ابلیسی چال
25جولائی کی تاریخ مقدس ہے مگر آئین، قانون، عوامی مفاد، قومی امنگیں؟ پاکستانی آئین مقررہ مدت میں مردم شماری کا تقاضا کرتا ہے مگر برس ہا برس تک مردم شماری نہ ہوئی۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور کسی دوسری سیاسی جماعت اور رضا ربانی، فواد چودھری جیسوں کو کبھی آئین کی تقدیس کا مروڑ نہ اُٹھا۔ عدالتی حکم پر مردم شماری کرانا پڑی تو اس کے حتمی نتائج کا انتظار کیے بغیر آئین میں ترمیم کر کے عبوری نتائج پر حلقہ بندی شروع کر دی، کسی کو یاد نہ رہا کہ یہ سکھا شاہی سیاسی جماعتوں اور ان کی نمائندہ پارلیمنٹ میں تو چل سکتی ہے جب قانون پسند شہریوں نے دروازہ کھٹکھٹایا توعدالتیں آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کریں گی اور انتخابی شیڈول متاثر ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے تاحیات نااہل صدر کو عدالتی فیصلے کے برعکس دوبارہ اپنے سر پر مسلط کرنا چاہا اور نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کے ساتھ ختم نبوت کے قوانین میں چھیڑ چھاڑ کی، نامزدگی فارم سے ہر وہ شق نکال دی جس سے بد کردار لٹیرے، رسہ گیر، قرض خور، ٹیکس چور، نادہندگان اور کاذب و خائن پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہل قرار پاتے تھے، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ارکان بھنگ پی کر سوتے رہے، کسی نے شور نہیں مچایا کہ آپ الیکشن کمشن کا اختیار سلب یا جرائم پیشہ افراد کی رکنیت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ختم نبوت کے قوانین سے چھیڑ چھاڑ پر علامہ خادم حسین رضوی بروئے کار آئے اور حکومت کو اپنا تھوکا چاٹنا پڑا، پارلیمنٹ، جمہوریت اور رٹ آف سٹیٹ کی دہائی دے کر مسلم لیگی حکومت نے جان چھڑانے کی تدبیر بہت کی مگر تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ رسوائی حکومت کا مقدر بنی اور وہ ساری شقیں بحال ہو گئیں جن کا مقصد آئین کی متفقہ ترمیم کو غیر موثر کرنا تھا۔ نامزدگی فارم میں تبدیلی کا مقصد ہر قومی مجرم کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے چوپٹ کھولنا اور آئین کے آرٹیکل 62، 63کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم کو لوٹنے، ملک میں جھوٹ فریب، جعلسازی اور قومی وسائل کی بندر بانٹ کا کلچر عام کرنے والوں کو ایک بار پھر اقتدار میں لانے کی سازش ہے۔ الیکشن کمشن کا فرض تھا کہ وہ اس واردات پر انگڑائی لیتا، خلاف آئین قانون سازی اور اپنے اختیارات پر ڈاکے کے خلاف عدالت عالیہ کا رخ کرتا مگر اس نے شریک جرم کا کردار ادا کیا۔ ہمارے صحافی دوست حبیب اکرم نے ہمت کی، عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور جسٹس عائشہ اے ملک نے اندرونی اور بیرونی دبائو کی پروا نہ کرتے ہوئے آئین کی اس کھلی خلاف ورزی کا نوٹس لیتے ہوئے متناز عہ نامزدگی فارمز کی جگہ نیا نامزدگی فارم تیار کرنے کا حکم دیدیا۔ اس فیصلے کی سب سے زیادہ خوشی الیکشن کمشن کو ہونی چاہیے تھی اور تحریک انصاف کو، مگر دونوں کے چہرے مر جھا گئے اور ایک طرف فواد چودھری کو فیصلے سے تکلیف پہنچی، دوسری طرف الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا۔ رضا ربانی کو اپنے قائد بلاول بھٹو کی طرح یہ فیصلہ انتخابات کے التوا کا پیش خیمہ نظر آیا اور انہوں نے چیئرمین سینٹ سے خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا، جب مردم شماری میں تاخیر ہوئی، فاٹا کے انضمام کو ٹالا جاتا رہا اور اس وقت انضمام کی منظوری دی گئی جب فاٹا میں حلقہ بندی ممکن تھی نہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں فاٹا عوام کی نمائندگی، رضا ربانی سمیت جمہوریت کے سارے مامے چاچے خاموش رہے۔ انتخابات کے لیے تاریخ وہ منتخب کی گئی جب ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ووٹر فریضہ حج کی ادائیگی میں مصروف، گرمی، سیلاب اور بارشوں سے ملک کے بعض حصے مفلوج اور ووٹر پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے سے معذور ہوں گے مگر کسی جمہوریت پسند کو ان غریبوں کا خیال نہ آیا کیونکہ ان کی ترجیح عوام یا ووٹر نہیں وہ جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ دار اور لٹیرے ہیں جنہیں دوبارہ اسمبلیوں میں پہنچنے اور قومی وسائل خرد برد کرنے کی جلدی ہے۔ کچھ بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی حالات چندے عدالتوں اور قومی اداروں کی فعالیت اورقدرے عمران خان کی جدوجہد سے عوام بالخصوص نوجوان نسل کو یہ حوصلہ ملا کہ شائد 2018کے انتخابات تبدیلی کا پیش خیمہ ہوں۔ ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کاغذات نامزدگی کی منظوری کے مرحلہ پر انتخابی عمل سے آئوٹ کر دیے جائیں اور عوام دوست، قوم و ریاست کے حقیقی خیر خواہ اور صاحب بصیرت افراد پر مشتمل پارلیمنٹ وجود میں آئے۔ ایسے باشعور افراد جو کھلی آنکھوں سے قانون سازی کریں اور چند افراد یا خاندانوں کے بجائے ریاست و آئین کے وفادار ہوں۔ انگوٹھا چھاپ اور شخصیت پرست سیاستدانوں نے ملک و قوم کا مستقبل مخدوش کر دیا ہے اور عوام کا جینا محال۔ مگر گزشتہ روز سیاسی جماعتوں، الیکشن کمشن اور شکم پرور، ضمیر فروش دانشوروں کا ردعمل دیکھ کر عوام کی توقعات اور امیدوں پرپانی پھرتا نظر آ رہا ہے الیکشن کمشن اپنے ہی اختیارات واپس ملنے پر پریشان ہے اور پارلیمانی جمہوریت کے علمبردار اصلاحات سے خوفزدہ۔ ؎اتنے مانوس صیاد سے ہو گئےاب رہائی ملے گی تو مر جائیں گےکیا ہم بنی اسرائیل کی طرح من و سلویٰ تازہ تیتر بٹیر، مرغابی کے پکوانوں کی جگہ گلے سڑے پیاز، لہسن اورباسی دال کے طلب گار ہیں اور حیلہ جوئی میں قوم موسیٰ کو مات دینے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو ہر ایسے قانون، ضابطے سے جان چھڑانے کے درپے کیوں ہیں جو آئین کی روح عوام کی خواہشات اور تمنائوں کے مطابق، مگر حرام خور، سنگدل و سفاک اشرافیہ کے مفادات کے منافی ہے۔ آئین کہتا ہے دیانتدار، صادق، امین اور با صلاحیت افراد قوم کی نمائندگی کریں، نواز شریف، آصف زرداری اور اقتدار کو پیدائشی حق سمجھنے والے دیگر رہنما مگر بضد ہیں کہ نہیں ہر کاذب، خائن، نااہل اور حرام خور کو پارلیمنٹ میں پہنچ کر قومی وسائل لوٹنے کا حق ہے۔ آئین کے مطابق شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور عوامی امنگوں کے مطابق انتخابات ہونے چاہئیں، حلقہ بندی میں گڑ بڑ ہو نہ نامزدگی فارم میں آئینی تقاضوں کی پامالی اور نہ جانچ پڑتال میں کسی قسم کی رکاوٹ مگر الیکشن کمشن اور سیاسی مافیا کا اصرار ہے نہیں 25جولائی کی تاریخ مقدس ہے، اس پر آئین، قانون، عوامی مفاد، سب قربان۔ گویا سیاسی مافیا اب بھی آئین، عدلیہ، قومی اداروں اور عوامی خواہشات سے زیادہ طاقتور ہے اور احتساب کا عمل مکمل جانچ پڑتال کے تقاضے پورے کیے بغیر الیکشن کرا دیے جائیں گے، قوم کے مزید پانچ سال ضائع اور ملک کا مقدر مخدوش کرنا مقصود ہے کیا؟ 1997ء میں سردار فاروق احمد خان لغاری، جسٹس سجاد علی شاہ اور جنرل جہانگیر کرامت کو یہ موقع ملا۔ قوم احتساب کی منتظر تھی ملک معراج خالد چیختے چلاتے رہے مگر امریکہ کے اشارے اور نواز شریف کے دبائو پر، در بدر آزاد انتخابات کرائے گئے۔ فاروق لغاری بتایا کرتے تھے کہ فوج کے جونیئر اور سینئر افسر بلا امتیاز احتساب کے حق میں تھے مگر میں نے جہانگیر کرامت سے مل کر انہیں احتساب کو بالائے طاق رکھ کر بروقت انتخاب پر راضی کیا، نواز شریف کی راہ ہموار کی۔ اللہ تعالیٰ نے عوامی خواہش کے برعکس احتساب کا عمل سبوتاژ کرنے والے تمام کرداروں کو بالآخر رسوا کیا، کوئی بھی عزت و آبرو کے ساتھ اپنی مدت پوری نہ کر سکا، اب ایک بار پھر جسٹس ناصر الملک، چیف جسٹس ثاقب نثار، چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ سیاست، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد سے پاک اور جدید دور کی شفاف جمہوریت کو پروان چڑھانے کی عوامی خواہش کے راستے میں موجود ہر رکاوٹ کو دور کریں۔ 25جولائی کے بجائے مقدس صرف ملک، قوم، آئین اور اپنے حلف کو جانیں تاکہ یہ ملک واقعی ترقی و خوشحالی اورجمہوری استحکام کی منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کے فیصلے نے راستہ ہموار کیا ہے مگر سیاسی مافیا قوم کی منزل کھوٹی کرنا چاہتا ہے۔ مردم شماری اور فاٹا انضمام میں تاخیر، خلاف آئین نامزدگی فارم کی منظوری اور حلقہ بندیوں میں نقائص مسلم لیگ (ن) کا جرم ہے الیکشن میں تاخیر اسی سبب ہے تو ذمہ دار وہ ہے سزا قوم کو کیوں ملے؟ جرائم پیشہ افراد فائدہ کیوں اٹھائیں؟ عام انتخابات کا بروقت نہیں، شفاف اور آزادانہ انعقاد آئین کا تقاضا ہے۔ گھڑی، گاڑی، موبائل فون اور ٹی وی سیٹ ہم 2018ء ماڈل کا پسند کرتے ہیں مگر ملک میں صدیوں پرانا ناقص، ازکار رفتہ عوام دشمن اور بے فیض و بے کار سیاسی و جمہوری ڈھانچہ مسلط رکھنے کے لیے بضد۔ یہ ابلیسی سوچ کب ختم ہو گی۔؟ عمران خان تو کم از کم اس جال میں نہ پھنسے۔