جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
کراچی میں مزار قائد پر سیاسی نعرے بازی، اندراج مقدمہ، کیپٹن صفدر کی گرفتاری، رہائی، مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی کی تلملاہٹ، بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے حُزینہ بیانات اور سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کی بغاوت پر مجھے اقبالؒ یاد آئے ؎
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
اقبالؒ صرف فلسفی اور شاعر نہ تھے، عملی سیاستدان اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم رہنما رہے، اس دور کی سیاست کا عملی مشاہدہ ان کے شعر سے جھلکتا ہے۔
مریم نواز شریف فاتحہ خوانی کے لیے مزار قائد پر حاضر ہوئیں، مسلم لیگ کی نائب صدر کایہ فرض تھا، بابائے قوم کے مزار پر حاضری کے کچھ آداب ہیں، کچھ قانونی تقاضے بھی، 1971ء میں اس حوالے سے قانون سازی ہوئی کہ مزار کے اندرونی حصے میں کوئی سیاسی سرگرمی ہو گی نہ ہلڑ بازی اور نہ کسی کو شور شرابا کرنے کی اجازت، ملکی اور غیر ملکی سربراہان ریاست و حکومت حاضری کے بعد میڈیا سے بات کرنا چاہیں تو باہر آ کر سیڑھیوں کے قریب اپنا یہ شوق پورا کرتے ہیں۔ سیاستدان جب انپے پرجوش پیروکاروں کے ساتھ مزار پر حاضری دیں تو وہ بھی اندرونی حصے میں احترام اور تقدس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ باہر البتہ ہلڑ بازی ماضی میں ہوتی رہی جس کا دفاع کسی نے کبھی نہیں کیا، مزار کی سکیورٹی فوج اور اس کے رینجرز جیسے ذیلی اداروں کے سپرد ہے اور مزار قائد و اقبال پر پاک فوج، بحریہ، فضائیہ اور رینجرز کا چاک و چوبند دستہ باری باری ڈیوٹی دیتا ہے۔ عرصہ دراز سے پولیس و انتظامیہ کی ناقص کارگزاری کے باعث کراچی میں رینجرز تعینات ہے اور سندھ حکومت ہر تین ماہ بعد وفاق سے اس کی تعیناتی کی درخواست کرتی ہے، گویا مزار کا تقدس بحال رکھنا رینجرز کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ مریم نواز صاحبہ فاتحہ خوانی سے فارغ ہوئیں تو کیپٹن صفدر کو نجانے کیا سوجھی، انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ، قائد ملّت لیاقت علی خانؒ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے مزارات کے اردگرد کھڑے کارکنوں کو ساتھ ملا کر نعرہ بازی شروع کر دی۔"ووٹ کو عزت دو" اور "مادر ملت زندہ باد" کے نعرے لگوائے۔
وقوعہ کے بعد مزار انتظامیہ نے پولیس سے رجوع کیا اور اندراج مقدمہ کی درخواست کی مگر پولیس نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر ایف آئی آر درج نہ کی اور علاقہ مجسٹریٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ اور دیگر رہنمائوں نے یقینا سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے ایک کارکن کو مدعی بنا کر نئی درخواست دائر کی، جسے وصول کرنے سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔ قائد اعظمؒ کے مزار کی بے حرمتی کے واقعہ پر مزار انتظامیہ اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں حتیٰ کہ ایک وزیر کی درخواست پر اندراج مقدمہ سے انکار کا سبب کیا تھا؟ کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں۔ کیا سندھ پولیس جس کی آزادی اور خود مختاری کو دو دن سے مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے رہنما سرخ سلام پیش کر رہے ہیں، بلاول ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس کے دبائو کا شکار تھی یا حالات کو ایک خاص رخ دینے اور کسی طے شدہ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں؟ یہ اہم سوال ہے۔ مراد علیشاہ کے بقول پولیس نے پی ٹی آئی کے دبائو پر ایف آئی آر درج کی اور وہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر قانوناً مجبور تھی تو معاملہ سیکٹر کمانڈر اور آئی جی کی طلبی تک کیوں اور کیسے پہنچا۔ رینجرز جب سے کراچی میں تعینات ہے، چیف سیکرٹری اور آئی جی کی رینجرز حکام سے ملاقاتیں معمول کی بات ہیں۔ کبھی کسی چیف سیکرٹری اور آئی جی نے توہین محسوس کی نہ اغوا ہونے کا ڈرامہ رچایا، دو رینجرز اہلکاروں کی آئی جی ہائوس آمد کو محاصرے اور اغوا کا نام صرف بلاول بھٹو ہی دے سکتے ہیں، جو اصول پسند اور غیرت مند آئی جی محاصرے اور اغوا کے افسوسناک واقعہ کی رپٹ درج کرتا ہے نہ دو اہلکاروں کے ساتھ جانے سے انکار کرتا ہے۔ جانے سے پہلے وزیر اعلیٰ کو آگاہ کرنے کا تکلف نہیں کرتا، وہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور وزیر اعلیٰ ہائوس میں ملاقاتوں کے بعد ضمیر کا بحران کا شکار ہو جاتا ہے اور درجنوں پولیس افسران اچانک کام کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ آئی جی سمیت ان افسروں کا ضمیر کبھی ام رباب کے خاندان کی ہلاکت پر جاگا نہ بلاول ہائوس میں طلبی اور ناروا احکامات کی وصولی پر اور نہ مزار قائد کی بے حرمتی پر انہیں شرم آئی کہ اگر مزار میں مدفون تینوں شخصیات کی جدوجہد رنگ نہ لاتی، تو ان میں سے اکثر کسی لالے کی منشی گیری کر رہے ہوتے۔
بلاول بھٹو کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر آزردہ تھے اور یہ تک کہہ گئے کہ شرم سے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ تھر میں معصوم بچوں کی بھوک پیاس اور بیماری کے ہاتھوں اموات پر یہ الفاظ کبھی سنے گئے نہ ایک پولیس افسر کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کی شہادت پر سندھ کے کسی حکمران اور برسراقتدار پارٹی کے رہنما کو اس قدر غصے کی حالت میں دیکھا گیا۔ خدانخواستہ ایسی ہی ہلڑ بازی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزار پر ہوتی تو بلاول بھٹو کیا کرتے؟ گزشتہ روز علامہ اقبالؒ کے پوتے سینیٹر ولید اقبال نے ٹی وی شو میں یہ بات کہی تو عاجز دھامرہ ساری عاجزی بھول کر گالم گلوچ پر اتر آئے۔ گویا بھٹو خاندان اور شریف خاندان قائد اعظم سے برتر ہے۔ یہ کیپٹن صفدر کی بے عزتی کا معاملہ ہے نہ سندھ پولیس کے دائرہ اختیار میں مداخلت اور رینجرز کی طرف سے کسی غیر قانونی اقدام کا شاخسانہ۔
اگر واقعات بلاول اور مریم کے بیان کردہ انداز میں نہیں ہوئے، جان لیجیے کہ زرداری خاندان کے وفادار اور سندھ حکومت کے پروردہ پولیس افسران نے طے شدہ سیاسی سکرپٹ کو آگے بڑھایا۔ میاں نواز شریف کے STATE ABOVE STATEکے بیانیے کو تقویت پہنچائی اور یہ تاثر پختہ کیا کہ واقعی سندھ میں اصل حکمرانی وزیر اعلیٰ کی نہیں، حکم پولیس و انتظامیہ کا نہیں چلتا بلکہ فوج اور اس کے ذیلی ادارے من مانی کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے۔ بلاول بھٹو اور ان کے والد محترم نے اپنے وفادار پولیس افسروں کے ذریعے اس بیانیے کو آگے بڑھا کر ریاست، حکومت اور فوج کو یہ پیغام دیا کہ اگر مسلم لیگ(ن) اور میاں نواز شریف کی جگہ انہیں نہ ملی تو وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی پرانی دھمکی پر عمل کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے ایسی ہی حکمت عملی اپنائی تھی، سیاست زدہ پولیس اور بیورو کریسی اپنے آقائوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ جمہوریت پسند اور سول بالادستی کے علمبردار بلاول بھٹو نے تلافی مافات کا مطالبہ آرمی چیف سے کیا، وزیر اعظم سے نہیں جو آئینی اور قانونی طور پر رینجرز کے پاس ہے اور پی ڈی ایم کے رہنمائوں کے بقول ملک میں ہونے والی ہر برائی کا ذمہ دار۔"ووٹ کو عزت دو" کے نام پر ملک میں خطرناک کھیل کا آغاز ہو گیا ہے۔ بھارتی میڈیا دیکھ کر بہت سی باتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ معلوم نہیں ہمارے فیصلہ سازوں کو بھی اس کا احساس ہے یا نہیں؟
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک