دیر لگی آنے میں تم کو
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!اک برہمن نے کہا ہے کہ، یہ سال اچھا ہےاچانک میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کر لیا۔ سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) ناصر الملک ملک کے نگران وزیر اعظم بن گئے اور عمران خان مرحبا پکار اُٹھے۔ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے دو اہم اجزا فوج اور عدلیہ پر نقد و جرح کے تیر برسانے والے سیاستدانوں نے ایک بار پھر مان لیا کہ چیئرمین نیب، چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیر اعظم کے لیے موزوں امیدوار کی تلاش میں نکلیں تو نظر عدلیہ پہ ٹکتی ہے، کسی دوسرے شعبے کا فرد اس قابل نہیں کہ نامزدگی پر اتفاق ہوعدلیہ پر تبرا کرنے والوں سے کون کہے کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ شنید یہی تھی کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تجربے کے بعد میاں نواز شریف کسی سابق جج پر راضی نہیں۔ انہیں قمر الزماں چودھری یا نجم سیٹھی جیسا ہیرا درکار تھا مگر اتفاق بالآخر ایک سابق جج پر ہوا، جج بھی وہ جس کے بارے میں ایک بہادر آدمی چار سال سے کہتا چلا آ رہا ہے کہ عمران خان اس کے ذریعے میاں نواز شریف کی ایوان اقتدار سے رخصتی کا خواہش مند تھا اور جوڈیشل کمشن کی تشکیل بنیادی طور پر جمہویرت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی سازش تھی۔ میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے جسٹس (ر) ناصر الملک پر اتفاق کے ذریعے اس سازشی کہانی کو کوڑے دان میں ڈال دیا اور ایک لحاظ سے جوڈیشل کمشن کی اس رائے سے بھی اتفاق کر لیا کہ 2014ء کے انتخابات میں بے حد و حساب بے ضابطگیاں ہوئیں، ووٹ کا تقدس مجروح ہوا اور اپوزیشن کے الزامات درست ہیں اور عمران خان نے بھی مان لیا کہ منظم دھاندلی کا منصوبہ نہ تھا۔ جسٹس (ر) ناصر الملک عنان اقتدار اس وقت سنبھال رہے ہیں جب ملک کی اقتصادی و معاشی حالت دگرگوں ہے مسلم لیگی حکومت کی نااہلی، کرپشن اور اقربا پروری کے باعث پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ پیپلز پارٹی نے حکومت چھوڑی تو سرکلر ڈیٹ چار سو اسی ارب روپے تھا جو اب ایک ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے آئی ایم ایف کے قرضے کی قسطیں ادا کرنے کے لیے مزید قرض کی ضرورت ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان بلیک لسٹ ہو سکتا ہے اور امریکہ و بھارت نے مل کر ایسی فضا بنائی ہے کہ دہشت گردی کی شکار ریاست دہشت گردوں کی سرپرست سمجھی جا رہی ہے جبکہ اندرون ملک میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات آخری مراحل میں ہیں۔ نئی حکومت کو چومکھی لڑنی ہے۔ احتساب کے عمل میں عدلیہ اور نیب کو اس کی پشت پناہی درکار ہے تاکہ عوام کی خواہش اور آئین و قانون کے مطابق یہ عمل جاری و ساری رہے اور عدالتی فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عام انتخابات کو سبو تاژ کرنے کے لیے بیرونی مداخلت ہو سکتی ہے یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ نگران حکومت غیر ملکی مداخلت اور اندرونی سطح پر گڑ بڑ کو روکنے کے لیے کیا حکمت عملی وضع کرتی ہے اس کا زیادہ تر دارو مدار جج صاحب کے عزم و ارادے اور کابینہ کی صلاحیت پر ہو گا۔ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے بننے والے جوڈیشل کمشن کے سربراہ کے طور پر وہ الیکشن کمشن کی کمزوریوں، آر، اوز کے طرز عمل اور طاقتور سیاسی دھڑوں کے اثرو رسوخ کے علاوہ انتظامیہ کی جانبداری اور دھاندلی روکنے کے لیے مجوزہ اقدامات سے بخوبی آگاہ ہیں اپنے تجربے کو بروئے کار لا کر شفاف اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تاکہ کوئی دھاندلی کا الزام نہ لگا سکے۔ ملک کو اقتصادی و معاشی بحران سے نکالنے کے لیے انہیں تجربہ کار اور صاحب بصیرت ٹیم کی ضرورت ہو گی اور موجودہ حکومت اُن کے راستے میں جو کانٹے بکھیر کر جا رہی ہے انہیں چننا مشکل عمل۔ رہا عالمی دبائو اور اندرون ملک امریکہ و بھارت کے گماشتہ عناصر کی ریشہ دوانیوں سے نمٹنا تو اس ضمن میں انہیں ہر طرح کی مصلحتوں اور مخالفانہ پروپیگنڈے کی پروا کیے بغیر آگے بڑھنا ہو گا۔ دودھ میں میگنیاں ڈالنے اور ہر معاملے کا تاریک پہلو دیکھنے کے شوقین بعض دانشور ابھی سے یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے احتساب کے عمل اور عدالتی فعالیت کو سست کرنے کے لیے بعض یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد جسٹس (ر) ناصر الملک کو نامزدکیا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرح عدالتی احکامات کی پروا کریں گے نہ نیب کی سفارشات پر عمل پیرا ہوں گے اور سزائیں ملنے پر شریف خاندان سے نرمی برتیں گے۔ ایک نیک نام، عزت دار اور اصول پسند شخص کے طور پر ناصر الملک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ آصف علی زرداری کے یوسف رضا گیلانی یا میاں نواز شریف کے شاہد خاقان عباسی بن کر اپنے نام اور شہرت کو بٹہ لگائیں گے وہ آخر محمد خان جونیجو کیوں نہ بنیں جو اپنے مربی ضیاء الحق کے بجائے ریاست کی وفاداری اور حلف کی پاسداری کا استعارہ ہیں۔ جسٹس (ر)جاوید اقبال کی مثال اُن کے سامنے ہے جو نامزد تو نواز شریف اور آصف زرداری کی مرضی سے ہوئے مگر منصبی تقاضے وہ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے نبھا رہے ہیں۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی خواہش بیدار ہے اور بعض سیاسی شخصیات اور انکے اندھے پیروکاروں کے برعکس قومی ادارے اس خواہش کی تکمیل چاہتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور چیف آف آرمی سٹاف کے اقدامات اور فیصلوں سے یہی خواہش جھلکتی ہے کہ ملک میں ادارے مضبوط ہوں، قانون کی حکمرانی ہو اور محروم و مظلوم عوام کو عدل و انصاف، روزگار اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں اپنا حق ملے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے خلاف کورٹ آف انکوائری کا حکم اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی ہدایت اسی سلسلے کی کڑی ہے جبکہ شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے نیب کی بار بار درخواست کے باوجود کسی ملزم کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا حالانکہ ان کے جرائم کی فہرست اسد درانی سے زیادہ طویل ہے۔ اسد درانی کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کی پھرتیاں قابل دید ہیں جبکہ نیب کے مجرموں کے حوالے سے یہ بھنگ پی کر سوتی رہی۔ عشرم تم کو مگر نہیں آتیحکومت کی اس بے عملی اور جرائم پیشہ افراد سے ہمدردی کا فائدہ اٹھا کر لٹیروں کے علاوہ قومی مفادات سے کھیلنے والوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور سول بالادستی کا نعرہ لگا کر ہر بدباطن قوم و ملک اور قومی اداروں کے خلاف یاوہ گوئی پر اُتر آیا ہے جس کا تدارک نگران وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے۔ اسد درانی کے خلاف کارروائی کا آغاز کر کے فوجی قیادت نے ڈان لیکس کے کرداروں اور آئے روز ریاست اور اداروں کو راز افشا کرنے کی دھمکی دینے والے بلیک میلروں کا مُنہ بند کر دیا ہے ان بلیک میلروں کے خلاف مناسب کارروائی حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان ایک بار پھر نارمل اور قانون کے پابند معاشرے میں تبدیل ہو اور طاقتور افراد من مانی نہ کر سکیں۔ گزشتہ روز ڈان لیکس کے کردار سرل المیڈا نے سارے سیاستدانوں کو اجتماعی گالی دی کہ وہ وزیر اعظم بننے کے لیے اپنی ماں بیچنے پر تیار ہیں۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سارے سیاستدانوں کی غیرت کو جگایا ہے اس یاوہ گوئی کو محض اس بنا پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزی زبان میں یہ معمول کی بات ہے انگریزی کی آڑ لے کر کوئی شخص کسی صحافی کو ایم ایف کا مخفف وہ الفاظ کہے جو امریکہ و یورپ میں زبان زدعام ہیں تو پتہ چلے گا کہ "یہ انگریزی ہے" کہہ کر کس طرح جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ سیاستدانوں بالخصوص میاں نواز شریف نے مسلسل اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے معاشرے میں اضطراب پیدا کیا انتخابی مہم کے دوران اس کے منفی نتائج برآمد ہونے کا امکان ہے لیکن اگر شرپسندوں اورجرائم پیشہ افراد و سیاستدانوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو عام انتخابات وقت پر ہوں نہ ہوں ملک ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور عوام کی بالادستی کا دور ؎دیکھیے پاتے ہیں عشاق بُتوں سے کیا فیضاِک برہمن نے کہا ہے کہ، یہ سال اچھا ہےخدا نگران وزیر اعظم کو ثابت قدم رکھے۔