کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
شمالی وزیرستان میں دہشت گرد ایک بار پھر سرگرم عمل ہیں اور تخریب کاری بڑھنے لگی ہے۔ پاک فوج کے تین افسروں اور ایک جوان کی شہادت معمولی سانحہ ہے نہ ضرب عضب اور ردالفساد آپریشن کے بعد سکھ کا سانس لینے والی قوم کے لئے قابل برداشت صدمہ۔ خارکمر کیمپ کے علاقہ میں چند ہفتوں کے دوران دس فوجی افسر و اہلکار شہید اور پینتیس زخمی ہو چکے، جس کا مطلب ہے کہ دہشت گرد تازہ دم ہو کر نئے بھیس میں قومی امن و سلامتی پر حملہ آور ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے پر پرزے نکالے تو ابتدا میں ریاست نے اس سے تعرض نہ کیا۔ افغانستان میں امریکی حملوں کا فطری ردعمل قرار دے کر نظر انداز کیا تاوقتیکہ بھارت اور ہمارے دیگر دشمنوں نے اسے گود لے لیا اور ہمیں ستر پچہتر ہزار شہریوں اور چھ ہزار فوجی افسروں و جوانوں کی قربانی دے کر اس عفریت سے نمٹنا پڑا۔ کامیابی نے پاک فوج، پولیس، رینجرز، ایف سی اور دیگر ریاستی اداروں کے علاوہ قوم کے قدم چومے، صرف قبائلی علاقوں سے جنم لینے والی دہشت گردی نہیں بلکہ کراچی اور بلوچستان میں ملک دشمن، علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی شکست ہوئی۔ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اپنے انجام کو پہنچے اور الطاف حسین، حیر بیار مری، براہمداغ بگتی و دیگر بیرون ملک زخم چاٹ رہے ہیں ؎ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ سبق ہم نے مگر ان حادثات سے نہیں سیکھا، سیکھا ہوتا تو دہشت گردی کے نئے روپ کو روز اول سے پہچانتے اوربلاول بھٹو، مریم نواز، اختر مینگل اوردیگر سیاستدانوں کے علاوہ مختلف قومی شعبوں میں موجودففتھ کالمسٹ محسن داوڑ، علی وزیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کے غم میں دبلے نہ ہو رہے ہوتے۔ تحریک طالبان پاکستان کے نئے اور پشتون ایڈیشن کو نقیب اللہ محسود کے قتل اور قبائلی علاقوں میں عوام کی شکایات کا ردعمل قرار دے کر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر قابل قبول بنانے کی سعی و تدبیر نہ ہوتی۔ بلاول بھٹو کی دعوت افطار میں محسن داوڑ کی مسلم لیگ ن سمیت کئی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے حوصلہ افزائی کی، انہیں سب سے زیادہ بولنے کا موقع دیا۔ اور قومی دھارے میں لانا چاہا مگر دعوت افطار کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کے رویے میں لچک آنے اور علاقائی، نسلی و لسانی سیاست کی تنگنائے سے نکل کر قومی سیاست کے بحر بیکراں کا حصہ بننے کے بجائے مزید درشتی اور تلخی آ گئی، محسن داوڑ اور علی وزیر نے فوج کو وزیرستان سے نکالنے کا مطالبہ شروع کر دیا اور فوجی چوکی پر حملے کے لئے معصوم قبائلی نوجوانوں کو اکسایا۔ ممکن ہے کہ فوجی افسروں اور جوانوں پر حالیہ حملوں میں محسن داوڑ، علی وزیر اور منظور پشتین شامل نہ ہوں اور فوج وپی ٹی ایم کے مابین چپقلش کو کوئی تیسرا فریق اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہو، لیکن کیا پشتون تحفظ موومنٹ کے کسی لیڈر اور کارکن نے منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر کے بیانات اور اعلانات سے اظہار برأت کیا؟ ۔ دھمکیوں کو احمقانہ قرار دیا؟ اور پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت پر افسردگی دکھائی؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم کی قیادت سے جو سوالات کئے ان میں سے کسی کا جواب ملا؟ اوران کے ہمدرد و خیر خواہ بلاول بھٹو، مریم نواز شریف اور فرحت اللہ بابر کے علاوہ پاک فوج کی آڑ میں ریاست پاکستان سے خدا واسطے کا بغض رکھنے والے دانشوروں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں میں سے کسی کو یہ کہنے، لکھنے اور بولنے کی توفیق ہوئی کہ تحریک طالبان پاکستان کے زخم خوردہ عوام اب مزید کسی ایسے گروپ کو برداشت نہیں کر سکتے جس کے ذرائع آمدن، سلوگن مشکوک، وفاداری متنازع اور طریق کاروانداز فکر عسکریت پسندانہ ہو، جس کے ہر عمل کی تائید و حمایت ہمارے دشمن کریں اور جس کا ہدف پاک فوج اورقومی سلامتی کے دیگر ادارے ہوں۔ بھارت، افغانستان اور ایران کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے، بدقسمتی سے اسے صرف فاٹا اور بلوچستان ہی نہیں کراچی میں بھی عرصہ دراز تک سازگار ماحول دستیاب تھا، تحریک طالبان پاکستان کے لیڈروں کو یہ عقل نہیں آئی مگر الطاف گروپ اور نسلی اور لسانی بنیاد پر پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے دیگر گروہوں نے انتہائی مکاری سے کھیل کھیلا، ہر تنظیم کے تین ونگ بنائے ایک عسکری، دوسرا سیاسی اور تیسرا انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والا، امریکہ، مغرب اور بھارت سے کروڑوں ڈالر فنڈ بٹورنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں کرائے پر دستیاب ہیں ان دہشت گرد گروہوں نے دھن، دھونس، دھاندلی اور نسلی و لسانی تعصب کے زور پر پارلیمانی اداروں میں نمائندگی حاصل کی۔ کارندہ انسانی حقوق کی تنظیموں اورناعاقبت اندیش سیاسی جماعتوں کوووٹوں کی خیرات دے کر، بہلا پھسلا کرمنتخب ایوانوں اور ملکی و غیر ملکی فورمز پر پروپیگنڈے کی ذمہ داری سونپی اور دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا تاکہ ریاست ہاتھ ڈالے تو اسے سیاسی انتقام قرار دے کر بچناآسان رہے۔ الطاف گروپ نے عوامی نمائندگی کی آڑ میں کراچی کو تباہ کیا۔ بلوچستان میں یہی کھیل کھیلا گیا اور تحریک طالبان پاکستان کے انجام کو مدنظر رکھ کر اب خیبر پختونخواہ میں یہ حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ یہ عوامی لیگ کا ماڈل ہے۔ جواہر لال نہرو اور اندراگاندھی نے شیخ مجیب الرحمن کو اس راہ پر ڈالا کہ وہ سیاست کی آڑ میں بغاوت اور علیحدگی پسندی کو فروغ دے اور مذموم مقاصد حاصل کرے۔ اب بھی بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں یہی بھارتی ماڈل روبہ عمل ہے مگر ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی کے مکتی باہنی تجربے سے ہم نے کوئی سبق حاصل کیا نہ تحریک طالبان پاکستان کا انداز کار یاد رکھا۔ عسکریت پسندی اور مسلح جدوجہد کی مخالف قومی سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی محض عمران خان کی حکومت اور فوج کو نیچا دکھانے اور اپنا اپنا حساب برابر کرنے کے لئے نئے عفریت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی گرفتاری پر بلاول اور ان کے ساتھی جس قدر تلملائے، مسلم لیگ کے بعض لیڈروں کو تکلیف ہوئی اس کا عشر عشیر بھی تین فوجی افسروں اور ایک حوالدار کی شہادت پر نظر نہیں آتا۔ بلاول بھٹو کو تو لاڑکانہ اور اس کے گردو نواح میں پھیلنے والے ایڈز کے انسانیت سوزمرض کی پروا ہے نہ وہ ٹنڈو محمد خان کی بارہ سالہ بھکاری بچی جمنا کے ساتھ دو اوباش نوجوانوں کی سفاکانہ زیادتی پر بولا شائد یہ اوباش بھی کسی منتخب عوامی نمائندے کے کارندے ہوں جس کا احترام بلاول پر لازم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی قوتیں مشرقی پاکستان کے تجربے سے خائف ہیں لیکن کیا انہیں یاد نہیں کہ وہ بھی بھارت کی کارستانی تھی اور اب بھی بھارت پاکستان کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کے درپے ہے۔ ایسی صورت میں پاکستانی سیاست اور صحافت دہشت گردی، علیحدگی پسندی اوربغاوت کے قلع قمع میں مصروف جانبازوں کے ساتھ کھڑی ہو، شہیدوں کے معصوم لواحقین کی حوصلہ افرائی اور اشک شوئی کرے، اس سانپ کا سر کچلنے کے لئے آگے بڑھے یا وہ بے رحم کھیل جاری رکھے جس کا انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کو فوجی عدالتوں کے قانون میں توسیع پر کیوں اعتراض ہے؟ جو اڑھائی سال تک گرفتار دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے استعمال ہوا یہ جماعتیں اور منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر کو شیخ مجیب الرحمن اور الطاف حسین کی طرح ہیرو بنانے پر بضد کیوں ہیں؟ کیا ہم نے ماضی کی ہر غلطی بار بار دہرانے کی قسم کھا رکھی ہے ؎آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے نمرود ہےکیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہےپس تحریر:جمنا سے زیادتی کے مرتکب اوباشوں کے خلاف کارروائی کے لئے ایاز لطیف پلیجو کی جدوجہد قابل داد ہے اور موقع بے موقع بولنے کے عادی بلاول بھٹو، مراد علیشاہ، شہلا رضا، نفیسہ شاہ کی غفلت و خاموشی شرمناک، یہ اوباش سرعام پھانسی کے مستحق ہیں تاکہ آئندہ کوئی حوا کی بیٹی سے یہ وحشیانہ سلوک نہ کر سکے۔