1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Dabang Faisla Me Lord

Dabang Faisla Me Lord

دبنگ فیصلہ می لارڈ

بات اب یہاں آن ٹھہری ہے کہ عام انتخابات 25جولائی کو ہونے چاہئیں، اس مقدس تاریخ میں ردوبدل آئین کے منافی، قومی مفاد سے متصادم اور جمہوریت سے غداری ہے۔ انتخابات بروقت ہونے چاہئیں خواہ انکے نتیجے میں جعلی ڈگری ہولڈر، منشیات فروش، سمگلر، قرض خور، ٹیکس چور، بیرون ملک ملازم اور عادی جرائم پیشہ ہی دوبارہ قومی اقتدار جمہوری نظام پر مسلط کیوں نہ ہو جائیں۔ ہمارے لیے تاریخ مقدس ہے آئین، جمہوریت اور قومی مفاد کے تقاضے جائیں بھاڑ میں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا اصرار تو قابل فہم ہے کہ انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کی جلدی ہے۔ روائتی سیاستدان اقتدار کے ایوانوں سے باہر اپنے آپ کو یتیم و بے آسرا سمجھتے ہیں سرکاری خرچے پر عیش و عشرت اور تھام جھام کا اپنا مزہ ہے ایک ارب پتی سیاستدان اسد درانی کے بقول ایجنسیوں سے پینتیس لاکھ روپے کی رقم لیتے ہوئے محض اس لیے نہیں شرماتا کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی اکثریت قومی وسائل کو حلوائی کی دکان سمجھتی ہے جس پر ناناجی کی فاتحہ پڑھنا فرض عین ہے۔ الیکشن کمشن اور نگران وزیر اعظم کو بھی اس جھنجھٹ سے نجات کی جلدی ہونی چاہیے مگر عدالت عظمیٰ اور نیک نام چیف جسٹس آف پاکستان؟ عدلیہ کے ہر فیصلے کا احترام، اور ہر جج کی عزت و توقیر کرنے والا کوئی شخص یہ تو سوچ ہی نہیں سکتا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے انتخابات وقت پر کرانے کی یقین دہانی کسی ذاتی یا سیاسی مقصد کے لیے ہے مگر یہ اُن کے منصب کا تقاضہ ہے نہ شخصی ذمہ داری۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو جلدی میں معطل کرنا اور اسے انتخابات کے التوا سے جوڑنا اُن لوگوں کو بے چین ضرور کر گیا ہے جو جمہوریت اور انتخابی عمل کو عوامی مفاد، قومی اُمنگوں اور ملکی استحکام سے جوڑتے اور ایسے بامقصد، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی توقع کرتے ہیں جو تبدیلی کا پیشہ خیمہ ہوں۔ 2013ء میں الیکشن کمشن کے منظور کردہ نامزدگی فارم تبدیلی میں مددگار ثابت نہ ہوئے مگر ان فارمز میں درج کوائف سے ہی بہت سے ارکان اسمبلی کے جرائم کا پتہ چلا، جعلی ڈگری ہولڈر بے نقاب ہوئے، بیرون ملک اثاثوں اور ملازمتوں کا انکشاف ہوا اور درجنوں ارکان اسمبلی نااہل ٹھہرے۔ پچھلی بار ریٹرننگ افسر دبائو میں تھے این آر او کی وجہ سے انتقال اقتدار کا فارمولا طے تھا مگر اس بار عوام کی توقعات بلند ہیں اور این آر او کی عدم موجودگی کے علاوہ احتساب کے جاری عمل کی وجہ سے سیاسی نظام میں جوہری تبدیلیوں کے خواہش مندوں کو یہ اُمید ہو چلی ہے کہ جانچ پڑتال کے مرحلہ پر عادی جعلساز و فریب کار پکڑے جائیں گے اور اسمبلیوں میں اجلے کردار کے لوگ زیادہ تعداد میں پہنچ کر اس قوم کی نیا پارلگائیں گے مگر گزشتہ ایک ہفتے کے اقدامات اور فیصلوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے اس بار بھی ماضی کی طرح مادر پدر آزاد انتخابی عمل کے ذریعے انہی لوگوں کو پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں میں رسائی کا موقع فراہم کیا جائے گا جن کے طفیل ملک و قوم اس حال کو پہنچے کہ تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں روز بروز کم ہو رہی ہیں ملک قرضوں کی دلدل میں اُتر کر دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہا ہے، کرپشن سکّہ رائج الوقت ہے اور قومی سرمایہ کی بیرون ملک پرواز قومی سلامتی کے لیے خطرات میں اضافہ کر رہی ہے۔ بجا کہ حکمران اشرافیہ اور عوامی نمائندگی کے علمبردار موجودہ نظام کے سٹیک ہولڈر ہیں اور اس طاقتور مافیا کی فوج، عدلیہ، الیکشن کمشن نگران حکومت اور عالمی اسٹیبلشمنٹ تک رسائی ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مافیا کے عالمی سرپرستوں کی منشا اور مرضی کے بغیر کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر ہے لیکن کیا اس ملک کے بیس اکیس کروڑ عوام، لاکھوں ٹیکس دھندگان اور اپنی ذات پر قومی مفاد کو ترجیح دینے والے ان افتادگان خاک کی آواز سننے والا بھی کوئی ہے؟ جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے امیدواروں کے بارے میں جاننے کا حق مانگ رہے ہیں۔ یہ متفکر اور متاثرہ شہری اس بات کے خواہش مند ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار اپنے نامزدگی فارم میں وہ تمام معلومات درج کریں جو لاہور ہائی کورٹ کی جج محترمہ جسٹس عائشہ ملک کے فیصلے اور الیکشن رولز 2013ء کے مطابق ہوں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا فیصلہ سیاسی مافیا کو بھلے بُرا لگے مگر، یہ عوام کی اس تشویش کا مظہر ہے کہ پچھلے سال پارلیمنٹ نے اس حوالے سے جو قانون سازی کی وہ خود غرضی، مفاد پرستی اور اسلام و آئین کی روح کے منافی تھی۔ اس قانون سازی کا مقصد آئین کے آرٹیکل 63/62کے معیار پر پورا نہ اُترنے والے اُمیدواروں کو انتخابی عمل میں شرکت کی سہولت فراہم کرنا اور انہیں پارلیمنٹ میں داخل کرنا تھا تاکہ یہ اپنے ذاتی، خاندانی، سیاسی اور گروہی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے نامزدگی فارم میں شامل وہ تمام شقیں ختم کر دی گئیں جن سے رائے دہندگان اور شہریوں کو کسی امیدوار کے کردار، کاروبار، ماضی، حال اور نیک و بد سے آگاہ ہونا تھا۔ 2017ء ایکٹ کے ذریعے امیدواروں اور ان کے قریبی رشتہ داروں کی آمدن، اندرون و بیرون ملک اثاثوں، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کے متعلق دیگر معلومات جاننے کے بنیادی حق سے پاکستانی شہریوں کو محروم کر دیا گیا۔ پارلیمان پانامہ سکینڈل اور ختم نبوت جیسے حساس معاملے پر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہی جبکہ میاں نوازشریف کی عدالتی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کے لیے اس ادارے نے مجرمانہ کردار ادا کیا۔ اس کے برعکس عدالت عظمیٰ نے آئین کی پاسداری اور عوامی حقوق کی حفاظت کی۔ اب بھی قانون پسند شہری عدالت عظمیٰ سے یہ اُمید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی اشرافیہ کے دبائو اور مفاد پرست عناصر کے پروپیگنڈے کی پروا کیے بغیر انتخابی اُمیدواروں کو 2013ء کے انتخابی فارم میں درج تمام معلومات فراہم کرنے کا پابند کریگی اور انتخابی شیڈول متاثر کیے بغیر اس امر کو یقینی بنائے گی کہ کوئی ٹیکس چور، قرض خور، نادہندہ، بدکردار، دوہری شہریت کا مالک اور تصادم مفادات کی کسوٹی پر پورا نہ اُترنے والا شخص الیکشن نہ لڑ سکے۔ چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار ڈیڑھ سال سے مختلف مافیاز کا جوانمردی اور دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں برادر ججوں نے اُن کا بھر پور ساتھ دیا۔ یہی حال چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے پیروکاروں نے ان تینوں شخصیات پر جو گند اچھالنا تھا اچھال چکے، جمہوریت اور سول بالادستی کی آڑ میں جو الزام تراشی اور کردار کشی کرنی تھی کر لی۔ ان کا کچھ نہیں بگڑا اب جبکہ تحمل و برداشت اور صبر و فراخدلی کا نتیجہ مافیاز کی مایوسی، چڑچڑے پن، ناکامی اور عوام کی کامرانی کی صورت میں برآمد ہونے کا وقت قریب ہے۔ لوگ کرپشن، اقربا پروری اور قانون شکنی کے ڈریکولا کا سرمستقلاً کچلے جانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کے فیصلے سے وابستہ اُمیدوں کو نا اُمیدی میں بدل دینا اور انتخاب برائے انتخاب کے لاحاصل تجربے کو دہرانا دانشمندی ہے نہ قومی مفاد کا تقاضا۔ 25جولائی کی تاریخ اگر واقعی مقدس ہے تو پھر سیاستدان انتخابی مہم کے دورانیے کی قربانی دیں، کاغذات نامزدگی میں فوری ردوبدل مشکل ہے تو آئندہ کے لیے 2013ء کے نامزدگی فارمز کو لازمی قرار دیتے ہوئے امیدواروں کو ایک بیان حلفی جمع کرانے کا پابند کیا جا سکتا ہے جس میں وہ تمام معلومات فراہم کی جائیں جن کا ذکر ہائی کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے، جانچ پڑتال کا دورانیہ کم از کم دس سے پندرہ دن تک محیط ہوتا کہ ہر امیدوار کے کوائف کی جانچ پرکھ تفصیل سے ہو سکے۔ قوم ستر برسوں سے اچھے دنوں کی امید لگائے ہر طرح کے نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے کرتے اب جاں بلب ہے سیاستدانوں نے بری طرح مایوس کیا اور فوجی حکمرانوں نے ہوس اقتدار میں اس کی خواہشات کا خون۔ افتادگان خاک کی توقعات کا مرکز اب عدالت عظمیٰ اور قومی سرحدوں کی طرح عوامی مفادات کی محافظ فوج ہے۔ انہیں سو فیصد یقین ہے کہ عدالتی فیصلوں اور فوجی قیادت کے عزم سے الیکشن 2018ء ان کی تقدیر اور ملک کی حالت بدلے گا اور کرپشن کے ناسور سے مکمل نجات ترقی و خوشحالی کا نیا باب کھولے گی۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے دبنگ فیصلہ می لارڈ!یہ عوام کی درخواست ہے۔

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo