منزل ہے کہاں تیری؟
علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کرنیوالے بلاول بھٹو بے چارے کو کیا معلوم کہ اس معاملے پر ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے سپیکر مخدوم یوسف رضا گیلانی سے کیا سلوک کیا تھا؟ یوسف رضا گیلانی کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپوزیشن کے مطالبے اور پیپلز پارٹی کے وفاقی وزراء، وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر، وزیر قانون اقبال حیدر اور وزیر تعلیم سید خورشید شاہ کے مشورے پر شیخ رشید احمد، شیخ طاہر رشید اور حاجی محمد بوٹا کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے اور رول90کے تحت قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے یہ واقعہ تفصیل سے اپنی کتاب"چاہ یوسف سے صدا" میں بیان کیا ہے۔ اپوزیشن کے مطالبہ پر جب سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی نے پروڈکشن آرڈر پر دستخط کئے تو وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سیخ پا ہو گئیں، وہ اس قدر غصے میں تھیں کہ پہلی بار انہیں یوسف صاحب یا گیلانی صاحب کے بجائے سپیکر صاحب کہہ کر پکارا لیکن جب گیلانی صاحب نے پروڈکشن آرڈر واپس لینے کے بجائے انہیں کہا کہ وہ میرا بطور سپیکر قومی اسمبلی استعفیٰ منظور کر لیں تاکہ نیا سپیکر یہ آرڈر واپس لے تو دھیمی پڑ گئیں تاہم اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹیں اور جب تک اسمبلی تحلیل نہ ہوئی محترمہ نے شیخ رشید احمد کو اسمبلی میں نہ آنے دیا محترمہ تو مسلم لیگ کے ان ارکان اسمبلی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے اور گرفتاری کو یقینی بنانے کے حق میں تھیں جنہوں نے صدر لغاری کی تقریر کے دوران شور مچایا، گو لغاری گو کے نعرے لگائے اور پوسٹر لہرائے۔ مگر سپیکر قومی اسمبلی ڈٹ گئے شیخ رشید احمد نے ریاست کے خلاف نعرے لگائے تھے، نہ مسلم لیگی کارکنوں کو ریاست کے خلاف اکسایا اور نہ کسی فوجی چوکی پرحملہ کیا تھا، انہیں محترمہ کے خلاف فلور آف دی ہائوس پر قابل اعتراض تقریروں کے جرم میں گرفتار کر کے بہاولپور جیل میں بند کیا گیا تھا۔ علی وزیر کی گرفتاری کے بعد محسن داوڑ نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز دے کر اپنا اور پی ٹی ایم کا کیس خراب کر دیا ہے۔ وزیرستان سے فوج کی واپسی کا مطالبہ اور فوجی جوانوں کو یہ دھمکی کہ وہ زندہ بچ کر واپس نہیں جائیں گے ملک دشمنی کے سوا کیا ہے؟ مگر محسن داوڑ چونکہ دھونس دھاندلی اور تحریک انصاف کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا ہے لہٰذا بلاول بھٹو اور مریم نواز کا خیال ہے کہ اب محسن داوڑ اور علی وزیر کو ہر سنگین جرم کا کھلا لائسنس مل چکا ہے۔ وہ ریاست مخالف نعرے لگائیں، فوجی چوکی پر حملہ کریں، لوگوں کو بغاوت پر اکسائیں اور صدر ٹرمپ سے مداخلت کا مطالبہ کریں کوئی ریاستی ادارہ ان سے تعرض نہیں کر سکتا۔ بلاول بھٹو تو یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ علی وزیر کو پارلیمنٹ میں لا کر اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔ یعنی جو نعرے چھوٹے موٹے جلسوں میں لگاتے ہیں وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر لگائیں۔ جانی قربانیاں دے کر فاٹا میں قیام امن کو یقینی بنانے والے فوجی افسروں اور اہلکاروں کے خلاف نفرت پھیلائیں، امریکی، بھارتی، افغانی ایجنڈے کے مطابق لسانی اور نسلی تعصب کی آبیاری کریں اور" یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے" کی گردان کریں اور ارکان اسمبلی کو ایوان میں حاصل تحفظ کی بنا پر ریاست ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کر سکے۔ شاباش۔ پچھلے سال ایک دو ٹی وی چینلز پر احسان اللہ احسان کا اعترافی انٹرویو چلا جس میں تحریک طالبان پاکستان کے جرائم کی نقاب کشائی کی گئی تھی تو بلاول بھٹو جیسے سیاستدانوں اور ان کے ہمنوا دانشوروں، تجزیہ کاروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مگر اب ایک سیاسی جماعت کا سربراہ دہشت گردی، بغاوت اور ملک دشمنی کے الزامات میں گرفتار شخص کو پارلیمنٹ کا فورم فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور یہ سارے دانشور و تجزیہ کار گنگ ہیں۔ ماضی میں سیاستدانوں کی انہی غیر ذمہ دارانہ، مفادپرستانہ اوراحمقانہ حرکتوں کی وجہ سے علیحدگی پسندوں، ریاست کے باغیوں اور دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے، قومی مفادات کو نقصان پہنچا اور جمہوری نظام بدنام ہوا۔ پی ٹی ایم جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیااور اس کی قیادت کو حیدر آباد جیل میں ڈالا۔ آج جب اختر مینگل کی تقریر پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی ڈیسک بجاتے ہیں تو تاریخ سر پیٹ کر رہ جاتی ہے کہ نیپ کو ملک دشمن اور غدار کسی فوجی آمر نہیں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے قرار دیا اور جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب "فریب ناتمام" میں باچا خان خاندان کی بھارت و افغان حکمرانوں سے قربت، لین دین اور تخریبی سرگرمیوں کا کچا چھٹا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ پڑھتا جا شرماتا جا۔ یہ بات سن کر ہول آتا ہے کہ پاکستانی قوم کا مستقبل اب بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا اسعد محمود کے ہاتھ میں ہے ان کے بزرگوں کے ہاتھوں پاکستان اور اس کے سادہ لوح عوام کی جو درگت بنی کیا وہ کافی نہیں؟ اپوزیشن کے یہ نوجوان رہنما اس لحاظ سے مظلوم ہیں کہ انہیں اپنے بزرگوں کے کرتوتوں کے دفاع میں وہ قرض چکانے پڑ رہے ہیں جو ان پر واجب نہ تھے۔ قومی ایشوز پر سیاست کرنے کے بجائے یہ سستے جذباتی نعروں اور آئین و قانون کے قطعی منافی سرگرمیوں سے سیاسی اتھل پتھل پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ تازہ ترین مظہرایک خالصتاً آئینی اور قانونی معاملے میں ٹانگ اڑانا اور وکلاء کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دینا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق صدر مملکت نے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے دو قابل احترام ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے۔ سیاستدان، بیورو کریٹ اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کا احتساب جاری ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز ایک لیفٹیننٹ جنرل کو عمر قید اور ایک بریگیڈیئر کو سزائے موت کی توثیق کی ہے ان پر وہی الزام تھا جو محسن داوڑ اور علی وزیر پر ہے تو آئینی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق کسی قابل احترام جج کے احتساب میں کیا قباحت ہے؟ اور اگر کسی جج پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور اپنے یا اپنے خاندان کے اندرون و بیرون ملک مہنگے ترین اثاثے ڈیکلیئر نہ کرنے کا الزام ہے تو تحقیق و تفتیش کیوں نہیں ہونی چاہیے۔؟ قاضی فائز عیسی بلا شبہ نیک نام جج ہیں ان کے والد قاضی عیسی مرحوم کی تحریک پاکستان میں خدمات ہیں۔ یہ اور بات کہ جب قلات کا جرگہ پاکستان سے الحاق کے معاملے پر بحث و مباحثے میں مصروف تھا تو قائد اعظم نے مقامی مسلم لیگی قیادت کے مشورے پر قاضی عیسیٰ کو غیر فعال کر دیا تھا کیونکہ موصوف کی جذباتیت سے سردار بگڑ جاتے اور الحاق کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا۔ ممتاز صحافی ضیا شاہد کی کتاب میں تفصیل درج ہے۔ ایک نیک نام جج کو آخر سپریم جوڈیشل کونسل میں صفائی کا موقع کیوں نہ ملے اوربدطینت گروہ ان کے خلاف لوگ سرگوشیاں کیوں کرتے رہیں؟ ۔ زاہد فخر الدین کے استعفے اور بعض مہنگے وکیلوں کے ردعمل سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر ایک خالصتاً قانونی معاملے کو سڑکوں پر لاکر ملک میں ہنگامہ آرائی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ جیسے بااصول، نیک نام اور دلیر چیف جسٹس کی موجودگی میں کسی غلط فیصلے کی توقع کی جا سکتی ہے نہ بیرونی اور اندرونی دبائو کی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔ برطانیہ اور سپین میں اگر جائیدادیں جائز ذرائع سے بنی ہیں اور انہیں ڈیکلیر نہ کرنے کا یہ جوازدرست ہے کہ اہلیہ محترمہ سپین کی شہری ہیں تو پھر معاملے کو ذرائع ابلاغ میں اچھالنے اور احتجاجی تحریک کی دھمکیاں دینے کی کیا تُک ہے۔ یہ پرویز مشرف کا دور ہے نہ عدلیہ پی سی او کی حلف یافتہ اور نہ نیک نام جج کے نام پرچائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والے لیڈران کرام دودھ کے دھلے ہیں کہ عوام ان پر اعتماد کریں۔ وکلاء برادری نے ایک جج کو زدوکوب کرنے والے وکیل کی حمائت میں آواز بلند کر کے اپنی اخلاقی ساکھ خراب کی ہے اب نواز شریف، مریم نواز اور بلاول بھٹو کی سیاست کا ایندھن بن کر یہ تاثرپختہ نہ کریں کہ بلا تفریق احتساب سے سب خوفزدہ ہیں سیاستدان، بیورو کریٹ، جج، جرنیل اور وکیل۔ احتساب سے بچنے کے لئے وہ محسن داوڑ اور علی وزیر کو ڈھال بنانے سے بھی نہیں چوکے۔