ایک ڈرامے کی مار
رمضان المبارک اس بار معمول کے مطابق پاکستانی عوام کی اکثریت کے لئے خیرو برکت اور دائمی مسرّت کا پیغام لایا، کورونا کی وجہ سے کلمہ گو مسلمان ویسے بھی توبہ و استغفار میں مشغول تھے، بیت اللہ اور مسجد نبوی کے علاوہ عالم اسلام میں مساجد کی بندش سے افسردہ لوگوں کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ اللہ تعالیٰ نے معلوم نہیں کن گناہوں اور خطائوں کی پاداش میں ہم پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیے، یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مُنہ موڑنے کا نتیجہ ہے ناشکری کا عذاب یا اس کے محبوب ﷺ کی تعلیمات سے روگردانی کا شاخسانہ؟ راسخ العقیدہ مسلمان مصیبت اور پریشانی میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا اور رحمت رب کا طلبگار ہوتاہے رمضان المبارک میں اہل پاکستان نے گھروں کو مسجدوں میں تبدیل کیا اور آمدنی کا بڑا حصہ اپنے بھائیوں کے لئے وقف۔ دو طبقے البتہ بے چین اور مضطرب نظر آئے، گراں فروش تاجر اور شیطان کی بندش سے خائف دانشور، و فنکار۔
پوری دنیا میں مذہبی تہواروں کے موقع پر کاروباری طبقہ عوام کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے اشیاء ضروریہ سستے داموں فروخت کرتا اور قلبی سکون پاتا ہے مگر ہمارے ہاں کا ندیدہ کاروباری طبقہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں شیطان کی بندش کا انتقام غریب عوام سے لیتا، رزق حلال میں ناجائز منافع کی ملاوٹ کرتا ہرگز نہیں شرماتا۔ رمضان المبارک کے تین ہفتے اس گروہ پر گراں گزرے البتہ آخری ہفتے میں کھلی چھٹی ملی اور حد سے زیادہ فضول خرچ غریب و امیر نے اسے گرانفروشی کی گنگا سے اشنان کرنے کا موقع دیا۔ بے خدا مغربی تہذیب کا دلدادہ اور عریاں بھارتی ثقافت کا پرستار طبقہ رمضان المبارک میں ترکی ڈرامہ ارطغرل کی پی ٹی وی پر رونمائی اور بے پایاں مقبولیت سے دل گرفتہ ہے۔ اخلاقی جرأت سے محروم اس طبقے کو یہ کہنے کا یارا تو نہیں کہ پاکستان کے عوام بالخصوص نوجوان طبقے کو ایک ایسا ڈرامہ کیوں دکھایا جا رہا ہے جس میں قبیلے کا سردار اور اس کے اہل خانہ کے علاوہ دیگر سر برآوردہ ساتھی نماز روزے کے پابند ہیں، بات بات پر اللہ تعالیٰ کے احکام، رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ کا ورد اور روز آخر بارگاہ رب العزت میں طلبی کا ذکر کیوں کرتے، جہاد کو کامیابی و کامرانی کا زینہ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو توشہ آخرت کیوں سمجھتے ہیں، شہیدوں کی نماز جنازہ، قرآن مجید کی تلاوت اور کھانے کا آغاز بسم اللہ سے کرنے کے مناظر بھی، ان کے لئے سوہان روح ہیں، صلیبیوں اور صہیونی یہودیوں کی اسلام دشمنی اور سازشوں کی پردہ کشائی سے پاکستان کی نوجوان نسل آگاہ ہو یہ بھی انہیں گوارا نہیں مگر کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتے، اعتراض اس پہ ہے کہ ترک ڈرامہ مقامی کے بجائے غیر ملکی ہیرو زکی پذیرائی کا سبب ہے اور مقامی ثقافت کا عکاس نہیں۔
شان کے سوا ایک بھی اول درجے کے فنکار نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ لنڈے کے بعض دانشوروں کو اس ڈرامے نے پریشان کیا مگر کوئی دانشور اور فنکار، اس سوال کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ کم و بیش تیس سال تک ہمارے ٹی وی چینلز اور سینما گھروں پر بھارتی فلموں کا راج رہا، شیو لنگ مہاراج سمیت مختلف بتوں کی پوجا، نکاح کے بجائے شادی کے پھیروں، میتوں کو جلانے کی رسم اور بن بیاہے جوڑوں کے بوس و کنار کے مناظر دکھائے جاتے رہے، فحاشی و عریانی پروان چڑھتی رہی اور خواتین ماتھے پر تلک