کون اس شہر میں سنتا ہے فغانِ درویش
دمشق میں شیخ سعدی شیرازی نے قحط سے گھبرا کر لوگوں کو عشق بھولتے بھلاتے دیکھا اور پکار اٹھے ؎
چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کروند عشق
پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قحط کے آثار ہیں نہ اشیائے خورو نوش کی قلت، زرعی ملک میں جہاں بارشیں امسال اور سال گزشتہ وقت پر ہوئیں، اجناس کی پیداوار بھی تسلی بخش ہے قحط ہونا بھی نہیں چاہیے، مہنگائی مگر حکومت کے قابو میں آرہی ہے نہ حکمران عوام کو حقیقی اسباب بتانے کے قابل ہیں، مہنگائی کے سبب تحریک انصاف کے ووٹروں اور خیر خواہوں کی عمران خان کے ساتھ عشق کی لو مدھم پڑنے لگی ہے اور پرجوش نظریاتی کارکنوں کے علاوہ ارکان اسمبلی، دانش مند وزیر، مشیر مہنگائی کو حکومت کے لئے دشمن نمبر ایک، اپوزیشن سے زیادہ بڑا اور حقیقی خطرہ قرار دینے لگے ہیں۔ شیخ رشید کے انداز سیاست و خطابت سے اختلاف ممکن مگر عوامی نبض پر ان کا ہاتھ رہتا ہے جب وہ بھی مہنگائی سے خائف نظر آئیں اور عمران خان کو ضروریات زندگی آسان و ارزاں فراہمی پر زور دیں تو سمجھو کہ معاملہ دگرگوں ہے۔
تشخیص عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی درست ہے گراں فروش، ذخیرہ اندوز اور سمگلر مافیا موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کے لئے کوشاں ہے اور سابقہ حکمران اشرافیہ اس کی پشت پناہ، لیکن دو سال میں مافیا سے نبردآزما حکومت تاحال اگر ناکام ہے اور کسی ایک مافیا کی گردن مروڑنے سے عاجز تو قصور وار کون؟ مافیاز کس ملک میں جنم نہیں لیتے؟ اور پاکستان کی کس حکومت کو سامنا نہیں کرنا پڑا مگر ان کی سرکوبی کون کرے گا حکمران یا بے بس عوام؟ اپوزیشن بھی ان مافیاز کا ساتھ کیوں نہ دے کہ دونوں کا ہدف موجودہ حکمران ہیں اور دونوں انہیں ہر قیمت پر گھر بھیجنے کے خواہش مند۔ گراں فروش، ذخیرہ اندوز مافیاز کو اگر واقعی اپوزیشن کی سرپرستی حاصل ہے یا دونوں کے مقاصد میں یکسانیت ہے تو اس گٹھ جوڑ کو توڑنا حکومت کی ذمہ داری ہے کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی نہیں۔ ریاست کے آہنی ہاتھ سے مافیاگر خوفزدہ نہیں تو یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہہے۔ ریاست کمزور ہے یا پھر اس کے وسائل اور اختیارات سے لیس ادارے مفلوج؟ پتہ چلانا عمران خان کی ذمہ داری کہ ان کے دست و بازو یعنی صوبائی وزراء اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزیر اور ریاستی اختیارات استعمال کرنے والے بیورو کریٹس اس مافیا کے روبرو بے بس کیوں ہیں یہ ملی بھگت ہے یا نااہلی و نالائقی۔ ہو سکتا ہے ملی بھگت اور نالائقی دونوں عوامل کارفرما ہوں۔
درست تشخیص کے بعد موزوں علاج سے گریز، غفلت یا سستی مرض کو بڑھا دیتی ہے اور یہی پاکستان میں ہو رہا ہے۔ طلب اور رسد میں توازن برقرار نہ رکھنا، گندم اور چینی قیمتوں میں مناسب اضافے کے ذریعے مقامی کسانوں اور کارخانہ کاروں کو فائدہ پہنچانے سے گریز اور بالآخر درآمد کا فیصلہ قوت فیصلہ کی کمی ہے اور منصوبہ بندی کا فقدان۔ اپوزیشن اگر مہنگائی کے ایشو کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرپائے تو اس کی نالائقی۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے دو سال بعد اس وقت حکومت کے احتساب والے بیانیے پر ضرب لگائی جب وہ مہنگائی کے سامنے بے بس اور اس کی کوئی تدبیر کارگر نظرنہیں۔ میرے خیال میں کمال اپوزیشن کا نہیں بلکہ عمران خان کے ہر فن مولا مشیروں کا ہے جو مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ تدبیر کر سکے نہ مختلف مافیاز کی سرکوبی کے لئے بروقت و پائیدار اقدام، اپوزیشن اگر کاروباری طبقے کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہے اور حکومت دو سال کے عرصہ میں اس کا اعتماد حاصل کر سکی نہ ایسے اقدامات کہ مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کم از کم اس محاذ پر حکمرانوں کو زچ نہ کر سکے تو ذمہ دار کون ہے؟ ۔ میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اور دس ماہ تک خاموشی سے حکومت کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ پوری توجہ معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی پر دے سکے، کورونا مصیبت تھی مگر اس نےکاروباری طبقے کی قوت مزاحمت کو کمزور کیا اور وہ حکومت کے رحم و کرم پر تھا حکومت اس گرم لوہے کو مرضی سے موڑنے کے قابل تھی مگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا۔ کاروباری اوقات کا ازسرنو تعین یعنی شام سات آٹھ بجے بندش شادی بیاہ کی تقریبات میں مہمانوں کی کم تعداد اور دستاویزی معیشت پر اصرار حکومت کے اختیار میں تھا اور کاروباری طبقہ ہر شرط ماننے پر آمادہ مگر ع
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
اپوزیشن کے اپنے ہاتھ پلّے اب بھی کچھ نہیں، وہ اپنی ماضی کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو پائی ہے نہ عوام کے سامنے پرکشش ایجنڈا پیش کرنے میں کامران، مولانا کو پی ڈی ایم کی قیادت سونپ کر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے یہ تاثر پختہ کیا کہ چھ چھ سات سات بار اقتدار کے مزے لوٹنے والی یہ دونوں جماعتیں متحدہ اپوزیشن کی قیادت کرنے کے قابل ہیں نہ اپنے طور پر عوام کو متحرک کرنے کی اہل، اپوزیشن کا اتحاد نظریاتی ہے نہ عمران خان کی دشمنی کے سوا کسی اُصول پر مبنی۔ احتساب کا خوف، عمران خان کی کامیابی کا ڈر اور سینٹ الیکشن کے نتائج و عواقب کا ادراک انہیں یکجا کرنے کا باعث ہے ورنہ ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ؎
اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا
اپوزیشن میں قدر مشترک عمران خان کی مخالفت یا دشمنی ہے، اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسہ کو ناکام بنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے مگر اسے یہ ادراک نہیں کہ اصل دشمن مہنگائی ہے جسے کنٹرول کرنے کی تاحال کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہیں نہ صوبائی حکومتوں کی پولیس و انتظامیہ پر مضبوط گرفت اور نہ گراں فروش، ذخیرہ اندوز ریاست اور ریاستی اداروں سے مرعوب۔ ریاست اور اخلاقی طور پر برترحکومت کا رعب و دبدبہ ہی جرائم پیشہ گروہوں اور مافیاز کو عوام دشمنی سے باز رکھتا ہے۔ یہی نظر نہ آئے برقرار نہ رہے تو آٹا دگنی قیمت پر بکے یا آلو، سیب کے بھائو اور ٹماٹر و لیموں تین گناہ چار گنا نرخوں پر ؎
کون اس شہر میں سنتا ہے فغاں درویش
اپنی آشفتہ بیانی سے رُلائیں کس کو
کوئی پرسان وفا ہے نہ پشیمان جفا
زخم ہم اپنے دکھائیں تو دکھائیں کس کو