میرے اندر عدو‘میرے باہر عدو
1971ء کی طرح پاکستانی ریاست ایک بار پھر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نرغے میں ہے، حفیظ تائب مرحوم نے جب برسوں قبل کہا ؎دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو، میرے اندر عدو، میرے باہر عدوماجرائے تحیر ہے پر سیدنی، صورت حال ہے دیدنی یا نبیؐتو حالات اتنے خراب تھے نہ اندر و باہر کے دشمنوں کے حوصلے اس قدر بلند۔ گزشتہ روز میرانشاہ کے علاقے میں افسوسناک حادثہ، انہی دشمنوں کی کارستانی ہے۔ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا، یہاں خودکش بمباروں کی تربیت گاہیں قائم ہوئیں، خودکش جیکٹیں اور مختلف قسم کا بارودی سازوسامان سرعام بکنے لگا، دکانوں پرخودکش جیکٹیں لٹکی ہوتیں جن پر ان جیکٹوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کی تفصیل درج ہوتی، کسی منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر نے صدائے احتجاج بلند نہ کی، امریکی ڈرون حملوں سے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ساتھ عام پاکستانی شہریوں، وزیری، محسود اور دیگر پختون قبائلیوں کے پرخچے اڑتے رہے، پشتونوں کے موجودہ نام نہاد ہمدردوں میں سے کسی کی غیرت نہ جاگی، وکی لیکس منظر عام پر آئیں تو پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا امریکہ سے خاموش معاہدہ ہے کہ وہ حملے جاری رکھے، ہم اپنے عوام کی تشفی کے لئے زبانی احتجاج پر اکتفا کریں گے۔ عمران خان نے 2012ء میں ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان مارچ کیا تو پیپلز پارٹی کی وفاقی اور اے این پی کی صوبائی حکومت نے اسے دہشت گردوں کا ہمدرد اور طالبان خان قرار دیا۔ اب جبکہ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے پاک فوج اور قوم نے جان و مال کی قربانیاں دے کر علاقے میں بڑی حد تک امن بحال کر دیا، قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے اڈے ختم ہو چکے ہیں، قبائلیوں کے حقوق کے نام پر فتنہ و فساد کو ایک بار پھر ہوا دی جا رہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں قائم فوجی چوکیوں پر جانچ پڑتال کے نظام میں خامیاں ہوں گی، تعینات اہلکاروں کے انداز گفتگو پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ زبان اورکلچر کا فرق غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے اس حوالے سے عوامی شکایات کا ازالہ فوجی قیادت اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اسی طرح کی چوکیاں جب بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود نے قائم کر رکھی تھیں اور بزرگوں و خواتین کو صرف ان چوکیوں پر نہیں بلکہ گھروں میں بھی ناروا سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تو اس وقت کسی نے آواز بلند نہیں کی اورکسی کی پشتون غیرت نہیں جاگی۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی دھرنا کوئی احتجاج کسی کو یاد ہو، حالانکہ ٹی ٹی پی کے نشانے پر صرف پنجاب، سندھ اور بلوچستان نہ تھے، پختون عوام اور علاقے بھی بار بارحملوں کی زد میں آئے، بازار، مساجد، مزارات اور سیاستدان و مذہبی رہنما، کوئی مانے یا نہ مانے امن کی موجودہ کیفیت پاک فوج کے عزم، قربانیوں اور حوصلے کا صلہ ہے جو امریکہ کو پسند ہے نہ بھارت اور افغانستان کو اور نہ ان کے اندرونی گماشتوں کو۔ پشتون تحفظ موومنٹ نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کے بعد عمل میں آئی رائو انوار فوجی ہے نہ اس کے عمل کا کسی پنجابی سیاستدان، دانشور اور تجزیہ کار نے دفاع کیا آصف علی زرداری نے اسے بہادر بچہ قرار دیا مگر پی ٹی ایم رائو انوار کی آڑ میں پاکستان، پاک فوج اور پنجاب پر مسلسل تبرا تول رہی ہے، علیحدگی کے نعرے لگ رہے ہیں اور پاک فوج کو سبق سکھانے کے دعوے کئے جاتے ہیں اور پیپلز پارٹی اس کی ہمنوا ہے؟ اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ پاک فوج نے ایک مشتبہ شخص کو پکڑا، اگر وہ بے قصور اور پرامن شہری ہے تو محسن داوڑ اور علی وزیر اس کی رہائی کے لئے حکومت اور مقامی فوجی قیادت سے رابطہ کر سکتے تھے، فوجی چوکیاں دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور مشتبہ افراد کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے قائم ہیں اور گرفتار افراد وہاں رکھے نہیں جاتے، مگر پشتون تحفظ موومنٹ نے چوکی پر دھرنا دیا، عرصہ دراز سے اپنے کارکنوں اور مقامی شہریوں کو فوج کے خلاف اکسایا جا رہا ہے اور اشتعال انگیزی کی وجہ سے مسلح کارکن کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت کر سکتے ہیں لیکن قومی اسمبلی کے دو ارکان نے ان مسلح اور مشتعل کارکنوں کو چوکی پر تعینات مسلح فوجیوں کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا تاکہ دو طرفہ اشتعال بڑھے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے۔ یہ پرامن احتجاج تھا نہ مطالبات منوانے کا جمہوری طریقہ، صاف ظاہر ہے کہ لاشیں حاصل کرنے اور پاک فوج کے علاوہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش، مگر قابل داد ہیں بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف جو سارا ملبہ پاک فوج پر ڈال کر علی وزیر، منظور پشتین اور محسن داوڑ کے حوصلے بڑھا رہے ہیں کہ چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کریگامیاں نواز شریف کراچی اور فاٹا میں قیام امن کا کریڈٹ لیتے ہیں، الطاف حسین اور حکیم اللہ محسود کی قیادت میں دہشت گردوں، غیر ملکی ایجنٹوں، بھتہ خوروں کے خلاف آپریشن میاں صاحب کے دور حکومت میں ہوا، وہ کریڈٹ کے حقدار ہیں مگر کیا اس آپریشن کے دوران دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے گئے؟ کیا فوجی چوکی کا گھیرائو اور مسلح فوجی جوانوں پر فائرنگ کے بعد یہ توقع کرنی چاہیے کہ جواباً علی وزیر اور محسن داوڑ پر پھول برسیں گے؟ پاکستان شیخ مجیب الرحمن، الطاف حسین، بیت اللہ محسود کو ڈھیل دینے کے تلخ نتائج بھگت چکاہے، ستر ہزار جانوں کی قربانی دے کر قیام امن کے ثمرات ضائع کرنے کا متحمل نہیں اور افغانستان و بھارت میں قائم تربیتی کیمپوں کے علاوہ پی ٹی ایم، بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند تخریب کار اور ملک دشمن تنظیموں، بیرونی رابطوں سے واقف ہے، عوام پہلے ہی پشتون موومنٹ کو ٹی ٹی پی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں کہ اس کے ایم کیو ایم الطاف گروپ کی طرح دو چہرے ہیں عسکری و سیاسی اور دونوں خطرناک۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اس کے ہمنوا دانشوروں، و تجزیہ کاروں کے علاوہ پاکستان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے عناصر کی تائید و حمائت اسے حاصل ہے۔ مشرقی سرحد پر بھارت سے برسر پیکار ریاست کسی غفلت، رو رعائت اور پست ہمتی کا شکار ہو تو کیسے؟ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر اس عفریت کا سیاسی، سماجی اور قانونی سطح پر قلع قمع کیا جائے، اس انداز میں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ فارسی میں کہتے ہیں گربہ کشتن روز اول، ایوب خان بھارتی آلہ کاروں کا سر کچلنے میں کامیاب رہتے، سیاستدان آڑے نہ آتے تو سانحہ مشرقی پاکستان سے بچا جا سکتا تھا۔ الطاف اینڈ کمپنی 1992ء میں کیفر کردار کو پہنچتی تو کراچی مقتل نہ بنتا اور فاٹا کو ابتدا ہی میں فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں سے پاک کر کے انضمام عمل میں آ جاتاتو ستر ہزار جانوں کی قربانی شائد نہ دینا پڑتی لہٰذا سیاسی اورفوجی دونوں محاذوں پرپختہ، بے عیب اور قابل عمل سٹریٹجی کے ذریعے ان سنپولیوں کا سر کچلنا ضروری ہو گیاہے جو فاٹا کو ایک بار پھر پاکستان مخالف اور فوج دشمن سرگرمیوں کا مرکز بنا کر نئی تباہ کن جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کا حصہ بننے والے عناصر ان کی پشت پر ہیں اور بھارت کے علاوہ ہمارے دیگر دشمنوں کی تائید و حمائت انہیں حاصل۔ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں درست کہا کہ وزیر اعظم، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ چپ کا روزہ توڑ کر عوام کو اعتماد میں لیں کہ اب پانی سر سے گزر چکا، فوجی چوکی پر حملہ اعلان بغاوت ہے اور باغیوں سے ریاست کبھی رعائت نہیں کرتی۔ کوئی باغی، فتنہ پرور اور غیر ملکی آلہ کار محض اس بنا پر قابل معافی نہیں کہ وہ لسانی تعصب اور علاقائی نفرت کے زور پر پارلیمنٹ میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ ہے بہشتی دروازہ نہیں کہ جو داخل ہوا پوتر ہو گیا۔