واردات کی گواہی، واردات سے پہلے
سچے کھرے اور بے لاگ انصاف کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ملزم جونہی مجرم قرار پاتا اور کیفرکردار تک پہنچتا ہے کہانی تمام ہو جاتی ہے۔ بس تاریخ کے اوراق میں عبرت کی ایک داستان باقی رہ جاتی ہے۔ نہ کسی کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں اور نہ کسی جج کی دستار فضیلت پر کوئی ہاتھ پڑتا ہے۔ نہ کسی کی مظلومیت کا تاثر ابھرتا ہے اور نہ کسی سازش کی کہانیاں گردش کرتی ہیں۔ نہ گائوں گوٹھوں کی چوپالوں سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی اداروں تک جرم وسزا اور قانون و انصاف کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں۔
اگر لگ بھگ نصف صدی پہلے پھانسی چڑھا دیئے جانے والے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی داستان انصاف آج بھی زندہ ہے اور چاربرس پہلے بیٹے کی کمپنی سے طے شدہ تنخواہ وصول نہ کرنے کے جرم قبیح میں عمربھر کے لیے سیاست سے بیدخل کردیئے جانے والے نوازشریف کا تذکرہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تو جان لیجئے کہ نصف صدی بعد دہرایا گیا یہ ڈرامہ بھی ہماری سیاست کو نکیل ڈالنے والے انہیں منہ زور موسموں کا کرشمہ ہے جو ہمیشہ بڑے کارگراور مؤثر رہے ہیں۔
خلق خداکسی عدالتی فیصلے کو تقاضائے انصاف سمجھ کر مطمئن ہو جائے تو جانو کہ مجرم بجاطورپر کیفرکردار کو پہنچا اور اگر سزا کسی کو ملے اور جرم کا کھرا کسی اور گھر جاتا ہو اور ترازوبدست قبیلہ کھیل کا حصہ نظرآئے تو خلق خدا اسی طرح مضطرب رہتی ہے رسوائیوں کی داستان اسی طرح دائرہ در دائرہ گردش کرتی رہے تو قانون وانصاف کے دامن پر لگاداغ ملامت کسی دھوبی گھاٹ پہ مٹایا نہیں جاسکتا۔
نوازشریف کا سارا معاملہ ایک کھلی کتاب ہے۔ روز اول سے لے کر آج تک لاتعداد خامیوں، کمزوریوں اور کھلی ناانصافیوں میں لت پت اس مقدمے کو کسی آڈیو کسی ویڈیو کسی بیان حلفی کسی اضافی گواہی کی ضرورت نہیں۔ قانون وانصاف کی رسوائی کے حوالے سے یہ بے سروپا مقدمہ ہر لحاظ سے خودکفیل ہے۔ صرف اس سلسلہ واقعات پر نظر ڈالیے جو 2014کے ڈی چوک کے شہرہ آفاق دھرنے سے شروع ہوکر اکتوبر 2016میں ایک اور لاک ڈائون تک پھیلا ہواہے اور نومبر 2016سے آج تک جس کی کڑیاں بکھری نظرآتی ہیں تو سب واضح ہو جاتا ہے۔
میں آج پٹاری سے کسی آڈیو یاویڈیوکیسٹ کا سنپولیا یا شیش ناگ نہیں نکال رہا نہ کسی پہلے سے زیرگردش کیسٹ کی صداقت پر بحث کرنا مقصود ہے میں ایک ایسی شہادت ریکارڈ پرلانا چاہتا ہوں جسے جھٹلانا کسی سیاسی فنکارکے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ یہ شہادت دراصل ایک خبر ہے جو وزارت عظمیٰ سے نواز شریف کی بیدخلی سے آٹھ ماہ قبل ایک بھارتی صحافی ایم۔ جے۔ اکبر کی زیرادارت مرتب ہونے والے معروف ویب میگزین Sunday Guardian live(سنڈے گارڈین لائیو) میں شائع ہوئی۔
یہ سٹوری بھارت کے ایک کہنہ مشق ایڈیٹر، صحافی، تجزیہ نگار، ماہر تعلیم اور محقق، مادھونا لپٹ Madhav Nalpatکی ہے۔ نالپٹ معروف اخبار ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر رہے۔ سنڈے گارڈین لائیو کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر رہے، جیو پولیٹکس کے پروفیسر کے طورپر خدمات سرانجام دیں۔ ان کی یہ سنسنی خیز سٹوری 6نومبر 2016کو صبح دو بج کر ایک منٹ پر اپ لوڈ ہوئی۔ تب جنرل راحیل شریف اپنے منصب پر قائم تھے اگرچہ ان کی ریٹائرمنٹ میں صرف تین ہفتے باقی تھے لیکن ان کے گوشۂ دل میں توسیع کا چراغ ابھی تک ٹمٹما رہا تھا۔ وہ کسی معجزے کے منتظر تھے۔
ناکارہ فضول اور لایعنی (frivolous)قرار دی جانے والی پٹیشنز سپریم کورٹ میں لگ گئی تھیں۔ بینچ تشکیل پاگیا تھا اورباقاعدہ سماعت شروع ہونے کو تھی دوردور تک کسی JITکا نام ونشان بھی نہ تھا۔ نواز شریف بھاری پارلیمانی اکثریت کے ساتھ اپنے عہدے پر موجود تھے اور کاروبار حکومت عمدہ طریقے سے چل رہا تھا۔
سنڈے گارڈین لائیو 6نومبر 2016کی سٹوری کا عنوان تھا۔
"GENERAL RAHEEL SHARIF PLANS JUDICIAL COUP AGAINST NAWAZ"
"جنرل راحیل شریف نے نواز شریف کے خلاف عدالتی بغاوت کا منصوبہ بنالیا "
تفصیل میں بتایا گیا!
"پاکستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے اہم ممالک پیش بینی کررہے ہیں کہ راولپنڈی نے ایک منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔ جس کا مقصد وزیراعظم نواز شریف کو 2017کے وسط تک اپنے منصب سے ہٹا دینا ہے۔ اس دفعہ مشرف کے انداز میں فوجی بغاوت کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے یہ منصوبہ بنایا گیا ہے کہ نواز شریف کو منصب سے ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ سے کام لیا جائے (جو اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں)۔ منصوبے کے مطابق سپریم کورٹ نواز شریف کو مجرم قراردیتے ہوئے اس پر کئی مقدمات کا آغاز کرے گی، عدالت کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں پانامہ پیپرز کے انکشافات کو بنیاد بنایا جائے گا۔" خبر میں مزید کہا گیا
"Sources claim that imran khan's latest agitation was scripted to ensure that pakistan supreme Court took up the matter of Nawaz Sharif's corruption thus setting into motion the chaln of events expected to end in his downfall"
"ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی تازہ احتجاجی مہم کا سکرپٹ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نواز شریف کی کرپشن کا نوٹس لے اوریوں زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے اس سلسلہ واقعات کا نتیجہ نواز شریف کے زوال کی شکل میں ظاہر ہو"۔
سپریم کورٹ میں مقدمے کی کارروائی، جے۔ آئی۔ ٹی کے قیام اور اس کی رپورٹ اور اگست 2017سپریم کورٹ کے فیصلے سے آٹھ ماہ قبل چھپنے والے اس آرٹیکل میں سات امور کی نشاندہی کی گئی تھی۔
1۔ راحیل شریف نے نواز شریف کو منصب سے ہٹانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ (ایسا ہی ہوا)
2۔ نواز شریف کو فوجی بغاوت کے بجائے سپریم کورٹ کے ذریعے نکالا جائے گا۔ (ایسا ہی ہوا)
3۔ عمران خان کے تازہ احتجاج کی سکرپٹ کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ پر دبائو ڈال کر اسے سماعت کے لیے مجبور کیا جائے۔ (ایسا ہی ہوا)
4۔ نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں ہٹایا جائے گا۔ (ایسے ہی ہوا)
5۔ اس الزام کا رشتہ پانامہ لیکز سے جُڑاہوگا۔ (ایسے ہی ہوا)
6۔ نواز شریف کو وسط 2017تک فارغ کردیا جائے گا۔ (ایسے ہی ہوا۔ جولائی 2017)
7۔ فراغت کے بعد نواز شریف پرمختلف النوع کے مقدمات کا آغاز ہوجائے گا۔ (ایسے ہی ہوا)
جانے دیجئے آڈیو اور ویڈیولیکس کو شوکت عزیز صدیقی، جج ارشد اور رانا شمیم کی گواہیوں اور بیانات حلفی پر مٹی ڈالیے۔ صرف زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے میں پیوست سلسلہ ہائے واقعات پر ایک نظر ڈالیے۔ ہماری بے مایہ تاریخ کے اس ناٹک کے تحریر کار، ہدایت کار، پیش کار اور کردار سب اپنے چہروں کے تمام ترخدوخال کے ساتھ نمایاں نظر آئیں گے۔