فوج کی سوچ میں جوہری تبدیلی؟
کیا فوج کے روایتی کردار میں کوئی بڑی جوہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے یا تیزی سے تشکیل پا رہی ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا حتمی جواب ملنے میں کچھ وقت لگے گا۔ البتہ یہ طے ہے کہ 9 مئی کے واقعات نے فوج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ دشمن کے عزائم پر نظر رکھتے ہوئے جنگی چالیں سوچنے، وارگیمز کھیلنے، تجزیہ و تحقیق کا موثر نظام رکھنے اور ایجنسیوں کی تیز نگاہی کے باوجود فوج 9 مئی کے یوم سیاہ کی پیش بینی نہ کر سکی۔ کر بھی کیسے سکتی تھی؟
ایسی غارت گری تو تب بھی نہ ہوئی جب ڈھاکہ ڈوب رہا تھا، جنرل نیازی، جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال رہا تھا اور مال گاڑیوں میں لدے قیدی بھارت کے بندی خانوں کو جا رہے تھے۔ یحییٰ خان اس ہزیمت کی علامت تھا اور لوگوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ لیکن غیض وغضب کے اس الاؤ نے بھی فوج سے نسبت رکھنے والی علامتوں کا رُخ نہ کیا۔ سو عام پاکستانی کی طرح، فوج کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ عمران خان کے فدائن کو ذہنی غسل دیا جا چکا ہے اور چند گھنٹوں کے اندر اندر پورا پاکستان ان کی متعفن غلاظتوں میں لتھڑ جائے گا۔
فوج ابھی تک اس گہرے زخم کی چارہ گری کی سبیلیں سوچ رہی ہے۔ اُدھر برسوں کی مشقت سے کاشت کی گئی سیاسی ابتری اور عدم استحکام کی فصل بھی پک کر جوان ہو چکی ہے۔ اقتصادی زبوں حالی تشویشناک منطقے میں داخل ہو چکی ہے۔ ماہرین بتا رہے ہیں کہ اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر ہیں جبکہ اس سال کے آخر تک ہمیں پونے پانچ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔
صورت حال یہی رہتی ہے تو دسمبر تک یہ ذخائر تحلیل ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کہ کوئی کرشماتی یا معجزاتی پیش رفت "ہونی، اَن ہونی" کی ترتیب الٹ دے لیکن گرداب میں پھنسی، ہچکولے کھاتی معاشی کشتی کو ہموار پانیوں تک آنے میں خاصا وقت لگے گا۔ بشرطیکہ ان برسوں میں معاملات کو ٹھہراؤ سبھاؤ کے ساتھ چلنے دیا جائے۔
سات دہائیوں میں فوج نے رنگا رنگ تجربات کر لیے۔ براہ راست مارشل لا، 58-2B سے مسلح ایوانِ صدر کے ذریعے حکومتوں کی توڑ پھوڑ، انتخابی عمل میں مداخلت سے مطلوبہ نتائج کا حصول، عدالتوں کے ذریعے نا مطلوب وزرائے اعظم کی بے دخلی، من پسند داخلی اور خارجی ترجیحات کے لیے ریاست کے متوازی یا بالائے ریاست کردار، آرمی چیف کے شکوہ و جلال کو منتخب وزیراعظم سے دو چند رکھنا اور قومی حکمتِ کار کے حوالے سے اپنے "ڈاکٹرائن" جاری کرنا۔
یہ سب کچھ آخر کار ہمہ گیر سیاسی عدم استحکام، معاشی بربادی اور معاشرتی انتشار پر منتج ہوا۔ گزشتہ ایک دہائی میں بے سمت اور بے حکمت مداخلت ساری حدیں پھلانگ گئی۔ جنرل باجوہ کے چھ سالہ دور نے پچھلی کئی دہائیوں کی کسر نکال دی۔ یہ بظاہر سول ملٹری تعلقات کی گرم جوشی کا عرصہ تھا جسے "ایک پیج" کا دلکش نام دیا گیا لیکن عملاً یہ صرف "عمران باجوہ" گٹھ جوڑ ثابت ہوا۔ اِس "اشتراکِ شر" کا منشور بڑا سیدھا سادہ تھا۔ "میں تمہارے حریفوں کا ناطقہ بند کیے رکھوں گا، تمہارے راستے کے سارے کانٹے چنوں گا، تمہاری نمبر گیم پوری رکھوں گا، تم صرف مجھے توسیع دئیے چلے جاؤ۔ " یہ "عقدِ سہولت" اس وقت تک چلتا رہا جب تک سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹ نہیں گئی۔ تب تک پاکستان اقتصادی بدحالی کی گہری کھائی میں لڑھک چکا تھا۔
پاکستان کو بحرانوں کی چِتا میں جھونکنے کے بعد بھی "ڈاکٹرائن" فلسفہ چین سے نہ بیٹھا۔ فتنہ گروں نے بہت پیچ و تاب کھائے کہ جنرل سید عاصم منیر کی تقرری کا راستہ روکا جائے لیکن بات نہ بنی۔ اس لشکرکے سالار کے طور پر عمران خان کی راولپنڈی پر یلغار بھی بے نتیجہ رہی۔ تقرری کے بعد سات آٹھ ماہ تک نئے سپہ سالار نے انتہائی تحمل اور خاموشی کے ساتھ ماضی و حال پر نگاہ ڈالی۔
تصویر، تقریر اور تشہیر کے آشوب کا شکار ہوئے بغیر، نئے حالات کے تناظر میں فوج کے متوازن مگر ٹھوس نتیجہ خیز کردار کے خد و خال تراشے۔ مضبوطی سے قدم جمانے میں سید عاصم منیر کو شاید کچھ اور وقت لگ جاتا لیکن 9 مئی نے سب کچھ الٹ پلٹ دیا۔ سوچی سمجھی بغاوت ناکام ہوگئی لیکن سید عاصم منیر کی قوت، گرفت اور اثرآفرینی کو کئی گنا بڑھا گئی۔ سرکشوں کی سرکوبی آسان ہوگئی اور ایک دہائی پر محیط تخریب کے ایجنڈے کا رُخ تعمیر اور اصلاحِ احوال کی طرف موڑنا سہل ہوگیا۔
فوج اور سول حکومت کے اشتراکِ باہم کا سفر، پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران کی مسیحائی کے مشترکہ عزم سے شروع ہوا ہے۔ اِس عزم کو "خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل" (Special Investment Facilitation Council) کی ادارہ جاتی شکل دی گئی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کی گرم جوشی اس کونسل کی تشکیل میں پوری طرح متحرک رہی۔ کونسل کے قیام کا بڑا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا، انہیں ضروری سہولیات فراہم کرنا، روایتی رکاوٹوں کو ختم کرکے برق رفتار ضابطہ بندی کرنا اور اُن کے سرمائے کے تحفظ کی ضمانت دینا ہے۔ ابتدائی طور پر توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات، کان کنی، دفاعی پیداوار اور زراعت کے شعبوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت فوج اس کونسل کی قوتِ متحرکہ رہے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں کئی خلیجی ممالک سے معاملات پہلے طے پا چکے ہیں جن کے نتیجے میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگلے بارہ برس میں معیشت انقلاب آشنا ہو جائے گی اور پاکستان غیروں کی احتیاج سے نکل آئے گا۔ اس اہم قومی مشن میں فوج کی موثر شراکت، آتی جاتی حکومتوں سے قطع نظر، طے شدہ اہداف کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس ضمانت فراہم کرے گی۔ ایک نوع کا "میثاقِ معیشت" اقتصادی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنائے گا جو معاشی بحالی کی شرطِ اول ہے۔
ماضی کے تلخ اور بے ننگ و نام تجربات کے بعد اگر فوج نے جان لیا ہے کہ قومی سلامتی محض ہتھیاروں سے نہیں، مضبوط قومی معیشت سے جڑی ہے، اور مضبوط معیشت کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے تو اسے نہایت مثبت پیش رفت خیال کرنا چاہیے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں تقریباً تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی اس سے باہر ہے جو "برمودا تکون" تک پہنچ چکی ہے۔ وہ 9 مئی سے پہلے بھی پاکستانی مفادات کو ذاتی اغراض پر قربان کر چکی تھی۔ اُس نے آئی ایم ایف معاہدہ سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کرایے پر لی گئی اُس کی لابنگ فرمز آج بھی نگری نگری وہی راگ الاپ رہی ہیں جو بھارتی سفارتخانے برسوں سے الاپ رہے ہیں۔ سو اُسے اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے سرمایہ کاری کونسل کو اپنا سفر آغاز کرنا چاہیے۔
بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے اس عمل کے تمام متعلقین بالخصوص بیوروکریسی کو نئی فکر دینا ہوگی۔ اس ضمن میں ہماری عدالتوں نے بھی نہایت منفی کردار ادا کیا ہے۔ "منصفین خود معاملہ" کو بتانا ہوگا کہ خدا کے لیے اس ملک پر رحم کھائیں۔ اس ضمن میں ضروری قانون سازی بھی کرنی چاہیے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب جنرل سیدعاصم منیر اور اُن کے رفقا کی یہ سوچ مستقل طور پر ادارہ جاتی پالیسی میں ڈھل جائے اور ہر جمہوری حکومت دلجمعی سے اس پر کاربند رہے۔
اگر سات دہائیوں بعد ہماری فوج کی سوچ میں یہ جوہری تبدیلی آ گئی ہے تو اسے ہمہ رنگ بحرانوں میں مبتلا پاکستان کی خوش بختی خیال کرنا چاہیے۔ سید عاصم منیر اپنے اس انقلابی اقدام کے باعث دیر تک یاد رکھے جائیں گے۔ کوئی شخص نہ مارشل لاؤں کے سبب تاریخ کے روشن اوراق کا حصہ بنتا ہے نہ حکومتوں کی گردن دبوچ کر مدتِ ملازمت میں توسیع حاصل کر لینے سے۔ تاریخ اُنہیں پان کی پیک کی طرح اُگالدان میں پھینک دیتی ہے۔