Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Khat Likhenge Garche Matlab Kuch Na Ho

Khat Likhenge Garche Matlab Kuch Na Ho

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

بیرسٹر شہزاداکبر کی پریس کانفرنس سن کر شاعر یاد آیا: ؎

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

میاں نواز شریف مفرور ہیں یا اشتہاری یہ حکومت بہتر جانتی ہے یا قانون دان بتا سکتے ہیں لیکن ان کی واپسی کے لئے حکومتی کوششیں تعجب انگیز ہیں، میاں نواز شریف ضمانت پر رہا ہوئے اور پھر میاں شہباز شریف کی شخصی ضمانت پربیرون ملک چلے گئے۔ اہل وطن اور حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا، ایک سابق حکمران اور پنجاب کے مقبول لیڈر کی بیرون ملک روانگی اور طویل عرصہ قیام سے ملک میں سیاسی استحکام کی توقع تھی، اطلاعات یہی تھیں کہ اندرون ملک سیاست میں ہلچل پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی پر محترمہ مریم نواز شریف بھی والد گرامی کی عیادت کے بہانے لندن سدھاریں گی۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھی اور محترمہ جاتی عمرا میں ہی خاموشی کے شب و روز گزارنے لگیں، مخالفین کے علاوہ بہی خواہوں نے بھی حیلوں بہانوں، طعن و تشنیع سے انہیں چپ کا روزہ توڑنے پر مجبور کیا مگر وہ کمال استقامت سے "ایک چپ سو سکھ "کے اُصول پر کاربند رہیں حتیٰ کہ ان کا ٹوئٹر اکائونٹ بھی زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر بن گیا۔ چپ کا یہ روزہ چند روز قبل نیب کے بلاوے پر ٹوٹا، مریم بی بی نے نیب آفس کے باہر کارکنوں سے اور بعدازاں پریس کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب کیا، ان کے ٹوئٹر کی زبان بندی بھی ختم ہوئی مگر پھر وہی خاموشی۔

اس موقع پر میاں نواز شریف بھی متحرک نظر آئے اور انہوں نے اپنی صاحبزادی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کو فون کیے۔ جس سے یہ تاثر ابھرا کہ مسلم لیگ کے قائد رضا کارانہ پابندیوں سے آزاد ہو گئے ہیں اور اب پاکستانی سیاست میں اپنا متحرک کردار ادا کریں گے۔ نومبر 2019ء میں ضمانت پر رہائی اور بیرون ملک روانگی کے بعد میاں صاحب کی خاموشی کے جواب میں حکومت نے ہلکی پھلکی موسیقی جاری رکھی مگر انہیں اشتہاری یا مفرور قرار دینے اور وطن واپس لانے کا عزم کبھی ظاہر نہیں کیا، جس سے درون پردہ مفاہمت کا تاثر ابھرا اور اس کا کریڈٹ میاں شہباز شریف کو دیا گیا، مسلم لیگ کے علاوہ میڈیا کے کچھ دوست یہ دعویٰ کرتے تھے کہ میاں صاحب عمران خان کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر بیرون ملک گئے اور اس وقت وطن واپس آئیں گے جب بھیجنے والوں کی خواہش ہو گی، یہی دوست مریم نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں وزیر اعظم عمران خان کو رکاوٹ قرار دیتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر بیرون ملک بھیجنے والوں کو جوابی خیر سگالی کے طور پر کیا ملا اور وہ مریم نواز کی لندن یاترا میں کیوں ناکام رہے؟

مریم نواز شریف کی دو تین روز تک بیان بازی اور میاں نواز شریف کے اپوزیشن لیڈروں سے رابطوں کے بعد حکومت نے سابق وزیر اعظم کی وطن واپسی کے لئے قانونی چارہ جوئی کا عندیہ ظاہر کیا، عمران خان نے اس مقصد کے لئے اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کی اور ان کے قانونی مشیر شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان اور شہباز گل کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کی روشنی میں حکومت برطانیہ سے میاں صاحب کی واپسی کا مطالبہ کرے گی۔ میاں صاحب و مریم نواز کے اچانک تحرک اور حکومت کی طرف سے مفرور و اشتہاری کی رٹ میں تال میل ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ شریف خاندان اور حکومت یا بقول شخصے اسٹیبلشمنٹ میں خاموش مفاہمت ٹوٹ چکی ہے اور دونوں فریق نئے سرے سے سیاسی بساط بچھانے میں مشغول ہیں، شریف خاندان جنرل پرویز مشرف سے تحریری معاہدے کے بعد جدہ کا مکین ہوا تو اس نے 2007ء تک خاموشی کو شعار کیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کا اس وقت سوچا جب عدلیہ تحریک کی وجہ سے فوجی آمر کا راج سنگھاسن ڈولنے لگا، پرویز مشرف نے بھی چھوٹی موٹی خلاف ورزیوں کو برداشت کیا مگر جب میاں صاحب اپنے صاحبزادے کی بیماری کے بہانے لندن پہنچے اور سیاسی طور پر متحرک ہوئے تو پاکستانی حکومت نے بھی ضامنوں یعنی سعودی حکمرانوں سے سنجیدہ احتجاج کیا اور نواز شریف کی وطن واپسی کو ناکام بنایا۔ حکومتی مشیروں کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے کہ یا تو حکومت باپ بیٹی کے درپردہ سیاسی رابطوں سے پریشان ہے یا واقعی میاں نواز شریف وطن واپسی کے لئے پر تول رہے ہیں اور حکومت نہیں چاہتی کہ 2018ء کی طرح میاں صاحب اپنی وطن واپسی کو رضا کارانہ اور دلیرانہ اقدام قرار دے سکیں۔ اپنی سزا یعنی تاحیات نااہلی کے خلاف میاں صاحب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت یکم ستمبر کو ہو گی۔ امکان یہ ہے کہ عدالت قانونی طریقہ کار کے مطابق دوران سماعت ملزم کی حاضری کا تقاضا کرے گی بصورت دیگر نیب کے پاس اپیل کی سماعت رکوانے کا معقول جواز ہو گا کہ وہ مفرور ہیں، قانون کے روبرو سرنڈر کئے بغیر کوئی ریلیف حاصل کرنے کے حق دار نہیں۔ ویسے تو قانونی ماہرین ہی درست طور پر یہ بتا سکتے ہیں کہ آٹھ ہفتے کی ضمانت دس ماہ گزرنے کے باوجود کیسے موثر ہے اور پنجاب حکومت نے عدالتی احکامات کے تحت ضمانت میں توسیع یا منسوخی کے لئے رجوع نہیں کیا تو اس کا فائدہ میاں صاحب کو ہو گا یا حکومت کو؟ لیکن مجھے دال میں کالا نظر آتا ہے میاں صاحب کے اچانک رابطوں اور حکومتی ترجمانوں کے بیانات میں کوئی نہ کوئی ربط ضرور ہے۔

ذاتی طور پر میں میاں صاحب کے بیرون ملک قیام اور مریم نواز شریف کی خاموشی کو حکومت کے لئے نعمت غیر مترقبہ اور غیر معمولی ریلیف تصور کرتا ہوں۔ عمران خان کے جو مشیر انہیں بلاوجہ شریف خاندان سے چھیڑ چھاڑ اور مبازرت آزمائی کی ترغیب دیتے ہیں وہ نادان مشیر ہیں۔ اگر مخالف سیاستدان زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کر رہے، ایک طرف بیٹھے آرام سے دہی کھا رہے ہیں تو حکمران اپنی توجہ قومی مسائل حل کرنے اور کرپشن کا پیسہ نکلوانے کے علاوہ معاشرے سے کرپشن کے خاتمہ پر دیں، اپنے ناکردہ کار ساتھیوں کی کارگزاری بہتر بنائیں، عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کے عذاب سے نجات دلائیں اور اپوزیشن سے پنجہ آزمائی کے لئے 2023ء کا انتظار کریں جب عوام اگلے حکمرانوں کے انتخاب کے بارے میں سوچیں گے۔ کارکن اور کارندے بھلے دعویٰ کرتے پھریں مگر میاں نواز شریف بقیہ زندگی جیل میں گزارنے کے لئے وطن واپس آئیں گے نہ اپنی لخت جگر کو ان صعوبتوں میں ڈالیں گے، جولائی 2018ء میں وطن واپسی کے بعد جن کا سامنا کرنا پڑا، اپنے اندرونی اور بیرونی موثر رابطوں اور تعلقات کو بروئے کار لا کرہی وہ وطن واپسی کا جوا کھیلیں گے جس کا احساس و ادراک حکمران ضرور کریں، رہی ان کی وطن واپسی کی حکومتی کوششیں تو میں شیخ رشید سے متفق ہوں، اسحق ڈار اور سلمان شہباز شریف کو وطن واپس لانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو نواز شریف کی زبردستی وطن واپسی کے بارے میں سوچنا عقلمندی نہیں۔ ہاں البتہ عدل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

Check Also

Mehar o Wafa Ke Baab

By Ali Akbar Natiq