ڈی ایچ اے کراچی اور سی بی سی، چندمغالطوں کا ازالہ
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں گزشتہ 90سال میں تاریخ کی سب سے زیادہ بارش ہوئی، صرف 12گھنٹے میں 231ملی میٹر ریکارڈ بارش ہوئی۔ 13برس بعد حب ڈیم 338.5 فٹ کی سطح عبورکرگیا۔ صرف ماہِ اگست میں 484ملی میٹر(یعنی 19انچ) بارش ہوئی۔
طوفانی بارشوں کے پانی سے نالے اور نکاسی آب کی لائنیں اُبل پڑیں، شہری کچی آبادیاں، مضافاتی دیہی اور شہری علاقے زیرِ آب آگئے۔ شہر میں نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔ 27اگست کو کراچی کی مرکزی شاہراوں پر سیلابی پانی کے باعث گھنٹوں ٹریفک جام رہی اور صورت حال اس قدر سنگین ہوگئی کہ کراچی کے 7میں سے 6اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔ شہر میں 10سے 34گھنٹے تک بجلی کی فراہمی معطل رہی۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ( ڈی ایچ اے) اور ملک کی دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیز میں ترقیاتی کاموں کے معیار اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ، ٹرانسفر اور سیکیورٹی میں شفافیت کی وجہ سے عوام، سرمایہ کاروں اور الاٹیز کی نظر میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ کراچی میں حالیہ تاریخی بارشوں میں ڈی ایچ اے کراچی شدید تنقید کی زد میں رہا۔ نشیبی علاقوں میں گھروں میں بارش کا پانی داخل ہوگیا جو ڈی ایچ اے کے کل رقبے کا پانچ فیصد ہیں۔ کئی دنوں تک بجلی کی بندش نے یہاں کے مکینوں کی زندگی اجیرن بنا دی اور کم و بیش سبھی ٹی وی چینلز نے ان حالات کو براہ راست نشر کیا۔
ڈی ایچ اے کراچی کسی بھی گھر کی تعمیر سے قبل تمام تکنیکی اور قانونی تقاضے پورے کرتا ہے۔ گھرکی تکمیل کے بعد انتظامات اور انفرااسٹرکچر کی ذمے داری کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ(سی بی سی) کی ہوتی ہے۔
کراچی کے کل 3780مربع کلو میٹر میں سے ڈی ایچ کا رقبہ 35مربع کلو میٹر ہے جو ایک فی صد سے بھی کم بنتا ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ 5فی صد علاقہ تیز بارشوں سے متاثر ہوا جب کہ دوسری جانب کراچی کے 70فی صد علاقے برسات سے متاثر ہوئے جن میں سے 35فی صد میں شدید تباہی ہوئی۔ ڈی ایچ اے کے اعشاریہ 5 فی صد علاقے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ڈی ایچ اے کے بعض علاقوں میں شدید مسائل سامنے آئے۔
سی بی سی کے زیر انتطام علاقہ 51مربع کلو میٹر ہے جس میں 7.7مربع کلو میٹر پر پھیلا فیز VI سب سے زیادہ متاثر ہوا، اس کے ایک مربع کلو میٹر کا علاقہ چار پانچ روز تک متاثر رہا جب کہ سی بی سی نے بقیہ 50کلو میٹر علاقوں کو 48گھنٹوں میں کلیئر کرالیا۔
برسات کے بعد ڈی ایچ اے کے فیز I، II، IIایکسٹینشن، IV، V، Vایکسٹینشن، بلاک 8اور 9، بازار(کچی آبادی) اور فیز سکس، سیون، سیون ایکسٹینشن کے بڑے علاقے سے 48گھنٹے کے اندر برساتی پانی نکالا جاچکا تھا۔ اتحاد کمرشل، بخاری کمرشل اور نشاط میں شدید بارش ہوئی اور ان علاقوں میں نکاسی کا کافی نظام نہ ہونے کی وجہ سے چار پانچ روز تک پانی جمع رہا جس کے باعث وہاں پانی کی نکاسی کے لیے اضافی مشینری لگانی پڑی۔
بہرحال یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس علاقے میں نکاسیٔ آب کا انفرااسٹرکچر 48گھنٹوں کے دوران 217ملی میٹر بارش کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب کہ 27اگست کو بعض علاقوں میں ایک گھنٹے کے دوران 130ملی میٹر اور چار گھنٹوں میں 230ملی میٹر تک بارش ہوئی۔ یوں شہری علاقوں میں سیلاب آیا۔
سی بی سی اور ڈی ایچ اے کراچی کے جنوبی حصے میں ہے جو برساتی نالوں اور دیگر آبی گزرگاہون کا آخری سرا ہے۔ یوں اس علاقے پر پانی کا دباؤ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث کئی زیر آب علاقوں سے چارپانچ دن تک پانی نہیں نکالا جاسکا۔ بدقسمتی سے ان علاقوں کا موازنہ دیگر شہر سے کیا گیا جس کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کا انتظامیہ کے بارے میں تاثر بُری طرح متاثر ہوا۔
ظاہر ہے کہ ڈی ایچ اے کے رہنے والے بہتر خدمات کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ پانی کی تقسیم کی ذمے داری سی بی سی کی ہے تاہم ڈی ایچ اے کے مکینوں کو یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ پانی کی لائنیں کئی دہائیاں قبل بچھائی گئی تھیں۔ علاقے کو نوے لاکھ گیلن یومیہ پانی درکا ہے جس میں سے واٹر بورڈ صرف 40لاکھ گیلن یومیہ فراہم کرتا ہے۔ سی بی سی کو باقی طلب خود پوری کرنا پڑتی ہے۔ ڈی ایچ اے کے مکینوں کو بجلی کے اضافی بلوں کا مسئلہ درپیش رہتا ہے، خصوصا بارش کے دنوں میں بجلی کی معطلی اور لائنوں کی خرابی سے پیدا ہونے والے خطرات الگ ہیں۔
2007اور 2008میں ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر کامران قاضی نے بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے قابل تعریف اقدامات کیے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں برساتی پانی جمع ہونے کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ تاہم اب اس نظام میں کئی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نکاسی آب کی لائنوں میں رکاوٹوں اور بعض مقامات پر مرمت میں غفلت کے باعث مکینوں کو حالیہ بارشوں میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈی ایچ اے اور سی بی سی نے ممکنہ بارشوں کے پیش نظر مئی اور جولائی 2020 میں پیش بندی کے لیے ایک منصوبے پر کام شروع کردیا تھا۔ اس میں خیابان شمشیر اور مجاہد، خیابان سحر اور محافظ کمرشل ایونیو، ای اسٹریٹ، بی اسٹریٹ اور خیابان بحریہ سے برساتی پانی کی نکاسی کے لیے انتظامات کیے گئے۔ کورنگی روڈ کے ساتھ محمودآباد، جامی نالہ، ٹرانزٹ کیمپ، سن سیٹ بلووارڈ اور چوہدری خلیق الزماں روڈ، نہر خیام اور محمودآباد سمیت دیگر کھلے نالوں کی صفائی بھی کی گئی۔
سی بی سی نے تقریباً 5کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کیے اور اس کے علاوہ اضافی مشینری اور آلات کا بھی انتظام کیا۔ 150گاڑیاں اور 150پیٹرول انجن پمپ، 11کینال پمپ، 8موبائل ہائیڈرنٹ، 4ٹربائن مع 10ایچ پی موٹر اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 6پیٹر پمپس، 40سکشن پمپس، گرے واٹر باؤزرز کے لیے 10سکشن پمپس، 1500 فٹ سکشن اور ڈیلیوری پائپ اور 45سکشن باؤزر کی اضافی مشینری بھی استعمال ہوئی۔ تین ایکسی ویٹر اور 6ڈمپر کرائے پر حاصل کیے گئے۔
کراچی میں جہاں اوسطا9سے 10دنوں میں پانی کی نکاسی ہوئی ڈی ایچ اے میں وہی کام ایک سے چار روز کے اندر کیا گیا۔ متاثرہ مکینوں کے لیے سی بی سی نے 10ریلیف کیمپ بنائے اور ریسکیو آپریشن کے دوران متاثرہ خاندانوں میں خوراک کے 500 پیکٹ تقسیم کیے گئے۔ علاقہ مکینوں نے دو بنیادی وجوہ کی بنا پر سی بی سے کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا۔ اولاً بارش کا ا پانی نکالا جائے۔ دوئم پانی کی فراہمی کا تھا۔ مکین ان مطالبات کے لیے پُرامن احتجاج کا پورا حق رکھتے تھے لہذا قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے اس بنیاد مسئلے کو حل کرنے کے لیے سی بی سی 44پانی کی فلٹریشن اور آر و پلانٹ کی تنصیب کرچکی ہے اور اضافے کا منصوبہ ہے۔ پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسی کے لیے مزید پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ ڈی ایچ اے COGEN اور ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ بجلی کی فراہمی کے لیے واٹر پروف زیر زمین لائنیں بچھائی جائیں گی۔
حکومت پنجاب نے جس طرح لاہور میں زیر زمین ٹینک بنائے ہیں اسی طرزپر پانی کی نکاسی کے منصوبوں پر بھی کام ہورہا ہے۔ اس پانی کو شجر کاری کے لیے استعمال کیا جائے گا جس سے ڈی ایچ اے کو پانی کی بھی بچت ہوگی۔ حالیہ بارشوں کے بعد ڈی ایچ اے، سی بی سی اور کے الیکٹرک ہنگامی حالات کے لیے حکمت عملی پر نظر ثانی کررہے ہیں۔
سی پی این ای کی ایگزیکیٹو کمیٹی، اسٹیشن کمانڈر کراچی اور صدر سی بی سی بریگیڈیئرعابد عسکری کے ساتھ ملاقات میں ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر عاصم نے علاقہ مکینوں کو سہولتوں کی فراہمی اور شکایات دور کرنے کے لیے دردمندی سے تجاویز سنیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اس ملاقات میں کمانڈر فائیو کور لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز کی خصوصی توجہ شاملِ حال تھی۔ کور کمانڈر کراچی کے اقدامات کا اعتراف ضروری ہے کیوں کہ ان بروقت فیصلوں کی وجہ سے شہر ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا۔
ملک کی سرفہرست ہاؤسنگ سوسائٹی ہونے کی وجہ سے اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے بلا شبہ ڈی ایچ اے کو اپنے نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی، سب سے پہلے اپنے موجودہ مکینوں کا دل جیتنا ہوگا۔ سرمایہ کاروں اور رہائش کے خواہش مندوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی خاطر ڈی ایچ اے کے لیے یہ بڑی آزمایش ہوگی۔ بحرانوں کے بیچ اپنی اہلیت ثابت کرکے امیدوں پر پورا اُترنا ہی تو اصل امتحان ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امورکے تجزیہ کار ہیں )