Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. Mazloom Palestine Aur Kafan Choron Ki Anjumanain

Mazloom Palestine Aur Kafan Choron Ki Anjumanain

مظلوم فلسطین اورکفن چوروں کی انجمنیں

اقوام متحدہ تو عرصہ دراز سے امریکی دفتر خارجہ کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے، حیف اسلامی ممالک کی تنظیم پر جس کی اتنی اوقات بھی نہیں، جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قرار دادیں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیانات کی بھونڈی نقل ہوتی ہیں، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دو مسلم ممالک سوڈان اور انڈونیشیا کے دو علاقوں دارفر اور مشرقی تیمور کے غیر مسلم علیحدگی پسندوں کے حق میں بیان دیا تو سلامتی کونسل نے علیحدگی کی تحریک کو حق خود ارادیت کی جدوجہد مان کر ان علاقوں کو آزاد ریاست کا درجہ دیدیا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کشمیر اور فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو حق دفاع کہا تو سلامتی، کونسل نے چپ سادھ لی کہ ایک ذیلی ادارے کی یہی بساط ہے۔ اقبالؒ نے لیگ آف نیشنز کے بارے میں کہا مگر صادق اقوام متحدہ پر بھی آتا ہے کہ ؎

من ازیں بیشی ندانم کہ کفن دزدی چند

بہہ تقسیم فیور انجمنے ساختہ رند

(میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے آپس میں قبریں بانٹنے کے لئے ایک انجمن بنا رکھی ہے)او آئی سی عالم اسلام کو متحد اور مسلم عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے تشکیل پائی مگر آہستہ آہستہ یہ طاقتوروں کی لونڈی بن گئی، افغان جنگ کے دوران او آئی سی اقوام متحدہ سے زیادہ متحرک تھی اور صرف وزراء خارجہ ہی نہیں سربراہان مملکت کے اجلاس تسلسل و تواتر سے ہوئے، روسی جارحیت کے خلاف اور افغانستان کے مسلم عوام کے حق میں جتنی زور دار قرار دادیں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے منظور ہوئیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے نہیں مگر کشمیر اور فلسطین پر بھارتی و اسرائیلی مظالم بلکہ ریاستی دہشت گردی کے خلاف او آئی سی مجرمانہ خاموشی کا شکار ہے۔ گزشتہ روز وزراء خارجہ کانفرنس میں منظور کی گئی ہومیو پیتھک قسم کی قرار داد پڑھ کر منصف مزاج انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم پر صہیونی ریاست کے ایک سابق پائلٹ یوناتن شاپیرااور امریکہ میں یہودیوں کی فعال تنظیم جیوش فارپیس کی ڈائریکٹر سٹیفنی فاکس کے بیانات او آئی سی کی قرار داد سے زیادہ متاثر کن اور موثر ہیں اور ان دونوں کے دلی جذبات کے ترجمان۔ او آئی سی کی قرار داد پڑھ کر صاف نظر آتا ہے، پاکستان، ترکی اور ایران کے دبائو پر مسلم ممالک کے وزراء خارجہ اجلاس میں شریک تو ہو گئے مگر ان کے دل میں اسلامی اخوت کا جذبہ موجزن ہے نہ اپنے دفاع میں مگن نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے بچائو کی کوئی تدبیر، عام طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف بند باندھنے کے لئے مسلم ممالک مذمتی بیانات اور قرار دادوں کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟ امریکہ و یورپ اسرائیل کے پشت پناہ ہیں اور جنگ کوئی آپشن نہیں، او آئی سی کیا کرتی؟ فارسی میں کہتےہیں خوئے بدرا بہانہ بسیار، ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل مسلم ممالک کی قیادت اگر چاہے تو بہت کچھ کر سکتی ہے، مثلاً او آئی سی کی طرف سے اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر اقوام متحدہ اور امریکہ و یورپ سے مقررہ مدت میں نہ صرف مظالم رکوانے بلکہ طے شدہ دو ریاستی فارمولے پر عملدرآمد کرانے کا مطالبہ، جو ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ان کی طرف سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور دیگر ممالک کی طرف سے پاکستان کی طرح تسلیم نہ کرنے کی دھمکی، اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ اور فلسطینیوں کی امداد کے لئے عملی اقدامات کی غرض سے سربراہ کانفرنس بلانے کی تجویز کو امریکہ نظر انداز کرتا نہ یورپ اور نہ دیگر انصاف پسند اقوام، اسرائیل امریکہ و یورپ کی حمائت کے باوجود اتنا طاقتور نہیں جتنا نظر آتا ہے، یہ مسلم ممالک کی کمزوری ہے جس نے کھجور کی گٹھلی کے برابر ریاست کو علاقے کا بدمعاش بنا رکھا ہے، 1960ء کی دہائی میں اسرائیل نے پہلی بار قبلہ اوّل سے چھیڑ چھاڑ کی تو اس وقت کی اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ امیئر نے خود تسلیم کیا کہ وہ ساری رات سو نہیں سکیں، انہیں ڈر تھا کہ قبلہ اوّل کی بے حرمتی پر مختلف مسلم ممالک کی افواج پیش قدمی کریں گی اور چھوٹی سی ریاست چند گھنٹوں میں نیست و نابود ہو جائیگی مگر صبح یہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی کہ کسی ریاست کی غیرت جاگی نہ مسلم قیادت نے جنگ کے بارے میں سوچا۔

امیر تیمور نے اپنی سرگذشت میں لکھا ہے کہ میری اصل طاقت میرے دشمن کی کمزوری ہے، میں نے کسی دشمن کو طاقتور نہیں سمجھا۔ ایک چینی سپہ سالار اور بادشاہ کا قصّہ کتابوں میں ملتا ہے جس کے منگولوں سمیت تمام دشمن اکٹھے ہو کر حملہ آور ہوئے، چینی حکمران نے شاہی قلعہ کی چھت سے نظر دوڑائی تو دور دور تک سر ہی سر نظر آئے، لاکھوں کی یہ فوج دیکھ کر حکمران سوچ میں پڑ گیا، مصاحب نے پوچھا کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ حکمران بولا نہیں!میں یہ سوچ رہا ہوں کہ دشمن کے لاکھوں فوجیوں کے سرقلم کرنے کے بعد ان کی اتنی زیادہ لاشوں کا کیا کریں گے، کئی دن ٹھکانے لگانے میں لگ جائیں گے۔ صلاح الدین ایوبی فلسطین فتح کرنے نکلا تو ساری عیسائی ریاستیں متحد ہو کر سامنے آ گئیں، مشیروں نے مزید طاقت حاصل کئے بغیر حملہ نہ کرنیکی تجویز پیش کی تو صلاح الدین ایوبی نے تاریخی جملہ کیا، "یہی تو دشمنوں کو ایک ساتھ تباہ کرنے کا وقت ہے، ورنہ ایک ایک کو کہاں تلاش کرتاپھروں گا"مگر یہ ان باحمیّت، دلیر اور پرعزم حکمرانوں اور سپہ سالاروں کی باتیں ہیں جو دشمن کی تعداد اور اسلحے سے خوفزدہ ہوتے نہ کسی مصلحت کا شکار ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

فلسطینی پتھروں سے اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں، آج سے نہیں 1948ء سے، مگر اسلحے، دولت اور بہتر جغرافیائی حیثیت کے مالک مسلم ممالک کی قیادت اپنی کمزوریوں، بزدلانہ انداز فکر اور مصلحت پسندانہ روش کے باعث تذبذب کا شکار ہے، اسرائیل اس لحاظ سے قابل داد ہے کہ اس نے کبھی اپنے عزائم چھپائے نہ امریکہ کے دبائو میں آکر اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کو خیر باد کہا، 9/11کے بعد امریکہ نے دبائو ڈالا تو کئی مسلم ممالک نے اپنے نصاب تعلیم سے جہاد کے اسباق خارج کر دئیے، خدانخواستہ امریکہ مطالبہ کرتا تو ہمارے بعض سیاسی و مذہبی رہنما قرآن مجید سے جہادی آیات کے اخراج پر بھی راضی ہو جاتے مگر اسرائیل کے نصاب میں آج تک وہ قومی ترانہ پڑھایا اور تقریبات میں گایا بجوایاجا رہا ہے جو واضح الفاظ میں دہشت گردی اور جنگجوئی کی تعلیم دیتا اور نوجوان نسل کے ذہنوں کو مخصوص سانچے میں ڈھالتا ہے، مجال ہے آج تک کسی نے اس قومی ترانے پر اعتراض کیا ہو، کوئی کرتا بھی تو اسرائیل نے کون سا کسی کی سننی تھی، ذرا اسرائیل کا قومی ترانہ ملاحظہ فرمائیں ؎

اب تک دل میں یہودی روح ہے

یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھتا ہے

ہماری امید ابھی پوری نہیں ہوئی

اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب

اپنے خوابوں کی دنیا یورشلم

ہمارے دشمن یہ سن کے ٹھٹھر جائیں

مصر اور کنعان کے سب لوگ، لڑکھڑا جائیں

بیبولون(بغداد) کے لوگ ٹھٹھر جائیں

ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی رہے

جب ہم اپنے نیزے ان کی چھاتیوں میں گاڑ دیں گے

اورہم ان کا خون بہتے ہوئے

اور ان کے سر کٹے ہوئے دیکھیں

تب ہم اللہ کے پسندیدہ بندے ہونگے جو چاہتا ہے

یہ قومی ترانہ اسرائیل کے قیام سے اکاون سال قبل 1897ء میں پہلی صہیونی کانفرنس میں منظور کیا گیا۔ 1948ء میں اسے غیر سرکاری اور 2004ء میں اسے سرکاری طور پر قومی ترانہ قرار دیا گیا۔ ترانے میں صرف دشمنوں کے سینوں میں نیزے گاڑنے، ان کاخون بہانے نہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے قرار دے کر ایک ہزار سال کے خواب کی تکمیل اور مصر، کنعان، بغداد تک پائوں پھیلانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جس کا مسلم قیادت کو احساس تک نہیں۔ پاکستان کے عمران خان، ترکی کے طیب اردوان اور ایران کے آیت اللہ خامنائی و حسن روحانی اتنا تو کریں دنیا کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ خونی عزائم اور اسرائیلی قیادت کی نازی ذہنیت سے آگاہ کریں۔ عرب تو ابھی امریکہ کے تلوے چاٹنے سے فارغ نہیں، اسرائیل کو اپنا کزن سمجھ کر ناز برداری میں مشغول ہیں۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez