اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
بالآخر پی ٹی آئی حکومت کا ایک مالیاتی سکینڈل آ ہی گیا، لاہور رنگ روڈ منصوبے میں ردوبدل کی کوشش اگرچہ عمران خان نے ناکام بنا دی، صوبائی وزیر اسد کھوکھر، صوبائی سیکرٹری سروسز شعیب اکبر، کمشنر لاہور آصف بلال لودھی اِدھر اُدھر ہو گئے مگر منصوبے میں ردوبدل کے اصل کردار بچ گئے شائد عمران خان کو جُل دینا آسان ہے اور بندر کی بلا طویلے کے سر ڈال کر اصل کرداروں کو بچا لینا یار لوگوں کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل۔ ورنہ توقع یہ تھی کہ اربوں روپے کی اس واردات میں ملوث تمام کرداروں کو سزا دیے بغیر عمران خان لاہور سے بنی گالہ واپس نہیں جائیں گے۔
لاہور رنگ روڈ کا منصوبہ 1990ء کی دہائی میں بنا تھا، میاں شہباز شریف کے پہلے دور حکمرانی میں اس پر کچھ کام ہوا مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ٹھپ ہو گیا، جتنے عرصے سے لاہور رنگ روڈ کے منصوبے پر زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے اتنے عرصے میں دنیا کے کئی بڑے شہروں میں دو دو تین تین رنگ روڈز مکمل ہو چکی ہیں تاخیر کی وجہ حکمرانوں اور بیورو کریٹس کی کرپشن، نااہلی اور عوام کو درپیش مشکلات سے لاتعلقی ہے۔ رنگ روڈ کی تکمیل سے لاہور کے شہری سکھ کا سانس لیں گے مگر ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریٹس نے یہ کب چاہا؟ ۔ رنگ روڈ منصوبہ میں تاخیر کی اہم ترین وجہ شہر کے مختلف حصوں میں پراپرٹی مافیا کے مفادات اور پراپرٹی مافیا کے وظیفہ خوار سیاستدانوں و بیورو کریٹس کی ہوس زر ہے۔ سدرن لوپ یعنی اڈہ پلاٹ سے ملتان روڈ براستہ بحریہ ٹائون کا حصہ دس ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونا ہے اور چند ہفتے قبل عمران خان کی موجودگی میں این ایل سی نے اس کی تکمیل کے معاہدے پر دستخط کئے مگر یار لوگوں کی خواہش ہے کہ مجوزہ روٹ میں ردوبدل سے وہ بھی دوچار ارب روپے کما لیں، بھلے منصوبے کی لاگت دس بیس ارب روپے بڑھ جائے اور نو ماہ کے بجائے یہ دو تین سالمیں مکمل ہو، ان کی بلا سے، شائد پشاور کے بی آر ٹی منصوبے سے انہیں یہ ترغیب ملی جو مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا مگر عمران خان نے آج تک خیبر پختونخوا حکومت سے باز پرس کی اور نہ کسی ذمہ دار کے خلاف کارروائی ہوئی، لاہور رنگ روڈ منصوبے سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کا بھی خیال ہو گا کہ رنگ روڈ منصوبے میں سال دو سال کی تاخیر اور لاگت میں دس بیس ارب اضافے سے اگر کسی کے اندرون و بیرون ملک بنک اکائونٹ میں اضافہ ہو جائے، کسی کے اگلے الیکشن کا خرچہ نکل آئے اور اڈہ پلاٹ سے ملتان روڈ کے درمیان واقع رہائشی سکیموں کے فیاض، شاہ خرچ غریب نواز مالکان کے دست سخا سے کسی کی اگلی نسلوں کا مستقبل سنور جائے تو بھلا عمران خان کا کیا جاتا ہے، وہ کون سے بی آر ٹی، رنگ روڈ اور ایسے دیگر تعمیراتی منصوبوں کے بل بوتے پر ووٹ لینے کے قائل ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ اسد کھوکھر کے استعفے اور آصف بلال لودھی و شعیب اکبر کے تبادلے سے رنگ روڈ منصوبے میں ردوبدل کا سکینڈل اپنی موت آپ مر گیا اور عمران خان مطمئن ہیں کہ اس مالیاتی سکینڈل کے تمام کرداروں کو واقعی کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔ بوجوہ قومی ذرائع ابلاغ اس سکینڈل کو لفٹ کرا رہے ہیں نہ اپوزیشن کچھ بولنے کو تیار، مگر یہ سکینڈل اب دبنے والا نہیں۔ قیاس آرائیاں اور افواہیں جنم لے رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر کئی نام گردش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے لاہور میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو تھپکی دے کر اپنے طور پر صوبے میں تبدیلی کی قیاس آرائیوں کا خاتمہ کیا، لیکن رنگ روڈ سکینڈل سامنے آنے پر یار لوگوں کو افواہوں کا بازار گرم کرنے کا موقعمل گیا اور اب وہ کسی نہ کسی بہانے راجہ بشارت کی سربراہی میں کمیٹی کے قیام کا ذمہ دار سردار عثمان بزدار اور ان کے پسندیدہ بیورو کریٹ طاہر خورشید کو قرار دے رہے ہیں۔ ایک اینکر نے سوشل میڈیا پر ویڈیو لاگ چلایا جس میں سارا ملبہ وزیر اعلیٰ پر ڈال دیا مگرتاحال تردید کسی نے نہیں کی۔ تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ عمران خان کا جی سردار عثمان بزدار سے بھرا نہیں، چودھری صاحبان ان سے خورسند ہیں، اپوزیشن اور میڈیا کے منہ بند ہیں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں فائلوں سے نکل کر میڈیا منڈی کی زینت بننا شروع نہیں ہوئیں۔ لیکن حکومتیں خوش قسمتی کے بل بوتے پر نہیں، کارکردگی پر چلتی ہیں اور مالیاتی سکینڈل ہر بار دبتے ہیں نہ قربانی کے بکرے ہمیشہ آئی بلا کو ٹالتے ہیں۔
عمران خان کی شہرت یہی ہے کہ وہ کرپشن کو برداشت کرتا ہے نہ کرپٹ لوگوں کو معاف، لاہور رنگ روڈ سکینڈل کی پرتیں ابھی کھلیں نہیں، اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ اسد کھوکھر اور آصف بلال لودھی کو قربانی کا بکرا بنا کر پردہ نشیں بچ گئے تو یہ پھر کوئی نئی اور بڑی واردات کریں گے، ممکن ہے کھایا پیا ہضم کرنے کے لئے کسی نہ کسی بہانے رنگ روڈ منصوبے کو التوا میں ڈال دیں، مگر بالآخر یہ مالیاتی سکینڈل عمران خان کے گلے کا طوق بن سکتا ہے کہ بات منہ سے نکل کر کوٹھے چڑھ چکی ہے۔ لاہور کے باخبر حلقوں میں زیر بحث ہے وزیر اعظم پاکستان جس منصوبے کی رسمی تقریب میں مہمان خصوصی ہوں، جلد از جلد تکمیل کے احکامات جاری کریں، وہ اگر نچلی سطح پر نظرثانی کی بھینٹ چڑھ کر التوا کا شکار ہو جائے، سرکاری اہلکاروں کو کام سے روک دیا جائے اور اربوں روپے کے لین دین کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں تو دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بھی بہت کچھ درج ہو گا پھر بھی پردہ نشین بچ جائیں اور نزلہ دو بیورو کریٹس، ایک وزیر پر گرے توانگلیاں اس پر اُٹھیں گی جس کے کھونٹے پر اس سکینڈل کے اہم کردار ناچ رہے ہیں، جس کے سبب پردہ نشینوں کا کلّہ مضبوط ہے۔