سب یہاں پر جناب بکتے ہیں
اسلام میں رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں، اسلام آباد میں رشوت دینے اور لینے والے پارلیمنٹ کی رکنیت کے حقدار۔ یقین نہ آئے تو سینٹ کے انتخابی نتائج بالخصوص اسلام آباد کی نشست کا جائزہ لے لیجیے۔ سینٹ انتخابات میں پیسہ پہلی بار نہیں چلا، ہر سینٹ الیکشن دولت کی ریل پیل سے داغدار ہوا، قومی سیاست میں ضمیر فروشی اور پیسے کا چلن سکّہ رائج الوقت ہے اور مقبول سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے بجائے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، عشروں قبل حبیب جالب نے کہا تھا ؎
اب گناہ و ثواب بکتے ہیں
مان لیجے، جناب بکتے ہیں
میری آنکھوں سے آکے لے جائو
اب دکانوں پہ خواب بکتے ہیں
پہلے غریب بکتے تھے
اب عزت مآب بکتے ہیں
بے ضمیروں کی راج نیتی میں
جاہ و منصب، خطاب بکتے ہیں
دور تھا، انقلاب آتے تھے
آج کل انقلاب بکتے ہیں
دل کی باتیں حبیب جھوٹی ہیں
دل بھی خانہ خراب بکتے ہیں
اسلام آباد کی نشست پر سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر کامیابی آصف علی زرداری کا ماسٹر سٹروک ہے لیکن انتخاب سے ایک روز قبل مخدوم صاحب کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کی منظر عام پر آنے والی ویڈیو نے گیلانی صاحب کی کامیابی اور زرداری صاحب کے چمتکار پر کالک مل دی، ہر سنجیدہ فکر اور جمہوریت پسند انسان نے دیکھ لیا کہ یہ کامیابی سیاسی جوڑ کا کرشمہ ہے نہ عمران خان کی عدم مقبولیت کا نتیجہ اور نہ پی ڈی ایم کے حکومت مخالف بیانیے کی ارکان قومی اسمبلی میں پذیرائی۔ یہ ضمیروں کی خریدوفروخت کا مکروہ کاروبار تھا اور ضمیر فروشی کی گھٹیا واردات، جس کا سدباب اگر نہ ہوا تو جمہوریت اپنی رہی سہی ساکھ کھو دے گی اور ایک نہ ایک روز پوری پارلیمنٹ کو کوئی مافیا ڈان خرید کر قومی قسمت کے فیصلے کرے گا اور سب دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمارے سیاستدان اور تجزیہ کار مگر اظہار ندامت کے بجائے اس پر ایک دوسرے کو داد دے رہے ہیں۔ بے حیاباش و ہرچہ خواہی کن۔
یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی خوش دیدنی ہے اور قابل فہم مگر مسلم لیگ(ن) اپنی خاتون اُمیدوار کی ناکامی کا تجزیہ کرنے کے بجائے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنی ہوئی ہے۔ مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ الیکشن میں پیسہ نہیں مسلم لیگ کا ٹکٹ چلا، پی ٹی آئی کی امیدوار فوزیہ ارشد نے 174ووٹ لے کر اس تاثر کی نفی کی کہ یوسف رضا گیلانی کو پڑنے والے 169ووٹ بنیادی طور پر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہے، سینٹ انتخاب میں دولت کی چمک نے دس بارہ ارکان اسمبلی کو اندھا کر دیا۔ آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادی جماعتوں سے کیا گیا یہ وعدہ سچ کر دکھایا کہ وہ لانگ مارچ اور دھرنے کے بغیر بھی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی صرف اور صرف لین دین اور خریدوفروخت کا نتیجہ ہے، اگرچہ غالب عنصر یہی ہے۔ عبدالحفیظ شیخ کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی بہتر امیدوار تھے، ملنسار، تعلقات نبھانے اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے سیاستدان۔ بطور وزیر وزیر اعظم انہوں نے الیکٹ ایبلز کو اپنا گرویدہ بنایا، حامی اور مخالف ارکان اسمبلی کے کام آئے اور بعد میں بھی ذاتی مراسم برقرار رکھے، اس کے برعکس حفیظ شیخ بابو ٹائپ بندہ ہے، جو ہر دور میں سرکاری منصب سے علیحدگی کے بعد بیرون ملک سدھار گیا، کسی سے تعلق نہ واسطہ، لیکن کمال عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا ہے جنہوں نے حفیظ شیخ کو خیبرپختونخوا یا پنجاب کی محفوظ نشست پر زور آزمائی کا موقع دینے کے بجائے قومی اسمبلی کے اکھاڑے میں ایک قوی ہیکل اُمیدوار کے سامنے ڈال دیا، وہ قومی اسمبلی جس میں وزیر اعظم عمران خان سال میں ایک آدھ بار قدم رنجہ فرماتے اور معدودے چند ارکان اسمبلی کو شرف ملاقات بخشتے ہیں، قائد محترم کی دیکھا دیکھی ان کے وزیر، مشیر اور قریبی کاسہ لیس بھی ارکان اسمبلی سے اچھوتوں کا سلوک کرتے ہیں، ہاتھ ملانا تو درکنار فون سننا بھی گوارا نہیں فرماتے۔ جو ارکان اسمبلی، حفیظ شیخ سے تنگ اور عمران خان سے شکوہ سنج تھے انہیں اگر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی قیادت پر غصّہ نکالنے اور اس غصے کی منہ مانگی قیمت وصول کرنے کا موقع فراہم کریں تو ہر ایک میں جرأت انکار کہاں؟ دس بارہ ارکان اسمبلی نے عمران خان اور حفیظ شیخ کو اپنی اہمیت جتلائی، بتایا کہ وہ تحریک انصاف کے گھڑے کی مچھلی نہیں، قیادت اڑھائی سال تک منہ لگائے نہ لگائے ہم اس کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہیں، اگلے الیکشن کی قیمت وصول کی اور بتا دیا کہ ؎
پہلے غریب بکتے تھے
اب عزت مآب بکتے ہیں
گیلانی صاحب کی کامیابی حکمران جماعت بالخصوص عمران خان کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جو اڑھائی سال سے بسم اللہ کے گنبد میں بند ارکان اسمبلی سے ملنا گوارا کرتے ہیں نہ چند قریبی احباب کے سوا کسی سے مشاورت کو پسند اور نہ اپنی ناقص ٹیم میں تبدیلی کے روادار، یہ تو بھلا ہو چودھری پرویز الٰہی کا کہ انہوں نے پنجاب میں بلا مقابلہ کا اہتمام کیا اور تحریک انصاف کو مزید کسی ندامت سے بچا لیا ورنہ پنجاب میں عوام، سیاسی کارکن اور ارکان اسمبلی جتنا وسیم اکرم پلس سے تنگ ہیں، الیکشن ہوتے تو حکمران اتحاد کو دن میں تارے نظر آ جاتے، اب بھی اگر اپوزیشن نے پنجاب سے تحریک عدم اعتماد کی ابتدا کی تو اڑھائی سال میں بزدار حکومت نے جو بویا ہے وہ عمران خان کو مع سود کاٹنا پڑے گا، وسطی پنجاب میں مسلم لیگ ن، میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی نظربندی اور مریم نواز کی کئی ماہ تک خاموشی کے باوجود اگر بدستور مضبوط و طاقتورہے اور ڈسکہ، وزیر آباد کے ضمنی انتخاب میں اس نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا تو یہ کس کی نالائقی اور ناکامی ہے؟ گیلانی کو پڑنے والے ووٹوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کا تناسب غالب ہو گا۔
قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی دلیرانہ ہے اور عمران خان کے مزاج کا عکس، لیکن یہ ایک جال بھی ہو سکتا ہے۔ فوزیہ ارشد کی کامیابی سے ہرگز یہ نہیں لگتا کہ عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے ہیں لیکن جب وہ خود ہی اپنے آپ کو قومی اسمبلی کے ارکان کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں تو مخالفین اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری، حکومت کی ناکامی اور مقتدر قوتوں کی خواہش کا جھانسہ دے کر ارکان اسمبلی کو صرف ایوان سے غیر حاضر رکھ کر مرضی کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں جبکہ مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے موجودہ ماحول میں عام انتخابات کا انعقاد تحریک انصاف کے لئے ڈرائونا خواب ہے، جس کا احساس معلوم نہیں ہڑبولے مشیروں کو ہے یا نہیں؟ 6مارچ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کر لینے کے بعد عمران خان کی مشکلات بڑھیں گی، درون خانہ ناقص ٹیم میں ردوبدل اور کارگزاری میں بہتری کے لئے دبائو میں اضافہ ہو گا، اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں مزید شدت آئے گی، چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں بھی دولت کی ریل پیل ہو گی اور سیاسی عدم استحکام کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے، الیکشن کمشن نے سینٹ الیکشن میں خوب بدنامی کمائی، وہ علی حیدر گیلانی کی ویڈیو پر قانونی دفعات167/168کے تحت کوئی موثر کارروائی نہیں کرتا اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں شفافیت کو یقینی نہیں بناتا تو جمہوریت اور پارلیمنٹ دونوں کے لئے نیک شگون نہیں، پی ڈی ایم پہلے ہی شاکی تھا اب تحریک انصاف اور عام شہری بھی اسے ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھیں گے جو ہر الیکشن میں صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا اور تنخواہ ومراعات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ معذرت کے ساتھ رشوت دینے اور لینے والوں کی طرح اس گھٹیا کاروبار کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے والا الیکشن کمشن بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