بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
اکیلے نور عالم خان نہیں، تحریک انصاف میں بے چینی کا شکار کئی دوسرے ارکان بھی ہیں، صرف ارکان پارلیمنٹ نہیں، دو تین وفاقی وزراء بھی، شکایات کی نوعیت الگ الگ ہے، سو باتوں کی ایک بات بقول اقبالؒ:
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرکارواں میں، نہیں خوئے دلنوازی
تحریک انصاف کے بیشتر ارکان پارلیمنٹ مجلسی گفتگو میں گلے شکوے کرتے تھکتے نہیں، یہی حال مسلم لیگ(ن) اور میاں نواز شریف کے پیروکار پارلیمانی نمائندوں کا ہے، اوّل الذکر عمران خان کی بے نیازی کو اپنی کم نصیبی سے تعبیر کرتے اور خاص مواقع پر عمران خان کی لچھے دار گفتگو کو حکمرانوں کے روائتی بول بچن کا نام دیتے ہیں:
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا، یہ کمال نے نوازی
جون میں سالانہ قومی بجٹ کی منظوری کے علاوہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی اور اتحادیوں کو شرف باریابی بخشا، عشوے غمزے برداشت کئے اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے جائز و ناجائز مطالبات بھی مانے مگر عمومی رویّہ کم آمیزی اور بے نیازی کا ہے۔
عمران خان کو ایک کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ وہ ہفتہ وار اجلاس میں اپنے وزراء سے ملتے اور مختلف قومی و بین الاقوامی موضوعات پر ان کی رائے، موقف سنتے ہیں۔ میاں نواز شریف دوران اقتدار مہینوں کابینہ کا اجلاس بلاتے نہ چند نورتنوں کے سوا کسی وفاقی وزیر، مشیر کو شرف ملاقات بخشتے، اکتوبر 1999ء سے چند ہفتے قبل ایک قد آور سیاستدان بزرگ صحافی مجید نظامی مرحوم سے ملے اور گزارش کی کہ وہ میاں نواز شریف سے آدھ پون گھنٹہ ملاقات کا وقت لے کر دیں، نظامی صاحب مرحوم نے اس دبنگ وفاقی وزیر سے کہا "آپ نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں میاں صاحب سے الگ ملاقات کا وقت کیوں نہیں مانگا، میری سفارش کی ضرورت کیوں آ پڑی"؟
موصوف نے جوجواب دیا وہ شریف خاندان کے مربّی نظامی صاحب کو حیران کر گیا، کہا کہ چھ سات ماہ سے وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا نہ میاں صاحب کی زیارت کا موقع ملا، وقت کب اور کیسے مانگوں؟ وفاقی وزیر اپنے وزیر اعظم سے مل کر نوتشکیل قومی صحت پالیسی کے خدوخال واضح کرنا چاہتے تھے اور حتمی منظوری کے طلب گار، عمران خان یہ سلوک اپنے ارکاناسمبلی سے کرتے ہیں یا ان وفاقی وزراء سے جو ہر ہفتے اجلاس میں شریک ہوتے مگر حال دل کہہ نہیں پاتے کہ بعض باتیں بھری بزم میں کہنے کی ہوتی ہیں نہ اپنے لیڈر کو دوسروں کے سامنے شرمندگی اور اضطراب سے دوچار کرنا مقصود، تخلیّہ درکار مگر درباری آداب حائل۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے مابین ناخوشگوار جملوں کا تبادلہ داخلی اضطراب کا مظہر ہے جس کی ذومعنی تردید سے پردہ پوشی ممکن نہ اسے تحریک انصاف میں جمہوری کلچر کی علامت قرار دینا آسان، حکومتی نزاکتوں اور پارلیمانی تقاضوں سے بخوبی واقف، تجربہ کار خٹک کو بھری بزم میں وزیر اعظم سے یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ " اپنے ووٹروں کے سامنے بھرم قائم رکھنے کی خاطر انہیں منی بجٹ کی منظوری کے دوران اجلاس سے غیر حاضر رہنے کی اجازت دی جائے؟ "کیا وزیر اعظم کابینہ اجلاس اور چیمبر میں ان کی بات سننے کے روادار نہ تھے یا ماننے سے انکاری؟ کہ انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ترپ کا پتہ پھینک کر اپنی بات وزیر اعظم اور وفاقی وزیر حماد اظہر سے منوا لی:
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
