جنوبی ایشیائی زرعی انقلاب کی حقیقت
گزشتہ موسم خزاں میں مودی سرکار کی جانب سے " زرعی انقلاب" کے لیے نئے قوانین کے نفاذ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو جنم دیا۔
اس احتجاج کا مرکز ہندوستان میں زرعی اہمیت کی حامل ریاستیں پنجاب، ہریانہ اور یوپی رہیں۔ زرعی بحران ایک اہم مسئلہ ہے، جو صرف بھارت تک مخصوص نہیں، دنیا بھر میں جاری متعدد اقدامات کا مقصد زراعت کو زیادہ موثر بنانا اور غربت اور کاشت کاروں کے مالی انحصار کا مقابلہ کرنا ہے۔
جنوبی ایشیا میں ملازمتوں کا بڑا حصہ زراعت سے جڑا ہے اور اس کا مختلف ممالک کی GDPمیں اہم کردار ہے۔ بڑھتی آبادی کو غذائی تحفظ فراہم کرنے کا عمل برآمدی کاروبار میں مزید مواقعے فراہم کرتا ہے۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شعبہ زراعت کو نظر انداز کرنا اِس خطے میں موجود غربت کی بڑی وجہ ہے۔
بھارتی آبادی میں کسانوں کا تناسب 60 اور بھارتی GDP میں حصہ 18فی صد ہے۔ 85 فی صد چھوٹے کاشت کاروں کے پاس تین ایکٹر سے بھی کم زرعی اراضی ہے۔ اِدھرپاکستانیGDPمیں زراعت کا حصہ 18.9 ہے، جب کہ محنت کش طبقے کا 42.3 اس شعبے میں مصروف عمل ہے۔
تقسیم کے بعد اس ضمن میں، نیم دلی سے کیے جانے والے اقدامات مختلف نظریات سے ترغیب شدہ تھے۔ سوشلسٹ فکر کے تحت نہرو نے زرعی اصلاحات لاتے ہوئے بڑی جاگیروں کاخاتمہ کیا۔ پاکستان میں بشمول بھٹو خاندان، بڑے جاگیردار حکومت اور پارلیمنٹ کا حصہ رہتے آئے ہیں، صرف کھوکھلے دعوے اور وعدے کیے گئے یا پھرنام نہاد زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ یہاں پانچ فی صد افراد کے پاس 64 فی صد زرعی زمینوں کا اختیار ہے۔ دیہی گھرانوں میں سے نصف بے زمین ہیں۔
مغرب نے1960میں نئی ٹیکنالوجی اختیار کرتے ہوئے " سبز انقلاب" کی طرح ڈالی، جس میں گندم، چاول اور اناج کی اعلیٰ درجے کی اقسام شامل تھیں۔ یہ عمل کیمیائی کھاد، زرعی کیمیکلز پانی کی منظم فراہمی (بشمول آب پاشی) اور میکانائزیشن سمیت کاشت کے نئے طریقوں سے وابستہ ہے۔ مغرب کی ترقیاتی امداد نے ان طور طریقوں کو برصغیر میں بھی متعارف کرایا، جن کے نتائج منفی رہے، گو یہ ارادی نہیں تھے۔ اِن طریقوں کے نتائج بڑھتی غربت، ماحولیات نقصانات اور عدم مساوات کی صورت سامنے آئے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ "اکنامک لبرلائزیشن" (economic liberalization)کے لیے عالمی تجارتی تنظیم(WTO)کے عزم کے تحت ہندوستانی حکومت زرعی پیداوار میں بڑھوتی سے غذائی تحفظ میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان انقلابی، اقدامات میں زرعی شعبے میں غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کی دعوت دینا، ساتھ ہی کنٹریکٹ فارمنگ اور مارکیٹ کی قیمتوں پر غذائی اشیا کی تجارت کی اجازت دینا شامل ہے۔ مودی سرکار کی " اکانومک لبرلائزیشن "کی پالیسیوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو معیشت کے لگ بھگ تمام شعبوں میں حاوی کر دیا اور یوں مقامی شعبوں اور اداروں کی ترقی میں گراوٹ آئی۔ سبز انقلاب سے بھی یہی نتائج متوقع ہیں۔
ڈبلیو ٹی او (WTO)کی جانب سے آج مغرب کی جدید آئیڈیالوجی "ڈیجیٹل ایگری کلچر" کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ ایسے ٹولز ہیں، جو معلومات یا الیکٹرانک ڈیٹا اکٹھا کرنے، محفوظ اور شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور یوں پوری ایگری کلچر فوڈ چین پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ "Agriculture 4.0″گزشتہ زرعی انقلابات کے بعد نئے زرعی انقلاب کے طور پر اپنے کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔
اسکالرز نے مستقبل میں مزدوری کے روایتی تصور سے دوری، سرمائے سے معمولی دوری اور انسانی سرمائے کے استعمال میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ زراعت میں افرادی قوت کی گھٹتی ضرورت کے ساتھ ایک معاشرتی ردعمل، ممکنہ طور پر مصنوعی ذہانت یا روبوٹس کے استعمال کے آس پاس کے زمانے میں، چوتھے انقلاب کے ساتھ پیدا ہوگا۔ ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ کوالیفائیڈ ماہر اسٹاف، جو درکار مہارتوں کے حامل ہو، ان کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔
فیس بک اور دیگر بین الاقوامی کارپوریشن زرعی پراجیکٹس کے لیے ڈیجیٹل ٹولز فراہم کرنے کے کاروبار میں اتر چکی ہیں۔ 2020 کے Farmers Produce Trade and Commerce ایکٹ میں انٹرنیٹ اور فعال ڈیوائسز کے ذریعے آن لائن خرید و فروخت کے متبادل تجارتی چینلز اور الیکٹرانک تجارت کی اجازت شامل ہے۔
ادھر امبانی اور ان کا "ریلائنس گروپ "ان قوانین کی منظوری اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں اپنی کسی بھی طرح کی شمولیت سے انکاری ہے۔ البتہ مودی حکومت ان کی جانب سے اُسے پرموٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے بعد کسانوں کی جانب سے اُن کے ٹاورز کی توڑ پھوٹ کا خدشہ ہے۔
فیس بک Jio Platforms میں 43، 574کروڑ کی سرمایہ کاری کرے گا، جو ریلاینس انڈسٹریز کی ملکیت ہے۔ اس سرمائے کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں 60 ملین مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، 120 ملین کسان، 30 ملین چھوٹے تاجر اور لاکھوں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے ڈیجیٹل حل فراہم کیے جائیں گے۔
واٹس ایپ، جو فیس بک ہی کی ملکیت ہے، اس ڈیل میں کلیدی کردارادا کرے گا، جس کا اہم فیچر "واٹس ایپ پے" تیاری کے مراحل میں ہے۔ البتہ مکیش امبانی کا دعوے ہے کہJio ہندوستان میں، ہندوستانیوں کے لیے ہندوستانیوں کا تیار کردہ ایک "اسٹارٹ اپ" ہے اور ہمارے دلوں میں اس کے لیے خاص مقام ہے۔ اس "خاص مقام "کا مطلب بدحالی کے شکار کسانوں کی مشقت پر بے پناہ منافع کمانا ہی ہوسکتا ہے۔
1985 تا 1988 پاکستان میں سرتاج عزیز اور 1979 میں بنگلہ دیش میں میجر جنرل (ر) نور الاسلام جیسے نمایاں، باصلاحیت اورپر عزم افراد کی اعلان کردہ مثبت پالیسیوں پر غور کریں۔ سرتاج عزیز1984 میں زرعی وزیر بنے۔ اُن کے اقدامات کے، جن میں آبی وسائل کا تحفظ شامل تھا، تین پہلو اہم تھے۔ ایک، گندم کے راشنگ سسٹم کو ختم کرنا۔ دو، چاول اور کاٹن کے لیے سپورٹ پرائز کو ختم کرنا، مگر چینی اور گندم کے لیے برقرار رکھنا۔ تین، زرعی مصنوعات کی قیمت کا ان پٹ کے ذریعے تعین کرنا، تاکہ کاشت کاروں کو مناسب قیمتیں مل سکیں۔
دیگر اقدامات کی طرح جن میں مچھلی اور پولٹری فارمنگ کا فروغ اور گرامین بینک، کا تصور شامل تھا، جنرل اسلام نے، جن کا نک نیم Shishu تھا، انھوں نے خشک موسم سرما میں گندم کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی۔ (اس وقت امریکی سفارت خانے کے پاس غذائی امداد کی مد میں 7 ملین ڈالر تھے اورامریکی سفیر جن چار ممالک سے گندم کے بیج خریدنے پر مسرور تھے، پاکستان ان میں شامل تھا)یوں گندم پیداوار 0.12 ملین ٹن سے بڑھ کر 0.78ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ چپاتی کھانے کے چلن نے چاول پر انحصارکو کم کیا۔ اس طرح کے اقدامات اب بھی ممکن ہیں، ضرورت سرتاج عزیز اور نورالاسلام جیسے مخلص لوگوں کی ہے۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔)