، بدانتظامی، میرٹ کا قتل عام، ترقیاتی فنڈز کی خرد برد اور بیورو کریسی میں بے مداخلت کا تو ہمیں علم ہے اس کے سوا کیا ہے، کوئی بتلائے تو ہم جان سکیں۔ پارلیمنٹ تو اپنے پائوں پر کلہاڑیمارنے سے رہی، آئین میں ریفرنڈم کی آپشن موجود ہے لیکن اس سے پہلے قومی سطح پر بحث و مباحثہ اور نتائج و عواقب پر غور، آخر طیب اردوان کو رول ماڈل ماننے والے سوچتے کیوں نہیں؟ کیا جمعہ، ہفتہ کے واقعات پر اظہار خیال کے لئے ایک ٹویٹ کافی ہے یا یہ سوچنے اور کچھ کر گزرنے کا سنجیدہ موقع ہے۔ آٹھ ماہ ضائع ہو گئے، مزید کتنا وقت ضائع کرنے کا ارادہ ہے۔