چور کا ہاتھ، وزیر کی زبان کاٹ دو
پرانی حکایت ہے ایک بادشاہ نے جنگل میں شکار کے دوران کمہار کو دیکھا کہ گدھے ایک قطار میں چل رہے ہیں اور کوئی گدھا اِدھر اُدھر نہیں ہوتا، حیرت زدہ بادشاہ نے پوچھا "گدھوں کو یہ نظم و ضبط تم نے کیسے سکھایا"، کمہار نے جواب دیا، " بادشاہ سلامت جب کوئی گدھا اِدھر اُدھر ہوتا ہے میں ڈنڈے سے اس کی خوب ٹھکائی کرتا ہوں، شام کو گھاس نہیں ڈالتا، نہیں دیکھتا کہ وہ بوجھ زیادہ اٹھاتا ہے یا کم، اس کی ڈھینچوں ڈھینچوں بھی نہیں سنتا"، بادشاہ کو عقلمند کمہار پسند آیا اور اسے منصف مقرر کر دیا، پہلے ہی دن ایک چور کا مقدمہ پیش ہوا، تفصیلی، بحث، شہادتوں اور گواہوں کے بیانات کے بعد کمہار نے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی اور جلاد کو حکم دیا کہ اس کا ایک ہاتھ کاٹ دو، جلاد نے محفل میں موجود بادشاہ کے چہیتے وزیر کی طرف دیکھا، وزیر نے اسے اشارہ کیا کہ رک جائو، جلاد نے منصف سے کہا یہ وزیر کا خاص آدمی ہے، سزا پر نظرثانی کیجیے، کمہار بولا، چور کا ہاتھ کاٹ دو، اب وزیر نے کمہار سے سرگوشی کی، یہ بادشاہ کا وفادار ہے ذرا سزا کم کر دیجیے، کمہار نے جلاد کو حکم دیا "چور کا ہاتھ، وزیر کی زبان کاٹ دو" میں بے زبان گدھوں سے مساوی سلوک کرتا ہوں، کبھی کسی سے رعایت نہیں کی۔ یہ انسانوں میں برابری کا روادار نہیں اسی باعث تو سلطنت میں جرائم کی بھرمار ہے اور کسی کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں "۔
مجھے یہ حکایت موٹروے پر ایک خاتون سے جنسی زیادتی کے اندوہناک سانحہ پر جاری اپوزیشن کی سیاسی بیان بازی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں بالخصوص عمران خان کی کابینہ کے بعض نام نہاد ترقی پسند وزیروں کی سنگدلانہ موشگافیوں پر یاد آئی۔ ملک میں چھوٹے بڑے کی تمیز، قانون کے اطلاق میں تفریق اور اخلاقی زوال کے نتائج وعواقب پر غور کئے بغیر واویلا۔ لنک روڈ لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا جو سانحہ رونما ہوا اس نے پاکستان کے ہر شریف شہری کو دکھی اور شرمندہ کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، اس واقعہ میں ملوث عابد ملہی کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سفاک مجرم اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر 2013ء میں فورٹ عباس کے ایک شریف شہری کے سامنے اس کی بیوی اور کم سن بیٹی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنا چکا ہے مگر مقامی پولیس کی ملی بھگت، ناقص قانونی نظام اور حکومت و معاشرے کی بے حسی و لا تعلقی کے سبب سزا یاب نہ ہوا، ملک کے طول و عرض بالخصوص دیہی علاقوں میں ایسے سانحات جنم لیتے اور بھلا دیئے جاتے ہیں۔ کوئی اسباب پر غور کرتا ہے نہ ان کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ وجہ سب کو معلوم ہے مگر سدباب کی کسی کو فکر نہیں، کون نہیں جانتا کہ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں میں سیاسی اور سفارشی بھرتیاں عرصہ دراز سے جاری تھیں مگر 1985ء کے بعد پولیس میں جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کرنے کا رواج پڑا، ان سفارشی اہلکاروں اور افسروں نے اپنے ان داتا، قبضہ گروپوں، بھتہ خوروں، اغوا کاروں اور جنسی بھیڑیوں کی پردہ پوشی اور مدد کی اور معاشرے کو جہنم بنا دیا۔ سی سی پی او عمر شیخ ایک غیر محتاط بیان پر گردن زدن ٹھہرا مگر اس کے نقطہ نظر سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ پولیس کی پولیسنگ کے بغیر ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے نہ جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ممکن، عدالتی نظام اس قدر فرسودہ، ناقص اور جرائم پیشہ گروہوں کا معاون ہے کہ بڑے سے بڑامجرم حتیٰ کہ عبدالمجید اچکزئی جیسا قاتل آسانی سے بری قرار پاتا ہے اور اعلیٰ و ادنیٰ عدلیہ کے ماتھے پر ندامت کا ایک قطرہ نمودار نہیں ہوتا، عابدملہی اگر واقعی مجرم ہے تو 2013ء کے سنگین جنسی جرم کا مرتکب اور بارہ مزید وارداتوں میں ملوث یہ شخص سات سال تک کیسے دندناتا پھرا اور پولیس، حکومت اور عدلیہ نے کمزور مدعیان سے صلح صفائی کے بعد اس وحشی درندے کو دیگر ملکی قوانین کے تحت پابند سلاسل کرنے، کم از کم کڑی نگرانی کی ضرورت محسوس کیوں نہ کی؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
