ایک تجربہ اور سہی
بلا شبہ یہ اپوزیشن کا متاثر کن اجتماع تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ایجنڈے سے متفق ہیں، بعض ان میں سے افطار ڈنر میں شریک ہوئیں اور کچھ حکومت سے بہتر سودے بازی کے لئے۔ اختر مینگل گروپ تاحال حکومت کا اتحادی ہے اور شکوہ و شکایات کے باوجود اتحاد کا حصہ رہنے پر مُصر۔ جماعت اسلامی ایم ایم اے سے شاکی ہے اور کسی بھی ایسی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے سے انکاری جو موجودہ جمہوری ڈھانچے کو زمین بوس کر دے۔ اکیلے مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کے محاصرے اور عوام بالخصوص دینی مدارس کے طلبہ کو سڑکوں پر لانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو ان کی قیادت قبول ہے نہ ہرچہ بادا باد کی پالیسی۔ مہنگائی کی صورت میں حکومت نے اپوزیشن کو عوامی ایشو فراہم کیا ہے جس پر کسی احتجاجی تحریک کی نیو اٹھائی جا سکتی ہے مگر اس مہنگائی سے بھر پور انداز میں مستفید ہونے والا تاجر طبقہ اس تحریک کا ساتھ دے گایا نہیں؟ جس کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ یہ سو ملین کا سو ال ہے۔ حکومت نے دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اصلاحات کا پروگرام بنایا اور جس کا مقصد نظام تعلیم میں دوئی ختم کرنے کے علاوہ غریب، مفلس اور نادار طلبہ کو وہ تعلیمی تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا ہے جو جدید طرز تعلیم کے اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو حاصل ہیں، مولانا فضل الرحمن اسے مذہبی معاملات اور دینی مدارس میں حکومتی مداخلت کا رنگ دے کر مذہبی طبقے کو اکسا رہے ہیں۔ چند مدارس کے مہتمم اور مدرس شائد اس سے متفق ہوں کہ اصلاحات کے بعد مدارس کا مسلکی تشخص قومی شناخت میں ضم ہو سکتا ہے اور یہ مدارس کسی مخصوص مسلک کے بجائے اسلام اور پاکستان کے قلعے بن سکتے ہیں تاہم ہر طبقہ فکر میں مقبولیت رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی خوش دلانہ شمولیت کے بغیر ایک طبقے یا مکتب فکر کی تحریک جس پر مذہب کی چھاپ نمایاں ہو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے نہ حکومت کے لئے خطرہ۔ موجودہ حکومت فوج کے ساتھ مل کر چونکہ معاشرے کو انتہا پسندی کے عفریت سے نجات دلانے اور پاکستان کو ایک نارمل ریاست میں تبدیل کرنے کے درپے ہے اس لئے مولانا فضل الرحمن جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بغیر یہ تحریک مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک کے انجام سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اس بنا پر بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں جب مولانا نے اسلام آباد کو جام کرنے اور حکومت کے خاتمے تک تحریک جاری رکھنے کی بات کی تو شرکاء کو سانپ سونگھ گیا اور کسی نے مولانا کی تائید نہ کی۔ مولانا کو سبکی سے بچانے کے لئے بالآخر آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز سامنے آئی۔ جو منعقد تو عیدالفطر کے بعد ہو گی مگر نتیجہ معلوم۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ احتساب سے خوفزدہ ہیں اور عمران خان کی حکومت کو ایک لمحے کے لئے برداشت کرنے پر تیار نہیں مگر یہ بھی جانتی ہیں کہ نیب عمران خان کے کنٹرول میں ہے نہ حکومت کا دھڑام سے گرنا ان دونوں جماعتوں کے مفاد میں، مسلم لیگ(ن) کا احساس محرومی زیادہ ہے کہ وہ طویل عرصے بعد اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل ہو چکی اور احتساب نے اس کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے، جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے اقتدار اور وسائل سے بدستورلطف اندوز ہو رہی ہے، سینٹ میں عددی اکثریت کی بنا پر حکومت اور اس کے سرپرست اداروں سے سودے بازی کی پوزیشن میں ہے اور تاحال پُر امید کہ کبھی نہ کبھی ریاستی اداروں کو اس کی ضرورت پڑیگی کیونکہ آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ سرخ لکیر عبور کرنے کی تہمت نہیں، بلاول بھٹو کا سیاسی مستقبل روشن ہے اور وہ مریم نواز شریف کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کر کے اپنی سودے بازی پوزیشن مزید مضبوط کر رہاہے۔ افطار ڈنر میں مریم نواز شریف کی شرکت کی علامتی اہمیت بجالیکن حمزہ شہباز شریف کو افطاری سے قبل، بعد اور پریس کانفرنس میں نظر انداز کیا گیا، حمزہ شہباز شریف کی اندرونی کیفیت بجھے چہرے اور بھنچی مُٹھیوں سے عیاں تھی۔ یہ آصف علی زرداری کو لاڑکانہ اور لاہور کی گلیوں میں گھسیٹنے کی دھمکیوں کا بلاول کی طرف سے جواب تھا یا ٹی وی کیمروں کو یہ باور کرانا مقصود کہ تقریب میں مسلم لیگ کی نمائندہ مریم نواز شریف ہیں حمزہ شہباز محض وفد کے غیر اہم رکن؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے، تاہم ان کی محفل اور اہل محفل کی ان سے لاتعلقی نے شریف خاندان میں یکجہتی اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مابین گہری یگانگت کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا۔ مہنگائی اور معاشی و سماجی مسائل ہیں، زیادہ تر سابقہ حکومتوں کے پیدا کردہ اور کچھ موجودہ حکمرانوں کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ، لیکن احتجاجی تحریک کے لئے حالات پھر بھی سازگار نہیں۔ دیگر اندرونی عوامل کے علاوہ امریکہ ایران تنازعہ میں شدت نے پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کے کان کھڑے کر دیے ہیں اور ملک اس وقت کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کا متحمل ہو سکتا ہے نہ عدم استحکام کا، اگر خدانخواستہ امریکہ مہم جوئی پر تُل گیا تو پاکستان براہ راست متاثر ہو گا کہ امریکہ ایک بار پھر پاکستان سے غیر مشروط حمائت کا مطالبہ کر سکتاہے جس سے انکار آسان نہ اقرار مناسب۔ ایران، عراق جنگ میں پاکستان غیر جانبداری کا بھرم رکھنے میں کامیاب رہا کہ افغان جنگ میں وہ امریکہ کا مضبوط حلیف تھا جبکہ اب صورتحال مختلف ہے اور ہماری معیشت کا انحصار امریکہ کے گماشتہ اداروں کے علاوہ ان عرب ممالک پر ہے جو ایران کو مزہ چکھانے کے شوق میں اسرائیل کی مدد لینے پر تیار ہیں۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ بھارت سے برسر پیکار، امریکہ و ایران میں سینڈ وچ بنی معاشی طور پر ایک بدحال ریاست کسی احتجاجی تحریک کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک سبب ممکنہ امریکہ ایران جنگ ہے تاکہ پاکستان کے پاس امریکہ اور اس کے خلیجی حلیفوں کا ساتھ دینے کے سوا چارہ کار ہی نہ رہے۔ ڈالر کی اڑان اور سٹاک ایکسچینج کی ابتری کو بھی اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ شائد اس بنا پر اپوزیشن جماعتیں حکومت پر دبائو بڑھا رہی ہیں کہ اسے تپ دق دکھا کر بخار کو قبول کرنے پر آمادہ کیا جا سکے، پیغام مقتدر قوتوں کے لئے بھی ہے کہ اگر ملک میں استحکام مطلوب ہے تو احتساب کے عمل میں نرمی پر سوچا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈروں محسن داوڑ اور علی وزیر کو ساتھ بٹھا کر یہ پیغام بھی دیا کہ ہم اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے ہر حد عبور کر سکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور میر حاصل بزنجو نے یہ کہہ کر کہ تحریک حکومت گرانے کے لئے نہیں چلائی جائیگی اے پی سی اور احتجاج کے مقاصد واضح کر دیے ہیں دیکھنا اب یہ ہے کہ حکومت اور ہئیت مقتدرہ اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد اور دبائو کو کس طرح ناکام بناتی یا اسے قبول کرتی ہے؟ ؟ اپوزیشن کا پاور شو متاثر کن تھا، عیدالفطر کے بعد اے پی سی بلانے اور تحریک چلانے کا اعلان بھی شاندار مگر یہ ساری کد و کاوش حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے نہیں، اپنی سودے بازی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے ہے۔ ماضی کے تجربات کی بنا پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے خوفزدہ بھی ہیں۔ 2000ء میں شریف خاندان نے اے آر ڈی کو پرویز مشرف سے ڈیل کے لئے استعمال کیا اور 2007ء میں بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کو این آر او کے لئے۔ اب بھی دونوں ڈرتے ہیں کہ کوئی ایک واردات نہ کر جائے۔ مریم بلاول بھائی بہن کا نعرہ تو ابھی بلند نہیں ہوا مگر دونوں کے مخلص ساتھی ابھی سے یہ گنگنانے لگے ہیں ؎بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائیبیچ ہی کھاویں جو یوسف سا برادر ہووےقومی وسائل ڈکار لیے بغیر ہڑپ کرنے والوں کا کیا ہے؟ ایک دوسرے کو بیچنا مشکل نہ بطور سیڑھی استعمال کرنا، ناممکن۔ ایک تجربہ اور سہی۔