Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Zanjeeren

Zanjeeren

زنجیریں

کپتان کا اعلان یہ تھا کہ قیدیوں کی زنجیریں کاٹ ڈالیں گے لیکن وہ بھول گئے، سبھی کچھ بھول گئے۔ اقتدار کی سرمستی میں بادشاہ سب کچھ بھول جایا کرتے ہیں۔ ہم خود بھی زندہ ہیں۔ اپنی زنجیریں خود بھی کاٹ سکتے ہیں۔

ہفتے کی شام علیم خاں نے فون کیا: کیا پیر کی صبح تھوڑی سی فراغت میسر ہے؟ عرض کیا"اسلام آباد واپس نہ جانا ہو تو پورا دن تعطیل کا ہوتا ہے "۔ بولے:کوٹ لکھپت میں چھوٹی سی تقریب ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور سمیت کچھ دوستوں کو بھی زحمت دی ہے۔

کوٹ لکھپت میں گاڑی جیل کے دروازے پر جارکی۔ وہیں، جہاں میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف مقید رہے، حمزہ شہباز اب بھی موجود ہیں۔ 3700عام قیدی بھی، جن کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ جن سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں۔

خیال تھا کہ لیڈر نے ووٹروں کو لبھانے کے لیے کوئی فلاحی منصوبہ بنایا ہوگا۔ علیم خاں لاہور کے ان رؤسامیں سے ایک ہیں، بے دریغ جو خرچ کرتے ہیں۔ چند برس میں دھند سے ابھرے اور چمک اٹھے۔ لاہور میں تحریکِ انصاف جو کچھ بھی ہے، اس میں علیم خاں کا دخل سب سے زیادہ ہے۔ تجسس یہ تھا کہ لیڈر کا کام فقط سیاست کاری ہے یا درد کی کوئی چنگاری بھی۔ کسی بھی نامور آدمی کی طرح وہ ایک متنازع شخصیت ہیں۔ اپنے ذاتی دوست کے اقتدار میں، وہ عتاب سے گزرے مگر سلامت کھڑے ہیں۔

اس روز جو منظر دیکھنے میں آیا، کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔ 1960ء کے عشرے میں چیکو سلواکیہ کے کمیو نسٹ ڈکٹیٹر مارشل ٹیٹو لاہور پہنچے۔ انہیں بادشاہی مسجد لے جایا گیا۔ یہ سرخ پتھر داراشکوہ نے حضرت میاں میرؒ کے مزار کی تعمیر کے لیے جمع کیا تھالیکن فاتح اورنگزیب نے اسے عبادت گاہ میں ڈھال دیا۔ مذہب بیزار مارشل ٹیٹو بے دلی سے سیڑھیاں چڑھے، جن کے بائیں ہاتھ بیسویں صدی کے علمی مجدد اقبال ؔ کا مزار اور پھر ایک طاق میں سرورِ کون و مکاں ؐ کے نعلینِ مبارک رکھے گئے ہیں۔ ان کے جوتوں پر جب خول چڑھایا گیا، تووہ اور بھی بے زار ہوئے۔ پھریکا یک اس عمارت پہ نگاہ پڑی، جس میں عمر بھر تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھنے والے اورنگزیب کا جلال جھلکتا ہے۔ ٹیٹو سکتے میں آگئے۔ دیر تک خاموش کھڑے دیکھتے رہے۔ تین سو برس پہلے مٹی اوڑھ کر سونے والے حکمران، اس کے تاریخ ساز معماروں اور مغل طرزِ تعمیر کی ہیبت اجنبی کے دل و دماغ پہ چھا گئی تھی۔

اس عامی کے ساتھ یہی ہوا۔ ایک آدھ نہیں، کتنے ہی بندی خانوں سے گزر ہوا ہے۔ اکثر سیاسی قیدیوں کی ملاقات کے لیے۔ مگر یہ ایک اور ہی طرح کا منظر تھا۔ ایک دمکتی ہوئی دلکش عمارت۔ تب اچانک یہ انکشاف ہوا کہ یہ قید خانے کا ہسپتال ہے، جو کبھی ایک اجڑی بیوہ کی مانند تھا، اب حسنِ تعمیر کا ایک نمونہ۔ سبزہ زار، فوارے اور برآمدے۔ ٹائلوں اور تراشے ہوئے پتھروں سے آراستہ۔ پورا ہسپتال ائیر کنڈیشنڈ۔ ایچ آئی وی، ذہنی معذوروں، ٹی بی اور عام مریضوں کے لیے الگ الگ وارڈ۔ ایک پوری لیبارٹری۔ کسی بھی اعلیٰ شفاخانے کی طرح بہترین بستر، چمکتے فرش اور در و دیوار کے سوا، ایک ہومیو پیتھک کلینک اور مشہور قرشی دوا خانے کی مد د سے یونانی طریقِ علاج بھی۔

باقی تفصیلات اور بھی حیران کن۔ 160 اچھے گھریلو معیار کے غسل خانے۔ کپڑے دھونے کے لیے جگہ مخصوص اور خاص انتظامات۔ کھانا گرم کرنے کے لیے انگیٹھیوں کا بندوبست کہ جیل خانوں میں گیس کے چولہے نصب نہیں ہوتے۔ چار مساجد کے لیے خاص قالین۔ صاف پانی کے لیے چار فلٹریشن پلانٹ۔ پوری عمارت میں ہر کہیں ہیٹر لگے ہوئے۔ ہر قیدی کے لیے روزمرہ کی تمام ضروریات کا اہتمام۔ پتھر کے فرش صاف کرنے کے لیے مخصوص مشین۔ ڈیٹول اور ڈیٹرجنٹ، بیرکوں میں 150 کولر جوگرما کی شدت کو تحلیل کرتے ہیں۔

جیل کی اذیتوں میں سنگین ترین اذیت یہ ہے کہ ایک قیدی کی بیماری فوراً ہی دوسروں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ جلدی بیماری سے جلدی بیماری اور ٹی بی سے ٹی بی۔ 2400 کی جگہ 3700 قیدی ٹھونس دیے گئے ہوں تو ظاہر ہے کہ اور بھی خطرناک۔

سالن پکا رکھا تھا اور سٹیل کے ایسے برتنوں میں جو تقریبات میں ہوتے ہیں۔ روٹی کے چار پلانٹ۔ ہر ایک پر درجن بھر چپاتیاں دو اڑھائی منٹ میں پک جاتیں۔ بتایا گیا کہ یہ مونس الٰہی کا عطیہ ہیں جو کبھی یہاں رہے تھے۔ اگلے دن میں نے ان سے بات کی۔ تجسس یہ بھی تھا کہ ایسی مشین کہاں بنتی ہے۔ وہ ٹال گئے اور اصرار کرتے رہے کہ کہانی میں ان کا نام نہ لکھا جائے۔

کچھ ہی دیر پہلے علیم خاں نے مجھ سے کہا تھا: چوہدری خاندان کی عورتیں عجیب ہیں۔ اپنے زیور تک عطیہ کر دیتی ہیں۔ جو بات شاید انہیں بھی معلوم نہ تھی کہ یہ روایت بیگم چوہدری ظہور الٰہی سے چلی آتی ہے، جو یتیم بچیوں کو بیٹیوں کی طرح پالتیں اور بیٹیوں کی طرح رخصت کرتیں۔ سپرنٹنڈنٹ چوہدری اعجاز اصغر سے سرگوشی میں عرض کیا: ایک آدھ قیدی کا جرمانہ یہ ناچیز بھی ادا کر سکتاہے۔ وہ مسکرائے اور بولے: 80 لاکھ کے عوض سب رہا ہو چکے۔ خان صاحب کے مزید دس لاکھ روپے ہمارے پاس رکھے ہیں۔ معلوم ہوا کہ 800 پھل دار پودے بھی پچھلے دنوں گاڑے گئے ہیں۔

انس اور الفت کے ساتھ کسی نے ڈپٹی سپرنٹنڈٹ کا ذکر کیا۔ چھ ماہ تک پورے انہماک اور خلوص سے جو منصوبے میں جتے رہے۔ دانتوں کے ایک معالج کا بھی، جو ہر سہ پہر اپنے کلینک سے اٹھ کر کوٹ لکھپت چلے آتے ہیں۔ رضا کارانہ۔

پاکستانی معاشرہ عجیب ہے۔ ایک طرف ایسے کٹھور دل ہیں، ایسی جہالت، ایسے بے حس اور سفاک لوگ کہ گھن آتی ہے۔ دوسری طرف ماحول کو فروزاں کرتے اللہ کے عاجز بندے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی پتھر سے روشنی پھوٹ پڑتی ہے۔

تین بار وفاقی وزارت کا بوجھ اٹھانے والے رانا نذیر سے ابھی ابھی میں نے بات کی۔ اگر چند آدمی، بنیادی طور پر ایک ہی شخص صوبے کی سب سے بڑی جیل سنوار سکتا ہے، مشقت تو خود قیدی ہنر مندوں نے کی اور سامان پہ صرف چھ کروڑ اٹھے تو دوسرے مقامات پر یہ کیوں ممکن نہیں۔ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے صنعت کار تویوں کشادہ دل ہیں۔ کہنے کی دیر تھی کہ جہاندیدہ آدمی کے لہجے میں نوجوانوں کا سا گداز پھوٹا۔ کہا: کیوں نہیں۔ سوچا؛گوجرانوالہ میں ایس اے حمید ہیں۔ ذوالفقار چیمہ ہیں، نثار چیمہ ہیں۔ رانا ناصر ہیں، عرفان شیخ اور عامر رحمٰن، ایک دن کھڑے کھڑے جنہوں نے اپنی ایک تہائی دولت لٹا دی تھی۔

بارہ برس ہوتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خاں جیل میں جنرل مشرف کے قیدی عمران خاں سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ لگ بھگ ایک تہائی قیدی بے قصورہیں۔ کوئی جن کی مدد نہیں کرتا، کوئی جن کا حال نہیں پوچھتا۔

کپتان کا اعلان یہ تھا کہ قیدیوں کی زنجیریں کاٹ ڈالیں گے لیکن وہ بھول گئے، سبھی کچھ بھول گئے۔ اقتدار کی سرمستی میں بادشاہ سب کچھ بھول جایا کرتے ہیں ہم خود بھی زندہ ہیں۔ اپنی زنجیریں خود بھی کاٹ سکتے ہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Zindagi, Mohabbat Aur Mehnat (1)

By Muhammad Saqib