کرپشن، لوٹ مار اور وسائل کی نامنصفانہ تقسیم کے تحت غربت اور جہالت روز بروز بڑھ رہی ہے، بچوں کی اخلاقی تربیت گھر میں ہوتی ہے نہ تعلیمی اداروں میں اور نہ گلی محلے کی سطح پر۔ فلموں، ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں میں مجرموں، قاتلوں اور جنسی درندوں کو گلیمرائز کرنے کا رواج ہے اور دھن دولت معاشرے کی بنیادی قدر بن چکے ہیں، لُچا سب توں اُچا ماضی میں بھی ہوتا تھا مگر اب پیسہ عزت کا معیار ہے۔ چاہے یہ جرائم پیشہ گروہ کی سرپرستی، منشیات کی سمگلنگ اور جوئے بازی اورجسم فروشی کے ذریعے سے حاصل ہو، رزق حلال کمانے والے اس ریاست میں نکو بنا دیئے گئے ہیں، قانون کی حکمرانی کا تصور ہی ناپید ہے، ہرشخص جانتا ہے کہ بڑے سے بڑا مجرم قاتل اور جنسی درندہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن اور عہدیدار بن کر قانون کی مٹی پلید کر سکتا ہے۔ جاگیردار، وڈیرے اور ڈیرہ دار کا کارندہ گائوں، محلے اور علاقے کی عزتوں کو لوٹنے کا حقدار ہے اور قانون و نظام عدل اس کا پشت پناہ۔ سونے پر سہاگا وہ دانشور، قلمکار اور اینکرز ہیں جو ان جنسی درندوں، لٹیروں اور بھتہ خوروں کے وکیل بن کر انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ریاست مدینہ میں سرعام سخت سزائوں کا رواج تھا اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک کا قانون نافذ مگر بشری کمزوریوں کے تحت جرم کے ارتکاب پر لوگ اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر قانون کے سپرد کرتے اور سزا کے طلبگار ہوتے کہ آخرت میں جوابدہی کا احساس غالب تھا اور سزا بھگت کر بخشش کی توقع اعتراف جرم میں مددگار۔ آج مگر سرعام سزائوں کو تشدد اور انتہا پسندی کی ترغیب قرار دے کر جنسی درندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی اور اسے مہذب ہونے کی علامت قرار دیا جاتا ہے، ان کے نزدیک مہذب دنیا وہ ہے جہاں مائیں اپنی جوان بچیوں کو شراب نوش والد اور اپنے آپ کو نشئی بیٹوں سے بچاتی پھرتی ہیں، جہاں کم سن بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔
احساس مرعوبیت نے ہمارے فیصلہ سازوں، منصفوں، قانون دانوں اور دانشوروں کی مت مار دی ہے۔ اسی باعث ایک کے بعد دوسرا سانحہ ہوتا ہے اور مستقل سدباب کا پائیدار بندوبست نہیں ہو پاتا۔ قصور میں مظلوم زینب سے انسانیت سوز سلوک ہوا مجرم کو سرعام پھانسی سے گریز برتا گیا کہ کہیں امریکہ و یورپ ناراض نہ ہو جائیں، کوئی سوچنے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں قیام امن اور جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ ہم نے کرنا ہے، کسی دوسرے نے نہیں، وحشی اور جنسی درندوں کا سدباب ہماری ذمہ داری ہے، بورس جانسن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں، ایک بار سرعام سزا کا اہتمام کر کے تو دیکھیں، پانچ سال کے لیے سرعام پھانسی کا قانون نافذ تو کریں، اگر خدانخواستہ تجربہ ناکام رہا، جس کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے تو جہاں کئی دوسرے تجربات، ناکامی سے دوچار ہوئے ایک یہ بھی سہی مگر خوف خدا سے عاری حکمران اشرافیہ مغرب اور پاکستان میں اس کی گماشتہ سنگدل و بے حیا مخلوق کے ڈر سے سخت سزائیں بھی چھپ چھپا کر دیتی ہے، خوش قسمتی سے عمران خان ریاست مدینہ کے علمبردار ہیں، مغرب سے مرعوب نہیں اور سرعام سزائوں کے حامی۔ معید پیرزادہ سے انٹرویو میں وزیر اعظم نے سرعام پھانسی کی حمایت کی اور جنسی درندوں کی آختہ کاری کو بھی درست جانا، اگر ایک قدم اور آگے بڑھ کر عمران خان موٹروے سانحہ میں ملوث جنسی درندوں کو قانونی ضابطوں کی تکمیل کے بعد سرعام پھانسی کو یقینی بنائیں تو یہ ملک کے کم و بیش پچانوے فیصد عوام کے جذبات کی تسکین اور سنگین جرائم کے سدباب کی جانب پیش رفت ہو گی۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کے محبوب ﷺ کی خوشنودی اور عوام کے مطالبہ کی تکمیل کے لیے عمران خان نے یہ قدم اٹھایا تو ریاست پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو گا۔ وزیر اعظم ایک کام اور بھی کریں جنسی درندوں کو سرعام سزا اور اپنے بڑبولے وزیروں کی زبان بندی کا حکم ایک ساتھ جاری کریں کہ یہی مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مجرم کا عضو مخصوص اور سر عام سزا کو تشدد کی حوصلہ افزائی قرار دینے والے کسی دانشور، کی زبان ایک ساتھ کٹی تو سنگین جرائم کا خاتمہ یقینی، آزمائش شرط ہے۔