مجبوری
میاں نواز شریف واقعی 13جولائی کو وطن واپس آ رہے ہیں؟ پرواز نمبر تک مشتہر ہو گیا مگر شکوک و شبہات ختم نہیں ہوئے۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ دلیری اور مجبوری کا امتزاج ہے، واپس نہ آئیں تو بزدل کہلائیں، بچی کھچی مسلم لیگ اور سیاست سے ہاتھ دھوئیں، احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کے حق سے محروم ہو کر مفرور قرار پائیں۔ آئے تو داخل زنداں ہوں۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ 1993ء میں اپنی مشہور زمانہ تقریر"ڈکٹیشن نہیں لوں گا، اسمبلی نہیں توڑوں گا، استعفیٰ نہیں دوں گا" سے دستبردارہو کر جنرل عبدالوحید کاکڑ کی ڈکٹیشن لی، اسمبلی توڑی اور استعفیٰ دیا تو اپنوں بیگانوں سب نے طعنے دیے اورہر جگہ انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پرقبضہ کیا اور جنرل محمود نے وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کیا تو سابقہ تلخ تجربے کی بنا پر میاں صاحب ڈٹ گئے اور کہا کہ "اوورمائی ڈیڈ باڈی" یہ تلافی مافات کی سعی تھی مگر اٹک قلعے اور کورنگی جیل کی سختیاں سہنی پڑیں تو ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ سختیاں بھی کیا تھیں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل سے پسند کا کھانا جاتا تھا اور وہ ساری سہولتیں حاصل جو طاقتور قیدیوں کا جیل میں پیدائشی حق سمجھی جاتی ہیں۔ جیلوں میں بھی دو پاکستان آباد ہوتے ہیں غریبوں، کمزوروں اور چھوٹے مجرموں کو کال کوٹھڑیوں میں رہنا اور وہ تمام صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری جیلیں عقوبت کدے کہلاتی ہیں مگر اُمرا، طاقتوروں اور حکمران طبقے کو ہر طرح کی عیاشی حتیٰ کہ بچے تک پیدا کرنے کی سہولت حاصل۔ اس کے باوجود تن آسان میاں نواز شریف کے لیے زنداں میں رہنا دشوار ہو گیا اور وہ فوجی آمر پرویز مشرف سے معافی مانگ، جلاوطنی کا دس سالہ معاہدہ کر کے جدہ کے سرور پیلس میں جا براجے۔ میاں صاحب سیاسی نہیں مالیاتی جرائم میں سزا یافتہ اخلاقی قیدی ہیں اور انہیں تاحیات نااہل کسی فوجی عدالت یا فوجی حکومت کے دبائو میں کام کرنیوالی عدالت نے نہیں، آئین کے تحت کام کرنے والی عدالتوں نے کیا ہے اور ان پر عملدرآمد میں رکاوٹ شاہد خاقان عباسی کی حکومت بھی نہیں ڈال سکی۔ پرویز مشرف دور میں جلا وطنی کا داغ دھونے کے لیے میاں نواز شریف اور مریم نواز نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا جو قانونی مجبوری تھی مگر یہ توقع کوئی احمق ہی کر سکتا ہے کہ ان کی وطن واپسی امام خمینی کے انداز میں ہو گی۔ بیمار بیگم کلثوم نواز کو ہسپتال میں چھوڑ کر باپ بیٹی کی واپسی شائد ان کے پیرو کار بھی پسند نہ کریں کہ یہ اپنی اہلیہ اور والدہ سے زیادتی ہے اگر خدانخواستہ ارادے کچھ اور ہیں تو انجام اللہ تعالیٰ ہی جانے۔ لیکن میاں صاحب رسک لے رہے ہیں۔ ایک اخبار نے یہ اطلاع فراہم کی ہے کہ حکومت میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو گرفتاری کے بعد مچھ جیل منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ان کی جان اور امن و امان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ مچھ جیل کے تصور سے ہی قیدیوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ موسم، مچھروں اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے یہ جیل بدنام ہے جبکہ کسی اور کو علم ہو نہ ہو میاں صاحب جانتے ہیں کہ وہ کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے نہیں محض سیاسی ضرورت کے تحت اور اپنے آپ کو بطل حریت ثابت کرنے کے لیے جیل جا رہے ہیں۔ مطالعہ کا انہیں شوق نہیں، غورو فکر کے وہ عادی نہیں اور دور دراز کی جیلوں میں بڑے سے بڑے قیدی کو اپنے ذوق طعام کی تسکین کے مواقع میسر ہوتے ہیں نہ لطیفہ گو اور خوشامدی رفیق دستیاب، جو ان کا جی بھلا سکیں۔ مسلم لیگ لاہور، اور اسلام آباد میں نواز شریف کا استقبال کس قدر بھر پور انداز میں کرتی ہے اس کا اندازہ 13جولائی کی شام کو ہو گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو اگرچہ پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ایئر پورٹ پہنچیں مگر ماضی میں طاہر القادری کی آمد پر میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت جو سہولتیں عوامی تحریک کے کارکنوں کو فراہم کر چکی ہے اس سے زیادہ کی توقع موجودہ نگران حکومت سے رکھنی عبث ہے۔ ویسے بھی حکومت اور انتظامیہ انتخابی مہم خراب کرنے کی اجازت شاید کسی کو نہ دے۔ تاہم ایک دن اگر بڑا شو ہو بھی جائے تو اس سے سزائوں میں تخفیف ہو سکتی ہے نہ انتخابی نتائج متاثر ہونے کی توقع۔ لیکن اگر یہ شو فلاپ ہوا تو میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یہ توقع ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ مسلم لیگ اس موقع پر مار دھاڑ کا پروگرام بنا کر انتخابی ماحول خراب کرے گی کیونکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ کو ہے۔ کوئی بھی امیدوار اتنا احمق نہیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو ہنگامہ آرائی میں گرفتار کرائے اور 25جولائی کو ووٹروں کا منہ دیکھتا رہے جنہیں لانا ان کارکنوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ہلکی پھلکی موسیقی سے یہ تاثر دینے کی کوشش ضرور کی جائے گی کہ مسلم لیگ کے پاس احتجاجی اور سٹریٹ پاور ہے اور وہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو پریشان کر سکتی ہے۔ میاں صاحب کی نظر 2023ء کے انتخابات اور مریم نواز کے مستقبل پر ہے تو پھر دو تین سال قید بامشقت بھگت کر اپنی سیاست کا احیا کر سکتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی فی الحال وہ خلا پر کرنے کے لیے تیار نہیں جو مسلم لیگ (ن) کی شکست و ریخت سے پیدا ہو رہا ہے۔ تاہم یہ بھی اس صورت میں ممکن ہے کہ فوج، عدلیہ اور حکومت کی سطح پر ایسیجوہری تبدیلی واقع ہو جس کا میاں نواز شریف فائدہ اٹھا سکیں۔ 2002ء کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف سے ایک حماقت سرزد ہوئی کہ اس نے کہیں کی اینٹ کہیں کا روزہ اکٹھا کر کے بھان متی کا جو کنبہ جوڑا اس کی قیادت کسی مقبول، فعال اور پرجوش وپرعزم لیڈر کے حوالے نہیں کی۔ مسلم لیگ(ق) کو لوگوں نے ری پبلکن پارٹی سمجھا جو فوجی اقتدار کی ضرورتوں کے تحت وجود میں آئی۔ حکومت کی سربراہی ایسے شخص کو سونپی جو ریاست، سیاست اور جماعت کا بوجھ اٹھانا تو درکنار اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ بالفرض اگر 2002ء میں حکمران جماعت اور حکومت کی ڈور عمران خان جیسے کسی مقبول، پرعزم اور عوامی سطح پر مقبول لیڈر کے ہاتھ میں ہوتی تو کیا پھر بھی فوجی ڈکٹیٹر کو این آر او کی کڑی گولی نگلنی پڑتی اور معاہدہ کی معیاد ختم ہونے سے قبل میاں نواز شریف کو واپسی کی اجازت ملتی؟ میرا خیال ہے نہیں۔ اگر 25جولائی کے بعد ملک میں عوامی مینڈیٹ کی حامل مقبول حکومت وجود میں آئی اور حکومت کی باگ ڈور عمران خان نے سنبھالی تو شریف خاندان کے لیے نیب، عدلیہ یا کسی دوسرے ریاستی ادارے پر دبائو ڈال کر مرضی کی ڈیل اور اپنے لیے مراعات حاصل کرنا ممکن نہ ہو گا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ایف آئی اے نے "سٹاپ لسٹ" پر ڈال دیا اگلے چند روز میں شاید وفاقی وزارت داخلہ سٹاپ لسٹ کو ای سی ایل میں تبدیل کر دے اور کئی دوسرے نام بھی اس میں شامل ہوں لہٰذا جو نادان دوست یا دانا دشمن میاں صاحب کو خمینی کی طرح ملک میں آمد کی نوید سنا رہے ہیں ان پر تکیہ کرنا دانش مندی نہیں مسلم لیگ کو میاں صاحب نے طیب اردوان کی طرح مضبوط عوامی جماعت بنایا نہ اپنے کارکنوں پر کبھی انحصار کیا ان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کرنا حماقت ہے۔ امیدوار میاں صاحب کے استقبال کے لیے روانگی سے قبل ضرور سوچیں گے کہ کہیں یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تو نہیں؟ گوجرانوالہ کے پی ٹی آئی امیدوار ناصر چیمہ اگر آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تصویر لگانے پر نااہل ہو سکتے ہیں تو عدالت عظمیٰ سے نااہل اور احتساب کورٹ سے سزا یافتہ شخص کے بینر اور نعرے لگانے، استقبال کرنے اور ضابطہ اخلاق و قانون کی خلاف ورزی پر مسلم لیگی کارکنوں کی گرفتاری اور امیدواروں کی نااہلی میں کتنی دیر لگے گی؟ کوئی اور سوچے نہ سوچے مسلم لیگی امیدوار ضرور سوچ رہے ہیں۔ مریم نواز نے 13جولائی روانگی کا اعلان کر کے میاں نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کر دیا، کسی بہانے واپسی کا پروگرام تبدیل ہوا تواسے یار لوگ بزدلی، مصلحت پسندی اور غلط بیانی سے تعبیر کریں گے۔ واپسی کا اعلان میاں صاحب نے خود کیوں نہ کیا، مریم نواز سے کیوں کرایا یہ بذات خود لمحہ فکریہ ہے۔