کارکن بمقابلہ قیادت
سینٹ کے انتخابات 1973ء سے ہو رہے ہیں پچھلے پچیس تیس سال سے سینٹ کے انتخابات کا غلغلہ بلند ہوتے ہی حکومت کی رخصتی کی افواہیں گشت کرنے لگتی ہیں اس بار مگر ووٹوں کی خریدوفروخت کا معاملہ سرفہرست رہا، یہ معاملہ وزیر اعظم عمران خان نے اٹھایا، وہ اس حد تک کامیاب رہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور میڈیا نے ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ مستعدی سے ٹکٹ یافتگان کی جانچ پڑتال شروع کر دی اور سب سے زیادہ نزلہ تحریک انصاف کے کارکنوں پر گرا، عبدالقادر ٹھیکیدار، فیصل واوڈا، فیصل سلیم، سیف اللہ ابڑو اور نجی اللہ خٹک آندھیوں کی زد میں ہیں اور عمران خان نے ان افراد کو جاری ٹکٹوں پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔
سینٹ کا ادارہ 1973ء کے آئین کے تحت وجود میں آیا اور روز اوّل سے سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور ارکان اسمبلی نے حسب توفیق ووٹوں کی خریدوفروخت اور ٹکٹوں کی بندر بانٹ سے مال پانی بنایا، مالدار لوگ اسمبلیوں کے براہ راست انتخابات میں اپنا وقت، پیسہ، تعلقات ضائع کرنے کے بجائے مال حرام و حلال خرچ کر کے آرام سے ایوان بالا کی رکنیت حاصل کرتے اور قبل از وقت انتخابات کے خوف سے بے نیاز اپنی مدت پوری کرتے رہے، بھٹو صاحب کے زمانے میں میر نبی بخش زہری محض دھن دولت کے بل بوتے پر سینٹ کے رکن بنے اور زندگی بھر ایوان بالا کے رکن رہے، گلزار خان کا تو پورا گھرانہ ہی سینٹ اور قومی اسمبلی کا رکن رہا۔ گلزار خان، ان کے دو صاحبزادے، بیٹی اور بیگم، یہ گلزار ہائوس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قیام و طعام اور پارٹی فنڈ کے نام پر خاطر خواہ درہم و دینار کا عوضانہ یا ہرجانہ تھا جو پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ادا کیا۔ محترمہ اور شوہر نامدار آصف علی زرداری گلزار ہائوس میں قیام کرتے تو دیرینہ کارکن اور سینئر رہنما باہر کھڑے ناہید خان وغیرہ کی سخت سُست سن رہے ہوتے۔
تحریک انصاف اور عمران خان جارحانہ تنقید کا ہدف اس بنا پر ہیں کہ 1996ء سے تبدیلی کی خواہش میں مبتلا نوجوان نسل اور متوسط طبقے نے اپنی قیادت و حکومت سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، عمران خان اور تحریک انصاف سے سیاست میں دھن دولت کی ریل پیل، دولت مندوں کی اجارہ داری اور مخلص کارکنوں کے مقابلے میں پیرا شوٹر کی ناز برداری کے مکروہ کلچر کی حوصلہ شکنی کی توقع برقرار ہے مگر جب اچانک لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی طرح تحریک انصاف کے ٹکٹ بھی دولت مندوں میں بانٹے جا رہے ہیں اور دیرینہ کارکنوں کو تو خیر چھوڑیے اہم عہدیداروں کو بھی علم نہیں تو ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ فیصل واوڈا کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر ہیں، الیکشن کمشن میں ان کی دہری شہریت کا کیس زیر سماعت ہے۔ الزام ان پر یہ ہے کہ موصوف نے غلط بیان حلفی داخل کرایا اور آئین کے آرٹیکل 62/63کی زد میں آتے ہیں۔ نااہلی سے بچانے کے لئے انہیں سینٹ کا ٹکٹ دیدیا گیا ہے۔ یہ پرلے درجے کی بے اُصولی ہے۔ اگر ایک شخص نے غلط بیانی کی، آرٹیکل 62/63کے تحت سزا کے مستحق ہیں اور کسی ایوان کارکن بننے کے اہل نہیں تو انہیں سزا دینے بلکہ نشان عبرت بنانے کے بجائے ایوان بالا میں لا بٹھانا کون سے اُصول کی پاسداری ہے، یہ سیاست کو بددیانت لوگوں سے پاک کرنے کے دعوئوں کی نفی ہے اور دوست نوازی کی بدترین صورت، جس کی مرتکب وہ جماعت ہو رہی ہیں جس کے سربراہ نے عدالت عظمیٰ سے میاں نواز شریف کو اقامہ چھپانے پر تاحیات نااہل کرایا۔ میاں نواز شریف کے لئے ایک اُصول اور اپنے ساتھی کے لئے دوسرا پیمانہ؟ دوعملی اور موقع پرستی کے سوا کیا ہے؟
سیف اللہ ابڑو پر الزام ہے کہ وہ نیب کے ملزم ہیں اور چند ماہ پہلے تک پیپلز پارٹی کے جیالے تھے، کارکن انہیں جانتے ہیں نہ وہ پارٹی کے دیرینہ اور وفادار کارکن، حلیم عادل شیخ یا کسی دوسرے رہنما کو دامے درمے، سخنے راضی کر کے وہ تحریک انصاف میں دیوار پھلانگ کر شامل ہوئے اور سینٹ کی ٹکٹ کے حقدار ٹھہرے، سندھ کی تنظیم خوش نہ کارکن مطمئن۔ خیبر پختونخوا سے نجی اللہ خٹک اور فیصل سلیم صوبائی رہنمائوں کے چہیتے اور رشتے دار ہیں مگر پارٹی کے لئے ان کی خدمات کا خانہ بالکل خالی، شہرت ان کی اچھی نہیں اور آمدنی کے ذرائع مشکوک، تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو ان مالدار مگر بدنام افراد کو ٹکٹ دینے کی توجیہہ یہ کی جاتی تھی کہ حکمران جماعتوں مسلم لیگ(ن) و پیپلز پارٹی کے وسائل، اختیارات اور دبائو کا مقابلہ صرف ایسے ہی افراد کر سکتے ہیں یہی الیکٹ ایبلز ہیں اور انتخابی کامیابی کی شاہ کلید، مگر اب جبکہ عمران خان اقتدار میں ہیں اور اپوزیشن جان و مال بچانے کی تگ و دو میں مصروف، کارکن سوال کرتے ہیں کہ ان بدنام زمانہ افراد کو ایوان بالا میں لا بٹھانے کا جواز کیا ہے؟
پنجاب میں تحریک انصاف کے کارکن مایوسی کا شکار تھے کہ یہاں روایتی سیاست ہو رہی ہے اور مخلص کارکنوں کو کوئی پوچھتا نہیں، اعجاز چودھری، ڈاکٹر زرقا سہروردی اور عون عباس کو ٹکٹ دے کر عمران خان نے کارکنوں کی دلجوئی کی مگر عبدالقادرٹھیکیدار، فیصل واوڈا، سیف اللہ ابڑو، فیصل سلیم، نجی اللہ خٹک کو ٹکٹ دے کر تنقید کا در، وا کر دیا۔ پارٹی کارکنوں نے جرأت دکھائی، قیادت کی ناراضگی مول لے کر دولت مند اور بارسوخ امیدواروں کی مخالفت کی اور بعض وزراء کے اس خوشامدی بیانیے کو رد کر دیا کہ قیادت بہتر جانتی ہے وہ جو بھی غلط یا صحیح فیصلہ کرے کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو آمنا و صدقنا کہنا چاہیے، پی ٹی آئی کے انصاف پسند، جی دار کارکن داد کے مستحق ہیں، وہ آواز نہ اٹھاتے تو تحریک انصاف بھی دوسری پارٹیوں کی طرح طاقتوروں اور دولت مندوں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جاتی، کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے کارکن بھی اتنے ہی جی دار اور منہ پھٹ ہوا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو کے غلط فیصلوں کے سامنے ڈٹ جاتے، اسی باعث یہ پارٹی فوجی آمریت کے مقابلے میں ڈٹی رہی اور میاں نواز شریف بھی اس کا قلع قمع نہ کر سکے، آصف علی زرداری نے مخلص اور دیانتدار کارکنوں کو "بے نظیر کی باقیات" قرار دے کر سندھ، پنجاب اور دوسرے صوبوں کے وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نودولتیوں کو مسلط کیا تو یہ سندھ تک محدود ہو گئی، مسلم لیگ ن اور شریف خاندان نے سیاست میں سرمائے کا عمل دخل بڑھایا اور الیکشن کو مہنگا کیا مگر اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ مخلص، وفادار اور دیرینہ کارکنوں کی حوصلہ افزائی اس نے بھی کی، پرویز رشید، آصف سعید کرمانی، مشاہد اللہ خان، عرفان صدیقی اور کئی دیگر نمایاں مثال ہیں، تاہم یہ پارٹی قیادت کی اپنی صوابدید ہے مسلم لیگی کارکنوں نے کبھی شور مچایا نہ قیادت کے غلط فیصلوں کی ڈٹ کر مخالفت کی، تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرح مسلم لیگ ن کے کارکن بھی قیادت کے فیصلوں پر پہرہ دیتے تو شریف خاندان اور جماعت موجودہ بدترین صورتحال سے دوچار نہ ہوتے۔
سیاسی جماعتوں کو جمہوری ڈگر پر چلائے رکھنے اور قیادت کو آمرانہ رجحانات سے روکنے کی ذمہ داری کارکنوں پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر وہ سیاسی کارکن کے بجائے افراد اور خاندانوں کے زر خرید غلام اور جی حضوری بن جائیں تو صرف سیاسی جماعتیں اور منتخب حکومتیں ہی نہیں جمہوریت بھی بازیچہ اطفال بن جاتی ہے، اس قدر کمزور کہ کسی طالع آزما کے پائوں کی ٹھوکر سے چکنا چور ہونے میں دیر نہیں لگتی، 1958ء، 1977ء اور 1999ء میں ہم بچشم خود نظارہ کر چکے، سوال مگر یہ ہے کہ مرکزی قیادت کارکنوں کے شدید ردعمل کا انتظار کیوں کرتی ہے، ابتدائی فیصلہ ہی درست اور کارکنوں کی خواہشات کے مطابق کیوں نہیں؟