بس بھئی بس زیادہ بات نہیں
مریم نوازشریف دل کی زبان لب پر لے ہی آئیں، کہا: فوج سے بات ہو سکتی ہے لیکن پہلے عمران خان کی حکومت ختم ہو، سلیکٹڈ گھر چلا جائے، ختم کیسے ہو اور عمران خان کیوں گھر چلا جائے؟ یہ سوال بی بی سی کے نمائندے نے پوچھا نہ میاں صاحب کی صاحبزادی نے وضاحت کی، ماضی مگر ایسی بے شمار مثالوں سے بھرا پڑا ہے جب کسی سیاستدان اور سیاسی پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے برسر اقتدار حکومت کو گھر بھجوایا۔ 1989ء میں اسلامی جمہوری اتحاد نے محترمہ بینظیر بھٹو کی منتخب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، پیپلزپارٹی کی حلیف ایم کیو ایم نے حکمران اتحاد کو خیر باد کہہ کر تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیا، پیپلزپارٹی کے بعض ارکان بھی درپردہ اپوزیشن سے رابطوں میں تھے، ناتجربہ کار حکومت اور صدر غلام اسحاق خان اور جنرل مرزا اسلم بیگ کی معتوب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے مگر آئی جے آئی کے چار ارکان کی وفاداریاں خرید کر تحریک ناکام بنا دی، عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو عوام اور پیپلزپارٹی کے حامیوں نے سکھ کا سانس لیا کہ حکومت اب اپنی بقیہ مدت بآسانی پوری کرے گی، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن دونوں مزید مہم جوئی نہیں کریں گی مگر چند ماہ بعد اگست 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی شق (2)58 بی کے تحت اپنے اختیارات بروئے کار لا کر محترمہ کو گھر بھیج دیا۔
غلام اسحاق خان کے اس اقدام کو آئی جے آئی بالخصوص میاں نوازشریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی۔ 1993ء میں آئین کی یہی شق میاں نوازشریف کے خلاف استعمال ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے شدید ترین مخالف صدر کا نہ صرف بھرپور ساتھ دیا بلکہ ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ کا حصہ بھی بنے۔ 1977، 1988، 1990، 1993ء 1996، 1999ء میں چھ حکومتیں اپنی مدت پوری کئے بغیر برطرف ہوئیں۔ ہر بار مخالف سیاسی جماعتوں نے اس برطرفی کا خیر مقدم کیا، حکومت برطرف کرنے والے سول اور فوجی سربراہ کا ساتھ دیا اور کبھی شرمندگی محسوس نہ کی لیکن جونہی جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد اپنے اتحادیوں سے بے رخی برتی ماضی کے حریف کے سارے اختلافات بھول کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے۔ 5 جولائی، 12 اکتوبر جیسے اقدام کو غلط قرار دیا اور سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا، کسی کو یاد نہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ اس اقدام کو سیاسی تائید و حمایت فراہم کرنے والے وہ خود تھے اور انہوں نے مخالف حکمران کی ملک دشمنی، نااہلی، کرپشن اور عوام دشمنی کا شور مچا کر مداخلت کی راہ ہموار کی۔
1999ء میں میاں نوازشریف اقتدار میں تھے اور جی ڈی اے کے نام سے ایک سیاسی اتحاد نے ون پوائنٹ ایجنڈے پر احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی، سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ بھی جی ڈی اے کا حصہ تھے اور قائدجمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان سمیت تمام سیاستدانوں کو سمجھاتے بجھاتے رہتے کہ ون پوائنٹ ایجنڈے کی تکمیل فوجی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک اجلاس سے وہ یہ کہہ کر واک آئوٹ کر گئے کہ میں مارشل لا لگوانے کی کسی سازش اور تحریک کا حصہ نہیں بن سکتا، سیاستدانوں کا ماضی اور اپنا فوجی تجربہ انہیں یہ تجزیہ کرنے کا مجبور کرتا مگر ع
کون اس شہر میں سنتا ہے فغانِ درویش
