چشم کشا فیصلے
مقصد اگر سینٹ انتخاب میں ضمیر فروشی کا اندیشہ ظاہر کر کے اپوزیشن پر اخلاقی برتری حاصل کرنا اور ارکان اسمبلی پر دبائو بڑھانا تھا تو حکومت کسی نہ کسی حد تک کامیاب رہی لیکن اگر عمران خان واقعتاً یہ سمجھتے تھے کہ سپریم کورٹ سے اوپن بیلٹنگ کی اجازت مل سکتی ہے تو یہ خام خیالی تھی، آئین اور قانون کی معمولی شدبد رکھنے والے افراد بھی روز اوِل سے کہہ رہے تھے کہ سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے الیکشن کی آئینی سکیم سے عدالت عظمیٰ چھیڑ چھاڑ کر سکتی نہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اوپن بیلٹنگ کا اہتمام ممکن ہے، یکم مارچ کے عدالتی فیصلے سے حکومت اور اس کے قانونی مشیروں کو سبکی ہوئی، ثابت یہ ہوا کہ حکومت کی انتظامی اور سیاسی ٹیم ہی نہیں قانونی ٹیم بھی ناقص ہے، ورنہ اوپن بیلٹنگ کے لئے عدالتی ریفرنس، صدارتی آرڈیننس اور آئینی ترمیم کا بیک وقت ڈول ڈال کر حکومت اپنی بدحواسی اور تذبذب، کا پردہ چاک نہ کرتی، پہلے الیکشن کمشن اور اب سپریم کورٹ میں خفت عمران خان اور ان کے سنجیدہ فکر ساتھیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے مگر وفاقی وزراء کے بیانات سن اور پڑھ کر کچھ اور ہی تاثر ملتا ہے ع
فتح انگلش کی ہوتی ہے قدم جرمن کے بڑھتے ہیں
اوپن بیلٹنگ کے حوالے سے حکومت کا موقف درست بلکہ مضبوط تھا، اس کی ترویج کے لئے طریقہ کار غلط اور آئین سے لاعلمی کا مظہر، موجودہ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اپوزیشن سے تعلقات کار قائم کرنے میں یہ سنجیدہ ہے نہ کسی بھی اقدام سے قبل خوب سوچ بچار کی عادی، اڑھائی سال کے عرصہ میں اتحادی ہمیشہ نالاں رہے اور اپنے ارکان اسمبلی شاکی، کم و بیش چالیس سال بعد مسلم لیگ کے سوا کسی سیاسی جماعت کو مرکز کے ساتھ پنجاب میں حکومت سازی کا موقع ملا مگر عمران خان نے ایک اناڑی، سیاسی عزم سے عاری اور انتظامی صلاحیت و تجربہ سے نابلد بلدیاتی سطح کے فردکو ملک کے سب سے بڑے صوبے پر مسلط کر کے یہ موقع ضائع کر دیا، اڑھائی سالہ آن جاب ٹریننگ کام آئی نہ عمران خان کی غیر معمولی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی، حد یہ ہے کہ سینٹ انتخاب میں اپنی طے شدہ نشستیں بچانے اور ارکان اسمبلی کو قابو رکھنے کے لئے عمران خان کو ناراض اتحادی چودھری برادران کی خدمات حاصل کرنی پڑیں اور اپنے ارکان قومی اسمبلی و سینٹ کے علاوہ قابل احترام اتحادیوں سے میل ملاپ میں جھجک کی شہرت رکھنے والے وزیر اعظم نے مظفر گڑھ کے ناراض رکن اسمبلی خرم سہیل لغاری کی نازبرداری کی، یہ چودھری پرویز الٰہی کی مہربانی ہے کہ پنجاب میں بلا مقابلہ سینٹ انتخابات کا اہتمام کر کے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ندامت سے بچایا ورنہ گھر کے بھیدی لنکا ڈھانے کے لئے تیار بیٹھے تھے، اب شنید ہے کہ خان صاحب کو چودھری برادران کے علاوہ گورنر پنجاب چودھری سرور کی اہمیت و افادیت کا علم ہو گیا ہے اور وسیم اکرم پلس کی سیاسی بے سروسامانی کا احساس بھی، اپنے بے فیض فیصلے اور بے جا پشت پناہی کے منفی مضمرات کا ادراک کب ہو گا؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، تلافی مافات اگر نہ ہوئی تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے اور تلافی مافات کی واحد صورت تبدیلی کے علمبرداروں کا احساس زیاں ہے، اڑھائی سال کے دوران پنجاب میں ناقص حکمرانی اور اپنی ہی جماعت کے منتخب عوامی نمائندوں سے بے اعتنائی کا نتیجہ مہنگائی، بدامنی اور انتظامی خرابیوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جس کا ازالہ چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب اور سینئر انتظامی افسروں کی تبدیلی سے ممکن ہوتا تو پانچ چیف سیکرٹریز اور چھ آئی جیز کی یکے بعد دیگرے آمدورفت سے بآسانی ہو جاتا۔ اگر عمران خان کو تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں کوئی شخص پنجاب کی قیادت سنبھالنے کے قابل نظر نہیں آتا تو ذاتی انا اور جماعتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر وہ چودھری پرویز الٰہی کو موقع دیں کم از کم صوبہ اور تحریک انصاف مزید نقصان سے بچ جائے۔
یہ حیرت کی بات نہیں کہ جس سیاسی جماعت کی تین صوبوں اور مرکز میں حکومت ہو، وہ ریاستی اداروں کی بھر پور پشت پناہی کے باوجود اپنے گورنروں اور وزراء اعلیٰ کے ذریعے اپنے ارکان اسمبلی کو متحد رکھنے کے قابل ہے، نہ ضمنی انتخاب جیتنے کی اہل اور نہ اتحادیوں سے معاملہ فہمی کے ہنر سے بہرہ ور، حد تو یہ ہے کہ سندھ میں تحریک لبیک کے تین ارکان کو قائل کرنے کی اہلیت بھی کسی میں نہیں، جو سینٹ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ سندھ میں تحریک انصاف کے لئے ایک ایک ووٹ قیمتی ہے مگر تین ووٹوں والی جماعت کی کسی کو فکر ہے نہ پروا، 2013ء میں حکومت سازی کے موقع پر میں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن سے پوچھا کہ خیبر پختونخواہ میں آپ نے تحریک انصاف سے مل کر الیکشن لڑا مگر سپیکر کے الیکشن میں آپ نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ دیا، اس نے جواب دیا مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ایاز صادق کے علاوہ اسحق ڈار نے ایک ایک رکن قومی اسمبلی سے رابطہ کرکے ووٹ دینے کی اپیل کی، میاں نواز شریف نے سراج الحق صاحب سے درخواست کی مگر ہمارے کسی رکن سے عمران خان تو درکنار سپیکر شپ کے امیدوار شفقت محمود نے بھی میل ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی، ایک ملاقات میں یہی بات میں نے عمران خان سے کہی تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب سراج الحق کو فون کر دیا تھا کہ ان کے ایم این ایز ہمارے امیدوار کو ووٹ دیں تو یہ کافی نہ تھا؟ اتفاق سے شفقت صاحب اس ملاقات میں موجود تھے، میں نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ ہر رکن اسمبلی کی خواہش ہوتی ہے کہ متعلقہ امیدوار، ان سے ملے، ووٹ دینے کی درخواست اور ناز برداری کرے، لیڈر اور امیدوار دونوں کا جواب تھا "یہ کیا بات ہوئی"۔ امکان تو نہیں لیکن اگر قومی اسمبلی کے ارکان نے پچھلے اڑھائی سال کے دوران اپنے وزیر اعظم، وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی بے اعتنائی کا بدلہ لینے کی ٹھان لی تو وفاقی نشست پر حکومت کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ حفیظ شیخ کی شکست اتنا بڑا دھچکا ہو گا جسے برداشت کرنا موجودہ حکومت کے لئے آسان نہیں۔
سینٹ کے بعد تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخابات کا چیلنج درپیش ہے، موجودہ مہنگائی، بے روزگاری اوربدامنی کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی و بدانتظامی کا بوجھ اٹھا کر حکمران جماعت گلی گلی محلے محلے اپنے مینڈیٹ کا دفاع کر سکتی ہے نہ اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے قابل، پنجاب میں اگر حکمران جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں 2016ء کی طرح سبکی کا سامنا کرنا پڑا تو مسلم لیگ ن مزید مضبوط ہو گی اور یہ کہنے میں حق بجانب کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے نے میاں نواز شریف کے بیانیے کی تائید کی، اس سے کرپشن کے خلاف مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور عمران خان کی پشت پناہ قوتوں کی پریشانی میں اضافہ، اسلام آباد میں معلوم نہیں کسی کو اس کا احساس ہے یا نہیں؟ الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے اور سینٹ انتخابات حکمران جماعت اور عمران خان کے لئے چشم کشا ہیں، خدا کرے کہ وہ کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن سے انہیں دیکھنے اور سوچنے سمجھنے پر تیار ہوں، اقتدار کے ایوانوں میں اس کا رواج اگرچہ نہیں۔