اپنی حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
میرے خیال میں یہ طے کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کو ایک مہذب، جدّت پسند، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا ہے یا قوم بدستور پارلیمانی جمہوریت کے نام پر گلے میں چند افراد اورخاندانوں کی غلامی کا طوق پہنے، سسک سسک کر زندگی گزاریگی۔؟ عجیب تماشہ ہے کہ دو حکمران خاندانوں پر منی لانڈرنگ کا سنگین الزام ہے اور دونوں واضح، دو ٹوک جواب دینے کے بجائے کبھی ادھر کی ہانکتے ہیں، کبھی ادھر کی، سوال گندم جواب چنا، قوم نے جن لوگوں کو رہ نماجانا اور اپنا مستقبل سنوارنے کی ذمہ داری سونپی، وہ رہزن اور ڈاکو نکلے، عدم تحفظ کا شکار یہ معاشرہ تو ہے لیکن ارب پتی خاندانوں کی مالیاتی لوٹ مار، سرمائے کی بیرون ملک منتقلی اور جائیدادوں کی خریداری عدم تحفظ نہیں سنگدلانہ ہوس زر کا نتیجہ ہے۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ کوئی اپنے کئے پر نادم نہیں، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے اور دنیا بھر میں محتسب و چوکیدار کا کردار ادا کرنے والا منہ پھٹ میڈیا مظلوم ریاست کا ساتھ دینے کے بجائے انہی عطار کے لونڈوں سے شفا طلب کر رہا ہے جن کے سبب ریاست کو دیمک اور معاشرے کو کینسر لگا۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر آزادی صحافت کا رونا رویا جا رہا تھا کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے انٹرویوز نشر کرنے سے روک دیا۔ اسحق ڈار کو عدالت مفرور قرار دے چکی ہے، وہ اپنے خلاف الزامات کا سامنا اور عدالت کو مطمئن کرنے کے بجائے میاں نواز شریف کے مشورے سے اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے سرکاری طیارے میں ملک سے فرار ہوئے تاکہ احتساب عدالت میں چلنے والا کیس آگے نہ بڑھ سکے۔ بار بار طلبی کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے مگر پاکستان میں آزادی صحافت کا ایک نیا ماڈل متعارف کرایاجا رہا ہے جس میں مجرموں، مفروروں اور ریاست کے باغیوں کو قومی اداروں پر الزام لگانے، منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور ملک میں انتشار پھیلانے کی آزادی ہے منی لانڈرنگ اور لوٹ مار کو آرٹ کا درجہ دینے اور اختیارات کو قومی معیشت کی تباہی کے لئے استعمال کرنے والا شخص ملک میں واپس آ کر اپنی صفائی دینے کی بجائے الزام تراشی کرتا ہے اور ہمارا میڈیا اسے آزادی اظہار کے نام پر ریٹنگ بڑھانے کے لئے لائیو چلاتا ہے۔ الطاف حسین کو جس روز تک ہمارے میڈیا نے ڈان بنائے رکھا، اس کی ایک مہمل اوربے ہودہ لائیو تقریر پر کراچی میں درجنوں کے حساب سے لاشیں اٹھتی رہیں، بیوائوں اور یتیموں کی بددعائیں بالآخر ایک عدالتی حکم کی صورت میں قبول ہوئیں۔ خطاب پرپابندی لگی، آزادی اظہار کے بعض متوالوں نے اس وقت بھی شور مچایا مگر ریاست ڈٹ گئی آج کراچی کے پرسکون ہونے کی ایک اہم ترین وجہ یہ پابندی بھی ہے۔ اسحق ڈار کی طرح کئی دوسرے بھی قومی معیشت کو تلپٹ کرنے کے لئے غیر ذمہ دارانہ گفتگو فرماتے، قومی سطح پر ابہام پھیلاتے اور اس قوم کی عقلی دانش پر ہنستے ہیں۔ بریں عقل ودانش بیاید گریست، دنیا کے کس جمہوری ملک میں سزا یافتہ مجرموں، مفروروں اور منی لانڈررز کو میڈیا پر پذیرائی ملتی اور ان کو براہ راست عوام سے مخاطب ہو کر قومی اداروں کی تضحیک، ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی آزادی ہوتی ہے؟ یہ کم علم آج تک جان نہیں پایا۔ طالبان اور امریکہ کے مابین قطر میں براہ راست مذاکرات جاری ہیں اور ایک لحاظ سے امریکہ نے طالبان کو دہشت گرد کے بجائے فریڈم فائٹر تسلیم کر لیا ہے، مذاکرات میں شامل لیڈروں پر سلامتی کونسل نے پابندیاں ختم کر دی ہیں مگر ابھی تک سی این این، این بی سی، فاکس اور بی بی سی سے میں کسی نے ان کے بیانات لائیونشر نہیں کئے، زلمے خلیل زاد جو کہتے ہیں وہی امریکی اور یورپی میڈیا من و عن شائع اور نشر کرتا ہے یہاں مگر دہشت گردوں، منشیات فروشوں، ریاست کے باغیوں، علیحدگی پسندوں اور سزا یافتہ مجرموں کو بھی وزیر اعظم اور وفاقی وزیروں کے برابر کوریج ملتی ہے، ہو سکتا ہے کوئی چینل فواد چودھری کو لائیو دکھانا بھول جائے مگر ریاستی اداروں کی مزاحمت کرنے والے شخص کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا گویااس کا مذہبی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے جس میں کوتاہی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا بے چارہ بھی کیا کرے، جب پاکستان کا ایوان بالا ریاست کے خلاف بغاوت کی تلقین اور دہشت گردی کے خلاف جہاد میں مصروف فوج کے خلاف عوام کو مشتعل کرنے میں پیش پیش منظور پشتین کو مہمان اعزاز بنا کر لاف گراف سنتا اور سر دھنتا ہے، مشاہد حسین جیسا دانشور اس کی لایعنی گفتگو پر آمناً و صدقناً کہتا اور اس کے ریاست کے خلاف تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے تو ہما شما کس قطار میں، مجھے بعض اوقات یہ شک گزرتا ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں آزادی ہضم ہو رہی ہے نہ آزادی اظہار کی طے شدہ حدود و قیود سے تجاوز کے نتائج و مضمرات کا ہمیں شعور ہے۔ جرائم پیشہ سیاسی خانوادوں نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے اور ہم ان کے ذاتی خاندانی، سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے چلے جا رہے ہیں۔ جس آزادی کے سارے فوائد چند قومی مجرم سمیٹیں اور نقصانات اٹھانے والے انہی کے حق میں بائولے ہو رہے ہوں، انہی کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لئے عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی سہولت کار بن جائے وہ، آزادی کتنا عرصہ برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ 1999ء میں مشاہد حسین ٹائپ دانشوروں نے میاں نواز شریف اور قوم کو باور کرایا تھا کہ ہم لامحدود بلکہ مادر پدر آزادی کی منزل پر پہنچ چکے ہیں، لیڈر اور دانشور بے خوف و خطرہر حد سے تجاوز کر سکتے ہیں نتیجہ 12اکتوبر کی شکل میں بھگتا۔ مشاہد حسین کا کچھ بگڑا نہ شریف خاندان کا، قوم کے ساڑھے آٹھ سال ضائع ہو گئے۔ اب بھی جو ادارے اور افراد منی لانڈرنگ، لوٹ مار اور قانون شکنی کا تدارک کرنے اور ریاست کا ساتھ دینے کے بجائے انہی لیڈروں کے سہولت کار بن رہے ہیں انہیں ہرگز احساس نہیں کہ صبرو برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور ریاست، قانونی اور آئینی و قانونی اداروں سے چھیڑ چھاڑ بالآخر مہنگی پڑتی ہے۔ الطاف حسین، براہمداغوں حیر بیاروں کا ریاست نے مکّو ٹھپ دیا، پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، حکیم اللہ محسود کی باقیات سر چھپاتی پھرتی ہے تو یہ کس باغ کی مولی ہیں، ڈر یہ ہے کہ ان کا تو جو ہو سو ہو، ہم آشفتہ سران کی محبت میں بری بھلی آزادی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں وہ آزادی جو جینوئن صحافیوں کی بے مثل ریاضت کا ثمر اور کسی حد تک جنرل پرویز مشرف کی دین ہے۔ اپنی حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں جوذرہ جس جگہ ہے، وہیں آفتاب ہے(جگر مراد آبادی)