لگائے مورتیوں کے سامنے سیس نواتی رہیں کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ یہ ہماری تہذیب ہے نہ ثقافت، ان فلموں اور ڈراموں کے ذریعے تسلسل و تکرار کے ساتھ غیر اسلامی بلکہ غیر اخلاقی، غیر انسانی رسوم کی ترویج ہوتی رہی مگر مجال ہے کہ کسی کی رگ انسانیت و رگ پاکستانیت پھڑکی ہو، ان فلموں ڈراموں نے ہماری شوبز انڈسٹری کا بیڑا غرق کر دیا، سینما ہائوس تجارتی پلازوں میں بدل گئے اور مقامی فلموں اور ڈراموں میں مقابلے کے جذبے کے تحت مار دھاڑ، قانون شکنی، عریانی، فحاشی اور مقدس رشتوں کی پامالی کا عنصر بڑھتے بڑھتے ہماری تہذیب و ثقافت روایت و اقدار کو چمٹ کر گیا، آج پاکستان میں ایسی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا، حضرت حلیمہ سعدیہؓ حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ حضرت فاطمۃ الزہرہؓ حضرت رابعہ بصریؓ کے بارے میں کچھ جانتی ہے نہ محترمہ فاطمہ جناح اور رضیہ سلطانہ سے واقف لیکن ہیما مالنی، مادھوری ڈکشٹ، کرینہ کپور، کترینہ کیف، کنگنا رناوت کے نام ازبر ہیں صرف نام ہی نہیں انداز و اطوار، لباس و مشاغل بھی دلوں پر نقش، قابل تقلید مگر بیگانی ثقافت اور ہیروز پر معترض سبھی دانشور و فنکار گونگے شیطان بنے رہے، انگریزی فلمیں اور ڈرامے بھی کبھی تنقید کا ہدف نہیں بنے لیکن ارطغرل نے ان کے دل و دماغ پر ناقابل برداشت گھائو لگا دیا۔
وجہ صرف ایک ہی ہے، ارطغرل میں اذان کی آواز سنائی دیتی اور باجماعت نماز دکھائی جاتی ہے، مرتے وقت کلمہ شہادت کا ورد اور خواتین کا باحجاب لباس، جذبہ جہاد کی ترغیب، ظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی تلقین اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کا مومنانہ انداز ناقابل برداشت ہے، پورے ڈرامے میں مسلمانوں کے زوال کا سبب نفاق، بزدلی، غیروں پر انحصار اور اپنوں سے مغائرت کو بتایا جاتا ہے یہ فن و ثقافت اور علم و بصیرت میں غیروں کے دریوزہ گر دانشوروں کو گوارا ہے نہ ہندوستانی فلم انڈسٹری سے مرعوب نقّال قسم کے فنکاروں کو منظور، اسی باعث یہ سارے مل کر شور مچا رہے ہیں مگر ارطغرل ڈرامہ مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہا ہے اور ہمارے نوجوان اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر شوق سے یہ ڈرامہ دیکھ رہے ہیں انہیں خانہ بدوش قبیلے کا ایک پرجوش نوجوان یہ سبق دے رہا ہے کہ انسان کااپنے خدا اور عقیدے پر پختہ یقین ہو، جذبہ خالص اور حوصلہ بلند تو بے سروسامانی آڑے آتی ہے نہ کئی گنا طاقتور دشمن کی چالاکی و عیاری اسلحے کے انبار اور اپنوں کی سازشیں کارگر ع
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کوئی ہدف مشکل ہوتا ہے نہ اس کا حصول ناممکن، وقتی ناکامیوں سے انسان کو گھبرانا چاہیے نہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں سے دل شکستہ دلگیر ہونے کی ضرورت ؎
در دست جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
رمضان المبارک میں کلمہ گو اللہ تعالیٰ کی یاد میں مگن ہیں انہیں اگر ڈراموں کے ذریعے عظمت رفتہ کی یاددہانی کرائی جانے لگے تو اسلام اور پاکستان سے الرجک مہربانوں کی چھاتی پر سانپ کیوں نہ لوٹیں؟ خلافت عثمانیہ کا خیال بش اور ٹونی بلیئر، ٹرمپ اور بورس جانسن کو مضطرب کرتا ہے۔ غیرت اور عزت نفس سے محروم تہذیب حاضر کے گرفتاروں کو کیوں بے چین نہ کرے، ایک ڈرامے نے نیندیں حرام کر دی ہیں، کبھی اُمہ نے واقعی انگڑائی لی تو ان بے چاروں پر کیا بیتے گی؟ ارطغرل کی مقبولیت سے ہمارے ڈرامہ نویسوں، فنکاروں اور فلم و ڈرامہ انڈسٹری کو سبق سیکھنا ناظرین کی پسند کا اندازہ ہونا چاہیے۔