بالآخر ہونی ہو کر رہی اور میاں نوازشریف کی برطرفی کا محترمہ بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان سمیت تمام جمہوریت پسندوں نے خیر مقدم کیا۔ البتہ جب جنرل پرویز مشرف نے قدم جمانے کے بعد تمام سیاستدانوں کے ساتھ یکساں بے رخی برتی، کسی کو گھاس نہ ڈالی، شریک اقتدار کرنے سے انکار کردیا تو نیا سیاسی اتحاد وجود میں آ گیا جس میں مسلم لیگ ن شامل تھی، انہی دنوں یہ بات زبان زد عام ہوئی کہ "ہمارے سیاستدان فوجی حکومت کے دور ان جمہوریت کی بحالی اور سول و جمہوری حکمرانی کے عرصے میں فوجی مداخلت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں "۔ پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں بحالی جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو میاں نوازشریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان ایک میثاق جمہوریت بھی طے پایا جس میں یہ شق شامل تھی کہ آئندہ منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے گا، کوئی سیاسی جماعت فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ مذاکرات نہیں کرے گی۔ دو خاندانوں کے وفادار سیاسی کارکنوں کے علاوہ حقیقی جمہوریت پسندوں نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ پاکستان کی سیاست میں پختگی آ چکی، اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ختم اور فیصلہ اب ووٹ کے ذریعے ہو گا مگر میثاق جمہوریت کی تدوین کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے پرویز مشرف سے رابطوں کی اطلاعات منظر عام پر آنے لگیں اور جب میاں صاحب نے لندن پہنچ کر اے پی سی بلائی تو پرویز مشرف سے این آر او کے نام پر میثاق جمہوریت کی قیمت وصول کرنے والی دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس میں شریک ہونا پسند نہ کیا، آصف علی زرداری کی حکومت کے خلاف میاں نواز شریف کی ریشہ دوانیاں اور میاں صاحب کے دور حکمرانی میں زرداری صاحب کے پینترے کل کی بات ہیں، سنتا جا شرماتا جا، منتخب حکومتوں کو اسٹیبلشمنٹ سے مل کر گرانے کا گناہ ایسا ہے جو آج کے جمہوریت پسندوں اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاستدانوں کے نامہ اعمال میں جلی حروف سے درج ہے ؎
کون ہے جس نے مئے نہیں چکھی
کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
میکدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
میاں صاحب اور زرداری صاحب پی ڈی ایم کی سیاسی قوت و طاقت کو ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کر کے عمران خان کی حکومت گرانے کے درپے ہیں، یہی مقصد مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ تینوں جانتے ہیں کہ اپنے قوت بازو اور سیاسی جدوجہد سے موجودہ حکومت گرانا ممکن ہے نہ اقتدار حاصل کرنا آسان۔ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر براہ راست تنقید شدید مایوسی کا مظہر ہے۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ بلیک میل ہوتی رہی، اب بھی درون پردہ رابطوں سے یہ تاثر جھلکتا ہے، میاں نواز شریف ہو یا مریم نواز شریف اور آصف علی زرداری ہوں یا بلاول بھٹو زرداری، باقی سب لوگوں سے زیادہ اور بہتر جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکومتوں کا بننا گرنا بچوں کا کھیل نہیں، سیاسی جماعتیں نظم و ضبط، جمہوری کلچر سے محروم ہیں، فرد واحد یا کسی خاندان کی دست نگر اور انہی کے مفادات کی اسیر، ماضی سے سبق سیکھنے کی اہلیت سے عاری، اقتدار کی حریص اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں طاق۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے کا خواہش مند کوئی سیاستدان اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرتا ہے نہ بلیک میلنگ کی کوشش، وہ عوام کو اپنا حامی بنا کر انتخابات میں فقید المثال کامیابی حاصل کرتا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد انتخابی اصلاحات پر توجہ دیتا ہے، سیاسی معاملات اور امور ریاست میں فوج کی مداخلت دوران اقتدار رو کی جا سکتی ہے میاں نواز شریف نے کبھی جس کے لئے سعی و تدبیر کی نہ آصف علی زرداری اور دونوں کے سدا بہار اتحادی مولانا فضل الرحمن نے۔ عمران خان کو ہٹانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی منت سماجت اور دبائو ماضی کے مکروہ کھیل کو جاری رکھنے کا حربہ ہے۔ نتیجہ مختلف شائد نہ نکلے۔ گزشتہ روز این ڈی یو کی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی گفتگو سے محظوظ ہونے والوں میں سے کوئی اخبار نویس میاں صاحب اور مریم نواز شریف کو سمجھائے کہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا، بس بھئی بس زیادہ بات نہیں ?