پڑئیے اگر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف کو صحت عطا فرمائے ہماری مانیں تواب سیاست سے زیادہ علاج معالجے پر توجہ دیں۔ بلاول بھٹو نے عیادت کے بعد درست کہا کہ "میاں صاحب کو علاج معالجے کی ہر سہولت ملنی چاہیے"وہ سابق حکمران ہیں اور لاکھوں لوگوں کی عقیدت و محبت کا مرکز۔ ان کے علاج معالجے میں غفلت و لاپروائی حکومت کو زیب دیتی ہے نہ معالجین کو۔ یہ اور بات کہ تین بار وزیر اعظم رہنے کے باوجود ملک میں امراض قلب کا ایسا ہسپتال وہ خود بنا سکے نہ ان کے تین بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے برادر خورد میاں شہباز شریف، جہاں شریف خاندان کے افراد اپنا علاج کرا سکیں۔ صرف میاں صاحب اور ان کے برادر خورد ہی نہیں عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے سوا کسی سیاستدان اور سیاسی حکمران نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ عسکری سربراہوں اور فوجی حکمرانوں نے البتہ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور سی ایم ایچ ایسے ہسپتال بنائے اور ان کے دور میں آغا خان ہسپتال اور الشفا ہسپتال جیسے عالمی معیار کے ہسپتال بھی بنے جہاں لیفٹیننٹ سے لیفٹیننٹ جنرل اور آرمی چیف کے علاوہ ہر شہری کو علاج کی بہترین سہولتیں میسر اور وہ ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ عمران خان 2013ء میں خطرناک حادثے کا شکار ہوئے، ان کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی اور ان کے اپنے نادان ساتھیوں نے قوم کو ڈرایا کہ اگلے چھ ماہ تک کپتان کا صحت یاب ہونا ممکن نہیں، مگر عمران خان اپنی والدہ شوکت خانم کی یاد میں قائم ہسپتال میں داخل ہوئے۔ اسی ہسپتال کے ڈاکٹروں سے علاج کرایا جن کی معاونت سی ایم ایچ کے ڈاکٹروں نے کی اور چند ہفتوں میں صحت یاب ہو کر اسمبلی پہنچ گئے، بیرون ملک علاج کی ضرورت پیش آئی نہ کسی نے شوکت خانم ہسپتال میں علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کا ڈھنڈورا پیٹا، 1980ء کے عشرے میں پنجاب کے فوجی گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی کو دل کا دورہ پڑا اور وہ میوہسپتال میں داخل ہوئے۔ فوجی گورنر نے میوہسپتال میں امراض قلب کی سہولتوں کو ناکافی پایا تو صحت یاب ہوتے ہی جدید ترین سہولتوں سے لیس امراض قلب کا ہسپتال قائم کرنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے چنانچہ انہی کے دور میں یہ ہسپتال مکمل ہوا اور اس کے سب سے معیاری وارڈ کا نام غلام جیلانی وارڈرکھا گیا، چودھری پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے طرز پر ملتان، فیصل آباد اور کئی دوسرے شہروں میں امراض قلب کے ہسپتالوں کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ان ہسپتالوں کی تکمیل میں کس حکمران نے رکاوٹ ڈالی؟ یہ کہانی پھر سہی۔ میاں صاحب کی کوٹ لکھپت جیل میں موجودگی کا فائدہ اٹھا کر بلاول بھٹو نے آصف علی زرداری کی جیل یاترا کارونا بھی رویا، البتہ یہ نہیں بتایا کہ انہیں کرپشن کے الزام میں میاں نواز شریف نے جیل یاترا کرائی اور محترمہ بے نظیر بھٹو بختاور اور بلاول کے ساتھ جیلوں اور عدالتوں کے چکر کاٹتی رہیں۔ میاں صاحب بلاشبہ تین بار وزیر اعظم رہے مگر پانامہ کیس میں انہیں سزا مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں نیب کی طرف سے دائر مقدمے میں احتساب عدالت نے سنائی اور گرفتار وہ ایک نگران حکومت کے دور میں ہوئے۔ نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال اور نگران وزیر اعظم جسٹس ناصر الملک کا تقرر اس وقت کے لیگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی باہمی مشاورت سے ہوا۔ علاج معالجے سے انکار وہ خود کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ صرف سیاسی مخالفین ہی نہیں، ہر غیر جانبدار شخص جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت اپیل کی طبی بنیادوں پر منظوری اور عمران خان کی حکومت کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے، دبائو میں لانے کے لئے انکار کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ پانامہ کیس اور ڈان لیکس میں میاں صاحب پھنسے اور انہوں نے اپنا کیس قانون کے مطابق لڑنے کے بجائے سیاسی بنیادوں پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تومیاں شہباز شریف سمیت تصادم اور محاذ آرائی کے مخالف ساتھیوں کا خیال تھا کہ صاحبزادی مریم نواز اور ان کے دو تین چیلے چانٹے میاں صاحب کو غلط فیصلوں سے اندھی گلی میں دھکیل رہے ہیں۔ حکومت علاج معالجے کی مناسب سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہے مگر میاں صاحب فائدہ اٹھانے پر آمادہ نہیں؟ ذمہ دار کون ہے؟ مریم بی بی اور ان کے مشیر یا بذات خود بزرگوار۔ ضدی جو مشہور ہیں اور لڑاکا مشیروں کی بات توجہ سے سننے کے عادی۔ انہی مشیروں نے بیگم کلثوم نواز کے سرہانے بیٹھنے کے بجائے انہیں اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل کی راہ دکھائی۔ حکومت کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر میاں صاحب کی ضمانت منظور نہیں کرتی تو وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدارتی معافی کی آپشن استعمال کرتے ہوئے ان کی باقی ماندہ سزا معاف کر کے بیرون ملک جانے کی اجازت دے۔ بجا! مگر میاں صاحب کا ریکارڈ خاصہ خراب ہے۔ 2006ء میں حسن نواز کی بیماری کا غلغلہ بلند ہوا، شاہ عبداللہ نے جنرل پرویز مشرف سے درخواست کی، میاں نواز شریف کو صاحبزادے کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے لئے لندن جانے کی اجازت مل گئی مگر وہاں جا کر بیماری غائب اورموصوف نے سیاست شروع کر دی، اسی دور میں میثاق جمہوریت ہوا جو دو سیاسی جماعتوں کے درمیان "مک مکا" کی دستاویز تھی اور کھایا پیا معاف کی کہانی، اے آر ڈی کے مقابل ایک اتحاد بھی وجود میں آیا اور میاں صاحب نے دس سالہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان آنے کی سعی بھی کی۔ حکومت اگر کشادہ قلبی پر آمادہ ہو، میاں صاحب کو باہر جانے کی اجازت دے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ وہ لندن میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف مہم جوئی نہیں کریں گے اور ڈان لیکس طرز کی کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے؟ ۔ میاں صاحب عمران خان، فوج، اور آئی ایس آئی کے بارے میں جو جذبات رکھتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں اور خود پرستی ان میں انتہا درجے کی ہے۔ کیا عجب کہ وہ لندن میں بیٹھ کر پلوامہ حملے کی ذمہ داری کا تعین بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق کرنے لگیں جس کا فائدہ بھارتی حکومت اور میڈیا بھر پور انداز میں اٹھائے ک۔ لبھوشن کیس میں میاں صاحب کا بیان بھارت کے حق میں استعمال ہوا۔ میاں صاحب سمیت ہر قیدی کی جان کا تحفظ اور علاج معالجہ حکومت کی ذمہ داری ہے اس میں کوتاہی پرلے درجے کی سنگدلی اور نااہلی ہے۔ کسی شخص کی بیماری پر سیاست، مریضانہ ذہنیت کو زیب دیتی ہے مگر کچھ ذمہ داری مریض، اس کے لواحقین، تیمار داروں، ہمدردوں اور عقیدت مندوں کی بھی ہے۔ پی آئی سی نہیں تو اے ایف آئی سی، اگر فوجی ہسپتال پسند نہیں تو الشفا، آغا خان ہسپتال میں سے کسی ایک میں علاج پر میاں صاحب راضی ہوں اور حکومت کو فراخدلانہ پیشکش کریں کہ میں قومی خزانے پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا، جملہ اخراجات خود برداشت کروں گا۔ میاں صاحب صرف متمول نہیں، مخیر بھی ہیں۔ بلاول بھٹو نے بھی انہیں سندھ کے ایک ہسپتال میں علاج کی پیشکش کی ہے جو انہیں قبول کر لینی چاہیے۔ جو لوگ سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر میاں صاحب کی بیماری کے حوالے سے دلگداز، درد انگیز اور رقت آمیز مہم چلا رہے ہیں وہ ان کے نادان دوست ہو سکتے ہیں حقیقی خیر خواہ نہیں۔ ایک طرف یہ تاثر کہ میاں صاحب دلیر وپرعزم ہیں، چٹان کی طرح مضبوط اور دوسری طرف یہ مہم جس کا لب لباب یہ ہے کہ چند ماہ کی قید سے میاں صاحب کے اعصاب جواب دے گئے مزید بسیرا ممکن نہیں، وہ بیماری کو طبی بنیادوں پر ضمانت اور بیرون ملک روانگی کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے ان مظلوم، مجبور، بے کس و بے بس جمہوریت پسند عوام سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں جو ان کے پیروکار ہیں، جو بغیر جرم کے قید ہوں تو بنیادی انسانی و قانونی حقوق سے محروم اور بیمار پڑیں تو اتائیوں، عاملوں اور پیروں فقیروں کے رحم و کرم پر۔ ؎پڑئیے اگر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار داراور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو