بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
مہینہ ختم ہونے سے چار دن قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ موجودہ حکومت کا وہ احمقانہ اقدام ہے جس کا دفاع عمر ایوب اور ندیم بابر کے سوا کوئی کر سکتا ہے نہ کرے گا، مجھے گزشتہ شب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کی اطلاع ملی تو کافی دیر تک یقین نہ آیا، یقین آتا بھی کیسے کہ یکم جون سے چھبیس جون تک وزیر اعظم عمران خان اور حکومت کے ترجمانوں نے بار بار قیمتوں میں کمی کا کریڈٹ لیا اور قلت و گرانی کے ذمہ دار مافیا کو سخت سزا دینے کی نوید سنائی، گزشتہ شب مگر مافیا جیت گیا اورکوئی مانے نہ مانے حکومت نے رضا کارانہ طور پرپٹرولیم مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے جتنی وضاحتیں پیش کیں وہ جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکّا تھیں جنہیں دانا اپنے مُنہ پر مارنے کی تلقین کرتے ہیں۔
مُشتے کہ بعد از جنگ یاد می آید برکلہ خود باید زد
رواں سال عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں تو حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا اور تین ماہ تک مسلسل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جاتی رہی، بعض ماہرین کی یہ رائے تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بجائے اگر حکومت اس غیبی امداد کو بجٹ خسارے، گردشی قرضے اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی پیداواری لاگت میں کمی کے لئے استعمال کرے تو زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں براہ راست کمی کے بالواسطہ ثمرات سے عوام کو بہرہ ور کرنا عمران خان کے نااہل وزراء اعلیٰ، وزیروں، مشیروں اور عوام دشمن بیورو کریسی کے بس کی بات نہیں، ٹرانسپورٹ کرائے کم ہوں گے نہ ملکی مصنوعات سستی ہونے کا امکان، جو حال ہم نے قیمتیں کم رکھ کر ملکی گیس کا کیا وہی پٹرولیم مصنوعات کا ہو گا مگر حکومت نے عوام کو باور کرایا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ انہیں منتقل کرنا چاہتی ہے دو مرتبہ تو تیل کمپنیوں اور فروخت کنندگان نے حکومتی فیصلے کا احترام کیا مگر 31مئی کی شب پٹرول کی قیمتوں میں سات روپے کمی کا فیصلہ آئل مافیا کو ہضم ہوا نہ حکومتی صفوں میں موجود اُن کے ایجنٹوں کو اور انہوں نے مصنوعی بحران پیدا کر کے تین ہفتے تک پاکستانی شہریوں کو پٹرول پمپوں پر ذلیل اور حکومت کو عوام کی نگاہوں میں رسوا کیا۔ ڈیڑھ دو ماہ لاک ڈائون کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند رہی۔ اپریل، مئی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی سے محدود طبقے کے سوا جو اپنی گاڑیوں کا مالک ہے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا، ٹرانسپورٹ کھلی اور لوگ سستا ڈیزل، پٹرول لینے پہنچے تو کم و بیش ستر فیصد پٹرول پمپوں پر انہیں "سیل بند ہے" کا بورڈ آویزاں نظر آیا، دوگنی قیمت پر بلیک میں البتہ تیل دستیاب تھا۔ حکومت نے تیل کی سپلائی بحال کرنے، قیمتوں میں اعتدال لانے کے بلند بانگ دعوے کئے، ذخیرہ اندوزوں کی گرفتاری، کمپنیوں کے لائسنسوں کی منسوخی اور بھاری جرمانوں کا مژدہ سنایا، مگر تین ہفتے تک کسی گرفتاری کا پتہ چلا نہ قلت ختم ہوئی اور نہ اپنی صفوں میں گھسے مافیاز کے آلہ کاروں کا سراغ لگا سکی۔
نئی فصل آنے پر گندم اور آٹے کے نرخوں میں اضافے، کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد سرجیکل و حفاظتی سازو سامان کی مہنگائی و کمیابی اور مختلف ادویہ فروش کمپنیوں کی لوٹ مار سے ستائے عوام پر پٹرول بم گرا کر حکومت نے اپنا بھرم کھویا اور مخالفین و ناقدین کے اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کی کہ عمران خان کی حکومت کو مختلف مافیا نے جکڑلیا ہے جس کا مقابلہ کمزور، زمینی حقائق سے بے خبر و لاتعلق اور ناتجربہ کار ٹیم کے بس کی بات نہیں، ایک ایسی ٹیم جس کا ع
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد مختلف مسائل و مشکلات سے دوچار ہے۔ معاشی میدان میں اپنی ناقص کارگزاری کا ذمہ دار وہ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن، شاہانہ اخراجات اور مہنگے قرضوں کو قرار دے کر گزارہ چلاتی رہی مگر گزشتہ تین ہفتوں میں مختلف مافیاز کے سامنے جس طرح وہ بے بس نظر آئی اور عمران خان نے اپنے اردگرد موجود مافیاز کے آلہ کاروں، نااہل و ناتجربہ کاروں اور بڑبولوں سے جواب طلب کیا نہ کسی کو کان پکڑ کر نکالا وہ ان کے لئے پریشانی بلکہ شرمندگی کا باعث بنا، لوگ پوچھتے ہیں کہ جن ذخیرہ اندوزوں، سمگلروں اور گراں فروشوں سے نمٹنے کا آپ نے رمضان المبارک سے قبل وعدہ کیا تھا ان کا تو بال بیکا نہیں ہوا، چینی، گندم، آٹے، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوئی نہ تین ہفتے تک پٹرولیم کی قلت پر قابو پایا جا سکا البتہ جونہی اس مافیا نے چاہا بین الاقوامی منڈی کا بہانہ بنا کر اضافہ کروا لیا، راتوں رات حکومت نے ڈیڑھ دو ارب روپے کما لئے، اور یہ بھی نہ سوچا کہ یہ اضافہ یکم جولائی سے ہونا چاہیے، کم از کم یہ تاثر تو نہ ملے کہ حکومت قلت پیدا کرنے والے مارکیٹنگ اور ریفائنری مافیا کے سامنے سر کے بل جھک گئی اور اسے چار دن تاخیر کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ اپنی بُکل میں چھپے چوروں سے مسلسل چشم پوشی کا نتیجہ ہے یا اہم قومی معاملات پر مناسب مشاورت کا فقدان، خمیازہ تو بہرحال عمران خان کو بھگتنا پڑے گا، جس کی بائیس سالہ ریاضت، عوام دوستی اور تبدیلی کے عزم کی پونجی نالائق، ناتجربہ اور بڑبولے مشیروں کے ہاتھوں بری طرح لٹ رہی ہے اور اس عظیم خسارے کا کسی کو احساس بھی نہیں ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
حکومت میں کیسے کیسے عجوبے جمع ہو گئے ہیں آہستہ آہستہ سب کو اندازہ ہو رہا ہے۔ ایوی ایشن کے وزیر غلام سرور خان نے قومی اسمبلی اور پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کر کے عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان کیا کہ ملک میں دوچار نہیں پورے اڑھائی سو پائلٹ جعلی ڈگری ہولڈر اور سفارشی ہیں۔ یہ تک نہ سوچا کہ وہ ماضی کی حکومتوں اور سول ایوی ایشن کے علاوہ پی آئی اے کے بجائے ریاست کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ دنیا کو سرکاری طور پر باور کرا رہے ہیں کہ ان کے ایئر پورٹس پر اترنے والے ہماری فضائی کمپنیوں کے جہازوں کو اڑانے والے پائلٹس قابل بھروسہ ہیں نہ مختلف عالمی فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے ان کے ساتھی۔ ہماری پروازوں پر سفر کے شوقین خواتین و حضرات اپنی حفاظت کا خود بندوبست کریں، فواد چودھری نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیا۔ شور مچ گیا مگر بات ان کی کافی حد تک درست تھی کہ حکومت، کابینہ، پارلیمانی پارٹی اور تحریک انصاف میں ہر جگہ غدر مچا ہے، انارکی ہے اور آپا دھاپی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے کر عمران خان نے اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے، ٹیکس فری بجٹ، غریب شہریوں کے لئے احساس کفالت پروگرام اور مافیاز کے خلاف جنگ؟ سب کا ستیا ناس۔ پٹرولیم مافیا جیت گیا، حکومت ہار گئی، ماننے کو کوئی تیار نہ عوام کا کوئی پرسان حال۔ بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک۔