عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
علامہ حافظ خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ میں انسانوں کے بے کراں ہجوم کو دیکھ کر امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول یاد آیا، فرمایا "ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا؟ " ہم سب نے تحریک لبیک کے سربراہ اور بریلوی مسلک کے عالم دین کی نماز جنازہ سمجھ کر قیاس کے گھوڑے دوڑائے، حافظ خادم حسین رضوی کی چار پانچ سالہ سیاسی جدوجہد کو عوامی مقبولیت کے ترازو میں تولا اور 2018ء کے انتخابات میں تحریک لبیک کی انتخابی ناکامی کے علاوہ لاہور کے دھرنے میں پیر افضل قادری کے غیر قانونی، غیر ذمہ دارانہ بیان اور حافظ خادم حسین رضوی کے تلخ لہجے، ترش انداز گفتگو کے تناظر میں دیکھا اور غلط اندازہ لگایا، نہ جانا کہ یہ عاشق رسول ﷺ کا جنازہ ہے تاجدارِ ختم نبوت کے ادنیٰ سپاہی اور حرمت و ناموس رسول(ﷺ) کے پہریدار کا سفر آخرت۔
چار پانچ دہائیوں سے پاکستان میں لادینی اقدار، مغربی تہذیب اور ہندوانہ ثقافت کی ترویج کے لئے منظم کوششیں جاری ہیں، سوشلزم، سیکولرزم اور لبرلرزم سب کا مُدّعا "پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ" کے نعرے کو پس پشت ڈالنا اور کلمہ گو شہریوں کے دل و دماغ سے جذبہ عشق رسول ﷺ محو کرنا ہے۔ فارن فنڈڈ این جی اوز نے مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھایا اور میڈیا کے ایک حصہ نے جوش و خروش سے اس کی پذیرائی کی اشرافیہ میں بے خدا جدیدیت کی پذیرائی سے یہ سمجھا گیا کہ 1973ء کے آئین کی اسلامی شقوں کا خاتمہ ممکن ہے اور انسانی حقوق کے نام پر ناموس رسول ﷺ پر حملہ آور ہونا آسان۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکمرانی میں ایک مسلّمہ غیر مسلم اقلیت کی تالیف قلب کے لئے حلف نامہ تبدیل کیا گیا تو مقاصد واضح تھے، امریکہ و یورپ کی خوشنودی کا حصول اور پاکستان کے قومی تشخص میں غیر محسوس تبدیلی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود بعض مذہبی رہنمائوں نے محض میاں نواز شریف کی خوشنودی کے لئے ختم نبوت کے قلعے پر شب خون کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا مگر علامہ خادم حسین رضوی ڈٹ گئے اور فیض آباد کے دھرنے میں نہ صرف حکومت کو ان ترامیم کی واپسی پر مجبور کر دیا بلکہ وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ لے کر چھوڑا، فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لئے ریاستی طاقت استعمال ہوئی، ترغیب و دبائو کے حربے آزمائے گئے مگر ٹانگوں سے معذور خادم حسین رضوی اپنے جانثاروں کے ساتھ ڈٹے رہے، ایک اہل حدیث عالم دین نے یہ کہہ کر خادم حسین رضوی کی اسقامت کو سلام پیش کیا کہ "حکومتی رعب و طاقت کےسامنے جیّد علماء اور مشائخ کی ٹانگیں کانپنے لگیں مگر دونوں ٹانگوں سے معذور خادم حسین رضوی پورے قد سے کھڑا رہا" ؎
پورے قد سے جو کھڑا ہوں یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیراؐ
خادم حسین رضوی ایک جذبے، ایک ولولے، ایک شعلے کا نام تھا، بے ریا، بے لوث اور بے خوف عاشق رسول ﷺ۔ مینار پاکستان کے سائے میں جمع ہونے والے لاکھوں لوگ خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ میں شرکت سے زیادہ دنیا کو اپنے آقا و مولا حبیب خدا ﷺ سے دلی محبت، شیفتگی اور وابستگی سے آگاہ کرنے کے لئے جمع ہوئے اور رسول اللہ ﷺ و اسلام کی تضحیک و توہین میں مشغول مغرب کو بتایا کہ جب تک ہم زندہ ہیں اور ہمارے دل میں حب رسول ؐ کا جذبہ موجزن ہے پاکستان کا اسلامی تشخص تبدیل ہو سکتا ہے نہ ہم کسی کو حضورؐ کی حرمت و ناموس سے کھیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں، خادم حسین رضوی محض استعارہ تھا، لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں نے مینار پاکستان کے زیر سایہ اپنے وجود کا احساس دلایا، اپنی دھڑکنوں میں بسنے والے حبیب خدا ﷺ کی ذات اور ناموس پر جان قربان کرنے کا عہد کیا۔ ؎
نہ ہو جو عشق مصطفی تو زندگی فضول ہے
غلامی رسولؐ میں موت بھی قبول ہے
خادم حسین رضوی ڈیڑھ دو سال سے ریاست کا معتوب تھا، میڈیا کی نظر کرم سے محروم اور مجاہدین سوشل میڈیا کے سب و شتم کا مرغوب موضوع، چند روز قبل فرانسیسی صدر کے گستاخانہ انداز فکر کے خلاف تحریک لبیک کے دھرنے کا مکمل بلیک آئوٹ ہوا مگر وہ کامیاب رہا کہ ذات رسالت مآب ﷺ سے وفاداری اور تاجدار ختم نبوت کی پہریداری کے طفیل عاشقان مصطفی ﷺ کے دلوں میں بستا تھا۔ ثابت یہ ہوا کہ ریاستی وسائل واختیارات اور ریگولر و سوشل میڈیا کی طاقت سے کسی فرد کو مقبولیت کے بام عروج پر پہنچایا جا سکتا ہے نہ مخالفت اور پابندیوں سے عوام کے دلوں میں موجزن محبت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایک حدیث قدسی کے مطابق "جب اللہ تعالیٰ کوکسی شخص کی کوئی ادا پسند آجائے تو فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس شخص کی الفت خلق خداکے دلوں میں ڈال دیں " یہ بنیادی طور پر اس شخص کی محبت نہیں، اس کے اللہ کو پسند ادا کی پذیرائی ہوتی ہے مینار پاکستان کے زیر سایہ بھی ایک درویش خدامست کے جذبہ حب رسول ﷺ کی پذیرائی کا اہتمام تھا۔
لاکھوں عاشقان رسولﷺ کے اس اجتماع سے یہ تو واضح ہو ا کہ گناہگار سے گناہگار پاکستانی مسلمان بھی بلا تمیز مسلک و مشرب حرمت و ناموس مصطفی کا محافظ و نگہبان اور عشق مصطفی کے خمیر میں گندھا ہے، یہاں کے عوام اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود اتحاد و وحدت کا محور اسلام اور ذات مصطفیؐ کو گردانتے ہیں اور اسی مرکز سے وابستہ رہ کر وہ عظمت رفتہ کی بحالی کا خواب دیکھتے ہیں ؎
بتاں رنگ و خوں کو توڑ کر یک رنگ ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
سادہ اطوار، درویش منش، بوریا نشیں خادم حسین رضوی نے چار پانچ سال کی سیاسی ریاضت میں ثابت کیا کہ ؎
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حید ر ؓ، فقر بوذر ؓ، صدق سلیمانیؓ
خلیفہ ہارون الرشید نے ایک بار امام مالکؓ سے پوچھا کوئی شخص گستاخی رسولؐ کا مرتکب ہو تو اُمہ کیا کرے، آپ نے فرمایا اُمہ گستاخ کو سزا دے، خلیفہ نے کہا اگر وہ سزا نہ دے سکے تو؟ امام بولے پھر حضور کی ساری اُمہ مر جائے اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔ خادم حسین رضوی اسلامیان پاکستان بلکہ اُمہ کو یہی باور کراتے اپنے خدا کے حضور پیش ہو گئے کہ اگر ہم گستاخان رسول سے بدلہ لینا درکنار، ان کا مُنہ بند نہ کر سکے، تو پھر ہمیں جینے کا کوئی حق نہیں، رسول اللہ ﷺ کو روز قیامت منہ دکھانے کے لئے اُمہ اپنا فرض ادا کرے یا غیرت سے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرے۔ میرے اللہ کو در حبیب ﷺ کے چوکیدار کی شائد یہی ادا پسند آئی کہ اس نے ایک فقیر بے نواکے جنازے کو تاریخ ساز و یادگار بنا دیا ؎
جو رکے تو گوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
خادم حسین رضوی مردانہ وار جیا، اچانک مرا تو زمانے بھر کو حیران کر گیا ؎
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ تعالیٰ علامہ خادم حسین رضوی کے جانشین مولانا سعد حسین رضوی کو اپنے والد کی طرح عشق رسول ؐ کی شمع جلائے رکھنے اور تحریک تحفظ ناموس رسولﷺ کا حقیقی پہریدار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ ریاست، حکومت اور عوام کے لئے جنازے کا پیغام واضح ہے، پاکستان قریہ عشق محمد تھا، ہے اور رہے گا، عشق رسولﷺ اسلامیان پاکستان کی قوت، طاقت، سرمایہ حیات اور زاد آخرت ہے، کوئی شک میں نہ رہے۔