مکافات عمل
فاٹا بل کی منظوری موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کا کارنامہ ہے۔ فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی میں ہوا اور مسلم لیگی حکومت کو اپنے حلیفوں مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے دبائو سے نکل کر یہ بل منظور کرانا پڑا۔ میاں نواز شریف چاہتے تو اپنے دور حکمرانی میں یہ کریڈٹ لے سکتے تھے مگر فاٹا کے عوام اور قوم کے مفاد پر انہوں نے مولانا اور اچکزئی سے تعلق کو ترجیح دی۔ قوم کو پہلی بار قومی سلامتی کمیٹی کی افادیت کا پتہ چلا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ منتخب حکمران کس طرح محض اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے قومی مفاد کو پس پشت ڈالتے اور اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب کوئی علاقہ غیر نہیں کاش بلوچستان میں بھی اے ایریا اور بی ایریا ختم کر کے ریاست کی رٹ تمام علاقوں اور شہریوں پر قائم ہو اور دوبارہ پاک سرزمین کا کوئی حصہ دہشت گردوں، اغوا کاروں، چور اُچکوں کی پناہ گاہ اور ظالم و سنگدل سرداروں، وڈیروں کی چراگاہ نہ بن سکے۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا لیکن یہاں مستقل قیام امن کی ضمانت صرف انضمام سے مل سکتی ہے نہ عدالتوں کے قیام سے۔ قبائلی علاقوں کے عوام کو امن اور انصاف چاہیے، تعلیم اور روزگار درکار ہے اور وہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے برابر شہری سہولتیں چاہتے ہیں۔ موجودہ گلا سڑا نظام جو پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا کے عوام کو جدید دور کی حکمرانی فراہم کرنے کے قابل نہیں ایک ایسے پسماندہ قبائلی معاشرے میں تبدیلی کیسے لا سکتا ہے؟ یہ اہم سوال ہے جاگیرداروں، وڈیروں، مخدوموں اور ملکوں سے تنگ آ کر 1980ء کے عشرے میں قوم نے تاجروں اور صنعت کاروں سے اُمیدیں وابستہ کیں کہ شائد عہد حاضر کے تقاضوں سے واقف اور تعلیم و جدیدیت کی برکات سے آشنا یہ لوگ عام آدمی کی زندگی کو آسودہ اور مستقبل کو روشن کر سکیں، مگر صدیاں گزر جانے کے باوجود تاجر پیشہ سیاستدانوں نے ابن خلدون اور افلاطون کے اس نظریے کو درست ثابت کر دیا کہ یہ طبقہ بدترین حکمران ثابت ہوتا ہے تاجر پیشہ حکمرانوں نے لوٹ مار، جعلسازی، فریب کاری، نمودو نمائش اور معاشی و سماجی امتیاز و تفریق کا ایسا کلچر متعارف کرایا کہ معاشرے کا تانا بانا ہی بکھر گیا۔ گزشتہ روز احتساب عدالت میں مریم نواز شریف بیان دینے کے لیے کٹہرے میں آئیں تو میاں نواز شریف کا کلیجہ پھٹنے لگا اور شفقت پدری کے تحت وہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بیٹیوں کو کٹہرے میں لانے کی روائت اوچھی ہے، مگر بھول گئے کہ یہ روائت نئی نہیں۔ مخالفین کی بہو بیٹیوں کو تھانے، کچہری میں گھسیٹنے اور رسوا کرنے کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو دور میں ہوا، اپنے ہی ایم این اے ملک سلیمان کی اہلیہ اور بیٹیوں کو تھانے میں بلوا کر لطف اندوز ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حبیب جالب نے کہا تھا ع لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو خوش ذوق قارئین کو پس منظر معلوم ہے بتانے کی ضرورت نہیں مگر قند مکرّر کے طور پر تمام اشعار درج کرنے میں حرج نہیں ؎ قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو ورنہ تھانے چلو منتظر ہیں تمہارے شکاری وہاں کیف کا ہے سماں اپنے جلوئوں سے محفل سجانے چلو ورنہ تھانے چلو حاکموں کو بہت تم پسندآئی ہو ذہن پہ چھائی ہو جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو ورنہ تھانے چلو میاں صاحب بھٹو کی طرح رنگین مزاج ہیں نہ جاگیردار نہ خو کے مالک، مگر اپنی سیاسی مخالف بے نظیر بھٹو کو چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت تھانے کچہریوں کے چکر خوب لگوائے، تصویریں دستیاب ہیں بے نظیر بھٹو کسی کی بیٹی ہے اور بختاور و بلاول کو سیاست کی شدھ بدھ نہ معصوم بچوں کا سیاسی کشمکش سے کوئی تعلق، میاں صاحب کو یاد نہ رہا، اس وقت ان پر انتقام کا بھوت سوار تھا اور وہ چودھری شجاعت حسین اور مجید نظامی مرحوم کے مشوروں کو درخور اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ شرمیلا فاروقی کی والدہ کے ساتھ کراچی کی حوالات میں شب بسری کون بھول سکتا ہے۔ شکر کریں کہ ابھی تک ان کے بچوں میں سے کسی کو اس اذیت سے نہیں گزرنا پڑا جس سے نصرت بھٹو، بے نظیر اور شرمیلا فاروقی کو گزرنا پڑا۔ باپ کو یہ باتیں اس وقت سوچنی چاہیے تھیں جب اس نے خوش و خرم گھریلو زندگی گزارنے والی صاحبزادی کو سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں گھسیٹنے، ایون فیلڈ فلیٹس کا ٹرسٹی بنانے، اس کے ذریعے عدالت عظمیٰ و جے آئی ٹی میں جعلی دستاویزات پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیٹوں کو بیرون ملک بھیج کر صاحبزادی کو جلسوں میں لیے پھرنے اور مخالفین پر الزام تراشی کے لیے سوشل و میڈیا سیل کی سربراہی سونپنے کے بعد کیا انہیں اندازہ نہ تھا کہ عدالتوں میں جواب طلبی ہو گی اور "میرا بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی گھر نہیں " کہنے والی خاتون کو بیان ریکارڈ کرانا پڑے گا؟ ۔ مگر یہی تو ہمارا قومی المیہ ہے کہ ماضی سے کوئی سبق سیکھتا ہے نہ ایک منفی عمل کے ردعمل کو کوئی ذہن میں لاتا ہے۔ جب کامیابی کی خواہش اور اقتدار کی ہوس غلبہ پا لے اور انسان اپنی خواہشات کو مشیر بنا لے تو پھر کسی کو یاد نہیں رہتا کہ جو آج بو رہا ہوں کل کاٹنا بھی پڑے گا۔ بات تبدیلی سے چلی تھی سیاسی انتقام اور مکافات عمل تک پہنچ گئی۔ حالات ان دنوں تحریک انصاف اور عمران خان کی کامرانی کی نوید سنا رہے ہیں ہر راستہ بنی گالہ کو جاتاہے اور روزانہ دو چار ارکان اسمبلی و الیکٹ ایبلز اپنی قسمت کی باگ عمران خان کو پکڑاتے ہیں مگر وہاں بھی مستقبل بینی اور عاقبت اندیشی کا قحط ہے۔ ایک ایک حلقے سے تین تین چار چار مضبوط امیدوار تحریک انصاف میں شامل ہو چکے اور مزید کی آمد جاری ہے پرانے کارکن پریشان ہیں اور تازہ شامل ہونے والے حیران کہ ایک حلقے سے ٹکٹ کا حقدار تو ظاہر ہے ایک ہی قرار پائے گا باقی الیکٹ ایبلز کا خان صاحب اچار ڈالیں گے یا اپنے ٹکٹ یافتہ امیدوار کی فتح کو شکست میں بدلنے کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کی راہ دکھائیں گے؟ عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے کے بعد جہانگیر ترین کو سیکرٹری جنرل اور رائے حسن نواز کو صدر سائوتھ ریجن کے منصب پر برقرار رکھ کر تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ دوغلے پن کی پھبتی کس سکے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اورحامد خان اگر تحفظات ظاہر کر رہے ہیں تو کسی کو بُرا منانے کے بجائے شریف خاندان سے سیاسی اخلاقیات کا مطالبہ کرنے والی قیادت کو اپنی منجی تھلے ڈانگ بھی پھیرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل نے کپتان سے جو اُمیدیں وابستہ کی ہیں ان کا بلیدان نہ ہو اور انتخاب جیتنے کی صورت میں الیکٹ ایبلز عمران خان کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا، یہ فصلی بٹیرے اور لوٹے بظاہر کمزور، مسینے اورتابعدار نظر آتے ہیں مگر اقتدار کا حصہ بننے کے بعد حکمرانوں کو اپنے شیشے میں اتارنے اور انقلابی منشور کو کوڑے دان میں ڈالنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔ بھٹو ایسے ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور گھاگ، نواز شریف ایسے شاطر اور جوڑ توڑ کے ماہر سیاستدان کے انجام سے مستقبل کے حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہیے کہ وقت انتظار کرتا ہے نہ کسی سے رو رعائت ع ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے