پریشانی کس بات کی؟
بلا شبہ معاشی محاذ پر موجودہ حکومت کوئی کارنامہ انجام دینا تو درکنار، سابقہ قومی شرح نمو کو بھی برقرار نہیں رکھ سکی، کورونا نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور گھٹنوں کے بل جامد معیشت زمین بوس ہو گئی، لیکن کئی محاذوں پر اس کی کارگزاری کم از کم سابقہ حکمرانوں سے بہتر بلکہ بہت بہتر ہے۔ پاکستان اکیلا ملک نہیں جو معاشی بدحالی کا شکار ہے، امریکہ اور بھارت کا حال بھی پتلا ہے، ایک ذرۂ بے نشاں (کورونا وائرس) نے ان دونوں کے کس بل نکال دیے ہیں، ٹرمپ نے افغانستان کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی، کہا تھا طالبان سپر پاور کے صبر کو نہ آزمائیں، ہم منٹوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلا سکتے ہیں۔ کورونا نے مگر وہ کر دکھایا جو افغانستان کے طالبان اور ویت نام کے گوریلے نہ کر پائے، ویت نامی گوریلوں اور افغان طالبان نے امریکہ کی فوجی ہیبت کا خاتمہ کیا، سپر پاور کو جتلایا کہ انسانی حوصلے، جذبے اور ایمان کا مقابلہ صرف ہتھیاروں سے ممکن نہیں، کورونا نے امریکہ کی معیشت کے ساتھ سائنسی ترقی کا پول کھول دیا، اللہ تعالیٰ نے مغرور انسان کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ میں جب چاہوں ایک ذرۂ بے نشان کے ذریعے تمہاری عقل و دانش اور بے پایاں ریاضت سے حاصل ہونے والی سائنسی و تکنیکی ترقی اور معاشی ترقی کا پول کھول دوں، بے بسی کی علامت بنا دوں، یہی کن فیکون کا راز ہے جس سے انکار کی راہ اختیار کرنے والوں کو وقتاً فوقتاً تازیانہ لگنا قانون قدرت ہے۔
دو سال بعد بھی اپوزیشن عمران خان کے خلاف کوئی مالی سکینڈل نہیں لا سکی، جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اقتدار سنبھالا تو ایک سال بعد اندرون و بیرون ملک مسٹر ٹین پرسنٹ کی دھوم مچ گئی۔ 1990ء میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے ایک متمول صنعت کار اور خدا ترس خاندان سے تعلق تھا مگر ایک ڈیڑھ سال بعد بنکوں، سیمنٹ کے کارخانوں کی پرائیویٹائزیشن میں کک بیکس کے الزامات سامنے آئے اور 1993ء میں غلام اسحق خان نے اسمبلیاں برخاست کیں تو چارج شیٹ میں کرپشن کے الزامات سرفہرست تھے۔ عمران خان کے بعض کھلاڑیوں کی وارداتیں میڈیا بے نقاب کر رہا ہے لیکن یہ الزام ابھی تک نہیں لگا کہ سب کچھ عمران خان کے ایما پر یا شراکت داری سےہو رہا ہے، اس کے برعکس موجودہ حکومت نے بعض ایسے معاملات میں پیش رفت کی ہے جو قومی معیشت ہی نہیں وجود کے لئے ازبس ضروری ہیں مگر سابقہ حکومتوں نے مجرمانہ غفلت برتی، مثلاً ڈیموں کی تعمیر یا صوبائی فنانس کمشن کی تشکیل اور تیل و گیس کی تلاش کے منصوبوں پر توجہ۔ مہنگی تھرمل بجلی اور درآمدی تیل و گیس کی موجودگی میں اگر معاشی ترقی ممکن ہوتی تو میاں نواز شریف کے تینوں ادوار میں پاکستان سنگا پور، جنوبی کوریا اور ملائشیا سے چار قدم آگے جا چکا ہوتا کہ صنعتی شعبے میں ان کا اثرورسوخ شک و شبہ سے بالاتر تھا، بیورو کریسی تابعدار و اطاعت گزار اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت۔
تیل و گیس کی تلاش اور ڈیموں کی تعمیر کے لئے حکومت وسائل مختص کر رہی ہے اور چین کا خوشدلانہ تعاون بھی اسے حاصل ہے، حکومت کی درست ترجیحات اور اداروں سے بلاوجہ بگاڑ پیدا نہ کرنے کی عادت کے باعث سول ملٹری تعلقات خوشگوار ہیں اور مستقبل قریب میں بھی بگڑنے کا یوں اندیشہ نہیں کہ سکیورٹی اور خارجہ معاملات میں دونوں فریق ہمنوا و ہم آہنگ ہیں۔ ترجیحات واضح ہیں کہ اب امریکہ کا دم چھلا بننے کی ضرورت ہے نہ بھارت سے مرعوب ہونے کی اور نہ سول بالادستی کے شوق میں اپنی ہی ریاست کے محافظ اداروں کوکمزور کرنے کی، عمران خان کو شائد احساس ہے کہ طیب اردوان کی طرح اخلاقی برتری کے بغیر قومی اداروں پر بالادستی کا شوق پورا ہو سکتا ہے نہ عوام کی خدمت ممکن۔ چار سال قبل فوجی ٹینکوں نے استنبول اور انقرہ میں سڑکوں پر نکل کر سول حکومت کا تختہ الٹنا چاہا تو طیب اردوان کی عوامی و قومی خدمات کے شاہد عوام اور دیانتدار وبے ریاکارکنوں نے سامنے لیٹ کر انہیں واپسی کی راہ دکھائی، حالانکہ طیب اردوان اس وقت دارالحکومت میں موجود ہی نہ تھے، عمران خان اس سیاسی کاٹھ کباڑ کے ساتھ جو اسے 2018ء کے انتخابات میں میسر تھا، ڈیموں کی تعمیر، تیل و گیس کی تلاش اور مہنگائی میں کمی کے اہداف حاصل کر لیتے ہیں تو اپوزیشن اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ کسی ادارے کو پڑی ہے کہ وہ ایک ایسے حکمران کی منزل کھوٹی کرے جس نے لندن، دبئی اور دیگر ممالک میں جائیدادیں بنانے کا سوچا نہ اندرون ملک بنک اکائونٹ میں اضافہ کیا اور جو نہ منی لانڈرنگ، جعلی اکائونٹس اور دیگر قومی جرائم میں ملوث ہے۔ عمران خان بھی اگر اپنے بعض نالائق ساتھیوں اور خود غرض مشیروں کے سبب ناکام ہوتے ہیں تو میرا نہیں خیال کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا بھلا ہو گا، چھاج کی جگہ چھلنی کو موقع دے کر عوام کو کیا فائدہ اور ریاست کے ہاتھ کیا آئے گا، کوئلوں کی دلالی میں مُنہ کالا کرانے کا حاصل؟ آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی۔
بعض دوست اگلے چار چھ میں تبدیلی کی خبر لاتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو، شاہد خاقان عباسی اور ایاز صادق کو تخت اسلام آباد کی زینت بنانے کے لئے کوئی طاقتور اپنا کندھا کیوں پیش کرے گا؟ جن میں سے کسی ایک کے اپنے پلّے کچھ نہیں، مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کا نام ہے اور ان کی وارث مریم نوازشریف ہیں، پیپلز پارٹی اب آصف زرداری کی ملکیت ہے اور بلاول بھٹو کی صلاحیتوں کا بھانڈا 2018ء کے الیکشن میں پھوٹ چکا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں اتنا ہی بااثر ہیں جتنے اپنے احسن اقبال مسلم لیگ اور اعتزاز احسن پیپلز پارٹی میں۔ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ مسلم لیگی قیادت بالخصوص میاں شہباز شریف کو صورتحال کا احساس ہے اسی بنا پر وہ ابھی تک مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ڈالا گیا دانہ چگنے پر تیار ہیں نہ بلاول بھٹو کی اے پی سی میں شرکت پر آمادہ، جانتے ہیں کہ خدانخواستہ عمران خان کی رخصتی کا فیصلہ ہوا تو سیاستدانوں کے ہاتھ 1977ء اور 1999ء کی طرح کچھ نہیں آئے گا، پھر نیب کی موجودہ شکل ہو گی نہ عدالتوں میں ضمانتوں کی سہولت اور بیرون ملک جانے کی رعائت۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہو گا ادھر مقدمہ دائر اُدھر فیصلہ حاضر۔ قومی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور حکومت کی انتظامی گرفت کمزور مگر سکیورٹی اور خارجہ معاملات درست سمت میں چل رہے ہیں، ڈیموں کی تعمیر اور تیل و گیس کی تلاش حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے پھر پریشانی کس بات کی؟