Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Ahmad Arif
  3. Is Qadar Iztirab?

Is Qadar Iztirab?

اس قدر اضطراب؟

براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ، یکطرفہ منسوخی اور عدالتی فیصلے پر کروڑوں ڈالر جرمانہ کی ادائیگی ماضی کا قصہ ہے مگر طشت ازبام ہونے کے بعد پاکستان میں بھونچال آ گیا ہے، کیوے موساوی کے ایک انٹرویو کے بعد حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ اپوزیشن نے کی مگر حکومت کا جوابی حملہ کارگر رہا اور اب مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی دفاعی پوزیشن پر ہے، براڈشیٹ معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی کی تشکیل اور اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے سابق نیک نام جج شیخ عظمت سعید کو سونپنے کے اعلان پر نیب کے زخم خوردہ مردوزن ہی نوحہ کناں نہیں کچھ صحافی اور تجزیہ کار بھی پریشان ہیں، تحقیقاتی کمیٹی عدالت ہے نہ کسی کے خلاف کارروائی کی مجاز، اس کا کام صرف اور صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی دولت لوٹنے والے سیاستدانوں اور سابق حکمرانوں کے علاوہ ان کے مددگاروں کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگانے کے لئے براڈشیٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ قانونی تقاضوں کے مطابق نیک نیتی سے ہوا یا کسی فرد نے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک فراڈ کمپنی کو یہ فرض سونپا؟ کیا پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے اثاثوں کا سراغ لگانے والی کمپنی سے مشن طلب کیا یا نہیں؟ معاہدے کی یکطرفہ تنسیخ کے محرکات کیا تھے؟ براڈشیٹ کمپنی نے برطانوی عدالت سے رجوع کیا تو نیب اور دیگر سرکاری اداروں نے پاکستان کا مقدمہ درست انداز میں لڑا یا قومی مفادات کو نقصان پہنچایا؟ اور جب فیصلہ برخلاف آیا تو اپیل میں تاخیر کیوں کی گئی؟ موجودہ حکومت کے دور میں جو کروڑوں روپے ادا ہوئے تحقیقاتی کمیٹی اس کا جائزہ بھی لے گی کہ ادائیگی کو مزید موخر کرنا ممکن تھا یا نہیں؟

کمیٹی حکومت نے اپنی مرضی سے اور آئینی و قانونی طور پر حاصل اختیارات کے تحت قائم کی ہے۔ وزیر اعظم چاہتے تو کمیٹی کا سربراہ اپنے کسی وزیر، مشیر یا قابل اعتماد بیورو کریٹ کو بھی لگا سکتے تھے اور ارکان کا تقرر بھی مرضی سے کر دیتے، یہ ماضی کی پختہ روایت ہے، قانونی اختیار اور مروجہ طریق کار؟ اپوزیشن سے مشورے کی ضرورت نہ کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کے تقرر کی احتیاج، ماضی کی ایک حکومت نے بیرونی سراغ رساں کمپنی سے معاہدہ کیا، کچھ عرصہ بعد منسوخ کر ڈالا اور پھر جب اس کمیٹی نے برطانوی عدالت سے رجوع کیا تو پرویز مشرف کی فوجی اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ (ن) کیجمہوری حکومتوں کے علاوہ نیب نے اس کی درست انداز میں پیروی نہ کی، بھاری جرمانہ کرا ڈالا۔ مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور بلاول بھٹو، نیئر بخاری سمیت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے جن رہنمائوں کو حکومت کی قائم کردہ تحقیقاتی انکوائری پر اعتراض ہے انہیں سب سے پہلے قوم کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ اپنے دور اقتدار میں ان کی رگ حمیت کیوں نہ پھڑکی؟ اس کمیٹی سے مذاکرات کر کے انہوں نے قومی عزت اور ملکی دولت بچانے کی تدبیر کیوں نہ فرمائی اور ہمارے جو صحافی و تجزیہ کار دوست اس وقت تلملا رہے ہیں وہ 2003ء سے 2018ء تک مجرمانہ چپ کیوں سادھے رہے؟ پاکستان کے وسائل کی لوٹ مارپر بولے نہ بیرون ملک جائیدادوں کی خرید پر معترض ہوئے اور نہ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے جاری ہونے والے این آر او کے تحت براڈشیٹ معاہدے کی تنسیخ پر انہیں ذرا بھر تکلیف ہوئی۔ گویا پاکستان کی دولت لوٹ کر بیرون ملک سرے محل اور ایون فیلڈ ہائوس کی خریداری بھی تقاضائے جمہوریت تھا اور لٹیرے خاندانوں کا پیدائش حق۔

تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے، عین اسی طرح جس طرح ماڈل ٹائون سانحہ پر اس وقت کی حکومت نے اپنی مرضی سے جے آئی ٹی تشکیل دی اور جوڈیشل کمشن قائم کیا اور اس کی رپورٹ پر عملدرآمد سے انکار کر دیا۔ متاثرین کے اعتراضات کو پرکاہ کے برابر اہمیت دی نہ شہدا کے وارثوں کی چیخ و پکار پر کان دھرے، یہ بے چارے آج تک حصول انصاف کے لئے عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں اور عمران خان کی حکومت نے جو نئی جے آئی ٹی بنائی تھی وہ بھی عدالتی حکم امتناعی کے باعث معطل، مفلوج ہے ؎

نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا

یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہو

پندرہ بے گناہ انسانوں کے قتل پر مجرمانہ خاموشی کے مرتکب گونگے شیطانوں کی براڈشیٹ معاہدہ کی تحقیقات کے لئے قائم کمیٹی اور شیخ عظمت سعید کی سربراہی پر پرجوش نکتہ چینی اور اضطراب پر دکھ سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ اقبال و قائد کے خوابوں کی تعبیر مملکت خدا دادمیں عام شہریوں کی جان سے بھی زیادہ قیمتی حکمران خاندانوں کا مال حرام ہے جس کے تحفظ کے لئے ہم اتائولے نظر آتے ہیں اور دور دراز کی کوڑیاں لا کر تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالتے، تحقیقاتی عمل کی ساکھ مجروح کرتے ہیں ؎

وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا

کمیٹی کا فرض صرف براڈشیٹ کے معاہدے، یکطرفہ تنسیخ، کمیٹی کے سربراہ سے کمشن طلبی، مقدمے کی ناقص پیروی اور ہرجانے کی ادائیگی کے ذمہ داروں کا تعین ہے، اگر کمیٹی کی حتمی رپورٹ سے کسی شخص کو خواہ مخواہ پھنسانے یا بچانے کا تاثر ملے تو سیاستدانوں اور اہل دانش کو اعتراض کا حق حاصل ہے، متاثرہ فریق عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں اور میڈیا مہم بھی چلائی جا سکتی ہے مگر تشکیل اور سربراہی پر اعتراض چور کی داڑھی میں تنکے کے سوا کچھ نہیں، اگر شیخ عظمت سعید نیب سے وابستہ رہے یا وہ پانامہ بنچ کے رکن تھے تو یہ ڈس کوالیفکیشن نہیں، کوالیفکیشن ہے کہ لوٹ مار کے معاملات سے واقف ہیں اور ان کا تجربہ تحقیقات میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ پانامہ میں جو لوگ سزا یاب ہوئے وہ آج تک اپنے دفاع میں کوئی ثبوت لا سکے نہ ڈھنگ کی دلیل جو کسی غیر جانبدار، دیانتدار اور باکردار شہری کو مطمئن کر سکے۔ شیخ عظمت سعید کا اصل قصور یہ ہے کہ انہوں نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سیسلین مافیا کا لفظ استعمال کیا، حالات اور وقت نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے میں "ڈان" اور شیخ عظمت سعید کے ریمارکس میں سیسلین مافیا کی اصطلاح کو سوفیصد درست ثابت کیا، جن لوگوں کو ابتدا میں ان الفاظ پر تعجب ہوا، بعد میں وہ بھی دونوں ججوں کی باریک بینی اور دور اندیشی کے قائل نظر آئے، قومی دولت لوٹ کر نظام عدل و انصاف، ریاستی اداروں اور میڈیا کو "ماموں "بنانے اور پانامہ کے بجائے اقامہ کی گردان سے عقل کے اندھوں کی ہمدردیاں سمیٹنے والے ڈان اور سیسلین مافیا کے علاوہ ان کے پیروکاروں کا شیخ عظمت سعید پر اعتراض کسی اصول ضابطے، جج پر شکوک یا دیانت و امانت کی بنا پر نہیں محض اور محض رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا آئینہ دار ہے۔ آج ہی نیب کا چیئرمین سیف الرحمن اور تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ جسٹس (ر) قیوم ملک کومقرر کر دیا جائے، سارے اعتراضات چشم زدن میں ختم، لندن ہائی کورٹ کا فیصلہ پبلک کرنے اور تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل دینے کے بعداس قدر اضطراب؟ کہیں واقعی کوئی پانامہ ٹو تو جنم نہیں لے رہا؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

Check Also

Riyasat Ba Muqabla Imran Khan Aur Do Number Inqelabi

By Nusrat Javed