اب سوال یہ ہے کہ پرویز خٹک اکیلے ہیں یا وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دیگر وزیروں اور ارکان اسمبلی کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا نور عالم خان تن تنہا باغیانہ بیانات دے رہے ہیں یا انہیں بھی دیگر ارکان کی پشت پناہی حاصل ہے؟ سادہ جواب تو یہی ہے کہ اس وقتی ابال کو کسی طوفان کا پیش خیمہ قرار نہیں دیا جا سکتا مگر معاملہ بظاہر اتنا سادہ نہیں، میں کسی سازشی کہانی پر یقین رکھتا ہوں نہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا اندیشہ ظاہر کر رہا ہوں، وزیر اعظم کے ناقص، ان گھڑ مشیروں کی بے عملی و نالائقی اور خیبر پختونخوا میں محمود خان، پنجاب میں عثمان بزدار کی بدانتظامی کے تباہ کن سیاسی اور انتخابی نتائج سے خائف منتخب عوامی نمائندوں میں پائی جانے والی بے چینی کسی نہ کسی موقع پر حکمرانوں کے علاوہ موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کے لئے ندامت کا باعث بن سکتی ہے۔
دسمبر 2014ء میں طویل دھرنے کے خاتمے اور انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جسٹس ناصر الملک کمشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد میاں نواز شریف حکومت کو درپیش خطرات ٹل گئے تھے، راوی اگلے دو تین بلکہ سات سال تک چین لکھتا تھا اور بڑے بڑے تجزیہ کار 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کی پیش گوئیاں کر رہے تھے مگر پھر پانامہ پیپرز نے منظر بدل دیا۔ اپوزیشن نے پہلی بار اپنی حکمت عملی بدل کر عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر قومی خود مختاری، آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے اور کرپشن کے میگا سکینڈلز سے چشم پوشی برتنے کا الزام لگایا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ عمران خان کو بھی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی صف میں کھڑا کرنے کے درپے ہے۔
اب تک عمران خان کا امیج مسٹر کلین کا ہے اور انہیں سلیکٹڈ قرار دے کر عوام کی نظروں سے گرانے کی سٹرٹیجی ناکام رہی ہے، اپوزیشن نے پینترا بدلا اور عمران خان کے اپنے پرانے ساتھیوں کے علاوہ بعض ارکان اسمبلی بھی اپوزیشن کے الزامات کو تقویت پہنچانے میں لگے ہیں جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ مور اوور عمران خان کے بعض نادان دوست ڈیل ڈیل کا شور مچا کر اپنے ہی کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو کنفیوژ کر رہے ہیں، جب 2020ء میں ڈیل کا غلغلہ بلند ہوا تو حکومتی تردیدوں کے باوجود میاں نواز شریف بیرون ملک چلے گئے، مریم نواز شریف باہر آ گئیں اور اب تک حکومت ان کی مشروط ضمانت منسوخ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
اب میاں شہباز شریف کی درپردہ ملاقاتوں کا شور حکومتی وزراء مچا رہے ہیں جبکہ حکمران پارٹی کے جہاندیدہ، سردگرم چشیدہ ارکان اسمبلی کی بے چینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بات کہہ کر مکر جانا ہمارے سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کی دیرینہ عادت ہے اور تردید کا تائید میں بدلنا قومی سیاست کا وطیرہ۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بدانتظامی اور کرپشن، منتخب عوامی نمائندوں سے بے رخی اور بے نیازی، جنوبی صوبہ پنجاب کے قیام میں تاخیر، وفاقی وزراء سے گلے شکوے اور ہر سطح پر بے محابا مہنگائی اضطراب کا سبب ہے اور بہت سے لوگ پرویز خٹک اور نور عالم خان کی باتوں کو سنجیدہ لینے لگے ہیں، کاش عمران خان بھی سنجیدگی سے غور کریں:
حسن کے راز نہاں، شرح بیاں تک پہنچے
آنکھ سے دل میں گئے، دل سے زباں تک پہنچے
دل نے آنکھوں سے کہی، آنکھوں نے دل سے کہہ دی
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے